![]() |
انسانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ انسانیت کے مستقبل سے مایوس ہے۔
وہ چاند کی ویران غاروں میں جھانکنے کی جرأت تو کر چکا ہے۔
لیکن زمین پر موجود انسان کے آنے والے کل سے خوفزدہ ہے۔ وہ انسان کو لڑتا جھگڑتا
اور فساد برپا کرتا دیکھتا ہے تو گھبرا جاتا ہے۔ وہ بلی کو دیکھتا ہے جو چوہے کو
کھا جاتی ہے۔ وہ شیر کو دیکھتا ہے کہ بکری کو چیر پھاڑ دیتا ہے۔ وہ بڑی مچھلیوں کا
مشاہدہ کرتا ہے کہ وہ چھوٹی مچھلیوں کو ہڑپ کر جاتی ہیں۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ
کائنات میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔ وہ انسان سے اعمال صالح کی
توقع نہیں رکھتا۔
وہ خالق کائنات کوایک تخریبی قوت سمجھتا ہے۔(معاذ اللہ)
لیکن افسوس کہ وہ اس چڑیا کی طرف نہیں دیکھتا جو اپنے بچوں کے منہ میں ایک ملکوتی معصومیت کے ساتھ دانہ ڈالتی ہے۔
اس کی نظر ان دریاؤں پر نہیں پڑتی جو پہاڑوں کی رگوں سے نکل کر زمین کو سیراب کرتے ہیں۔
اس کی نظر چٹختے ہوئے غنچوں پر
نہیں پڑتی جو حیات عالم کو پر بہار زندگی کی نوید دیتے ہیں۔وہ مہکتے ہوئے پھولوں
کو نہیں دیکھتا جو کرہ زمین کے چہرے کو غازے اور افشاں سے سجا دیتے ہیں۔
اس کی نظر سے شاخوں کی اطاعت نہیں گزری جو دست بستہ سر جھکا کر اپنے پھل مخلوقات میں تقسیم کرتی رہتی ہیں۔ وہ ہواؤں کی دل افروزی سے بے خبر ہے، جن کے فرحت افزا جھونکےحبس کی بدصورتی سے تن تنہا بر سر پیکار ہو جاتے ہیں۔ ہاں یہ سچ ہے کہ وہ اگر کائنات کے تعمیری رویے پر نظر ڈالتا تو اسے یہ کائنات جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی دنیا نظر نہ آتی۔
اس جلدباز انسان کو جان لینا چاہئے کہ پروردگار عالم نے زمین پر جس عاشق صادق دل کی تخلیق کی وہ نمونے کے طور پر محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں کرہ ارض پر ظہور فرما چکا ہے۔
کتاب کا نام:عورت ابلیس اور خدا
مصنف کا نام:جناب ادریس آزاد صاحب