''میں اس غلام کے رب اللہ کے نام سے تیر چلاتا ہوں''

اہل ایمان کا قصہ، ایمان والوں کا امتحان،
''اہل ایمان کا قصہ جب انہیں آگ سے بھری ہوئی خندقوں میں پھینکا جانے لگا''

حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے رسول اکرم نے بیان فرمایاکہ پہلےزمانے میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔جس کے دربار میں ایک جادوگرہوا کرتا تھا۔جب وہ جادوگرضعیف ہوگیا اس نے بادشاہ سے فریاد کی کہ بادشاہ سلامت میری عمر اب کم رہ گئی ہے، اس لیے کوئی لڑکا میری حوالے کریں تا کہ میں اسے اپنا فن جادوگری سکھا دوں تاکہ وہ میری وفات کے بعد میرا فن آگے چلا سکے۔

بادشاہ نے جادوگر کےپاس جادوگری سیکھنے کے لئے ایک لڑکا بھیج دیا۔ لڑکے کے گھر اور جادوگر کی درسگاہ کےراستے میں ایک راہب کی عبادت گاہ تھی۔ جادوگر کے پاس جاتے ہوئے ایک دن وہ راہب کی عبادت گاہ میں داخل ہوا اور اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس سے رشد و ہدایت کا کلام سنا۔ راہب کی عارفانہ باتیں اسے بڑی حقیقت سے قریب معلوم ہوئیں۔ اس کے بعد جب لڑکا جادوگر کے پاس جاتا تو اس راہب کی خدمت میں بھی حاضری دیتا اور کچھ دیر کے لیے بیٹھاکر رشد و ہدایت حاصل کرتا جس وجہ سے جادوگر کے پاس پہنچنےمیں دیر ہو جاتی تھی اور جب وہ وہ جادوگر کے پاس دیر سے پہنچتا تو جادوگر اس کی پٹائی کرتا تھا۔

لڑکے نے اس بابت راہب کو بتایا۔ اس نے یہ حیلہ بتایا کہ اگر جادوگر کی مار کا خوف ہو تو اس سے کہہ دینا کہ گھر والوں نے مجھے روکے رکھاہے اور جب گھر والوں کی مار کا خوف ہو تو یہ بہانا کر دینا کے مجھے جادوگر کے ہاں دیر ہو گئی تھی۔ اس کے روز و شب اسی معمول کے مطابق گزر رہے تھے۔کہ ایک دن راستے میں ایک بتہ بڑے جانور کو اس نے دیکھا جس نے لوگوں کی آمد و رفت میں کو مشکل بنا رکھی تھی۔

لڑکے نے اپنے دل میں کہا آج میں جان لوں گا کہ جادوگر حق پر ہے یا راہب۔

پھر لڑکے نے ایک پتھر اٹھایااور کہا اے اللہ !!اگر جادوگر کے مقابلے میں راہب کا طریقہ تجھے محبوب ہے تو اس جانور کو مار دے۔ یہ کہہ کر جانور کو پتھرمارااورا اللہ کے حکم سے وہ بھاری جانور وہیں پر گر کر ڈھیر ہو گیا۔

پھر وہ لڑکا راہب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے تمام واقعہ کی حقیقت سے آگاہ کیا تو اس نے کہا اے بچے اب تو مجھ سے افضل ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تیرا معاملہ اپنی حد کو پہنچ چکا۔ اب عنقریب تجھے مشکلات ا ور آزمائش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر تجھے آزمائش میں ڈالاجائےتو میرے بارے میں نہ بتلانا۔

پھراللہ کے کرم سے یہ حال ہو گیا کہ وہ لڑکا اللہ کے حکم و منشاء سے پیدائشی اندھوں کو بینائی عطاکرنے لگا اوربرص کی بیماری والے بھی اس کےہاتھوں سےشفایاب ہونے لگے اس کے علاوہ بھی ہمہ قسم کی بیماریوں سے انسانوںکو شفایاب کرنے لگا۔ اسی دوران بادشاہ کے مصاحب کو جوکہ پیدائشی اندھا تھا، اس لڑکے کےہاتھوں ملنے والی شفاء کے چرچے معلوم ہوئے تو وہ بھی بہت سامال اور تحائف لے کراس لڑکے کی خدمت میں پہنچا اورعرض کی کہ گرآپ نے مجھے شفایاب کر دیا تو میں یہ جو کچھ لایا ہوں آپ کی نذر کردونگا۔

لڑکے نے کہا کہ بخدا میں کسی کو شفا یاب نہیں کرسکتا بلکہ شفا فراہم کرنا تواللہ تعالیٰ کے اذن سےہے۔ اگر تو اللہ تعالی پر ایمان لائے تو میں اللہ تعالی سے تیرے لئے دعا کروں گا ممکن ہے وہ تجھے شِفا دے دے۔ وہ آدمی اللہ تعالی پر ایمان لے آیا اور اللہ تعالی نے اسے بینائی بخش دی۔

پھر وہ آدمی بادشاہ کی خدمت میں پہنچا اور حسب معمول اس کے دربار میں بیٹھ گیا۔ بادشاہ نےجب دیکھا کہ مصاحب کی آنکھیں روشن ہو گئی ہیں تو پوچھا تیری بینائی کیونکربحال ہوگئی ہے۔ تواس نے جواب دیا کہ میرے پرودگار نے میری بینائی مجھے عطا کی ہے۔

یہ سن کر بادشاہ طیش میں آ کر بولا کیا میرے سوا کوئی تیرا رب کیسے ہوسکتا ہے؟

'' تواس مصاحب خاص نے اللہ کے نام پر ڈٹ کر کہا میرا اور تیرا رب صرف اللہ تعالی ہی ہے''

یہ سن کر بادشاہ شدید طیش میں آگیا اور اس آدمی کو مسلسل درد ناک سزا دینے کا حکم صادر کردیا یہاں تک کہ اس نے سزاؤں سے عاجز آ کر اس لڑکے کا پتا بتا دیا جو اس کے بینا ہونے کا سبب بنا تھا۔ اب بادشاہ نے اس لڑکے کو طلب کروابھیجا۔ لڑکا حاضرہوا تو بادشاہ نے کہا۔

ارے واہ! تونے جادوگری کے فن میں اس قدر کمال حاصل کر لیاہے کہ تو نابیناؤں کو بینائی عطا کرتا ہے اور برص کے مریضوں کو شفا دیتا ہے اور بہت ساری بیماریاں تیرے علاج سے مٹ جاتی ہیں۔

لڑکے نے کہا "اے بادشاہ میں اپنی طرف سے کسی کو شِفا نہیں دے سکتا بلکہ اللہ تعالی ہی مریضوں کو شفا عطافرما تا ہے۔" یہ بات سن کر بادشاہ نے اس لڑکے کو بھی قید میں ڈال دیا اورسزاؤں اور مصیبتوں کے پہاڑ اس کی جان پر توڑنا شروع کر دیے یہاں تک کہ لڑکا عاجز آکرراہب کا پتابتانے پر مجبور ہوگیا اب سپاہیوں کو بھیج کر راہب کو پکڑ کر لایا گیا اور اسے اپنے دین سے مکر جانے کا حکم دیا گیا۔ لیکن اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ اپنے دین اور ایمان سے نہ پھرے گا۔اب بادشاہ کے حکم اس کے لیے ایک آرا لایا گیا اور اسے راہب کی سرکے درمیان میں رکھ کر چلا دیا گیا۔ جس سے اس کے جسم دولخت (ٹکڑے)ہوگیا پھر بادشاہ کا وہ مصاحب خاص لایا گیا جس کی آنکھوں کی بینائی لوٹ آئی تھی۔بادشاہ نے اسے بھی اپنا دین چھوڑنے کو کہا لیکن اس نے بھی انکار کر دیا چنانچہ آرا چلا کر اس کے بھی دو ٹکڑے کر دیے گئے۔

پھر وہ لڑکا لایا گیااور اس سے بھی اپنا عقیدہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن اس نے بھی اپنا دین چھوڑنے سے صاف انکار کر دیا کیا۔

بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے سپاہیوں کے حوالے کر دیا اور حکم دیا اسے فلاں پہاڑکی چوٹی پر لے جاکر اسے اپنا دین ترک کرنے کو کہو۔ اگر یہ اپنا دین چھوڑدے تو ٹھیک ہے ورنہ وہیں سے سرکے بل دھکا دے کر نیچے پھینک دو۔ سپاہی لڑکے کو لے کر پہاڑ پر پہنچ گئے۔ لڑکے نے دعا کی الہیٰ تو ہی کارسازاور نگہبان ہے ان لوگوں سے نپٹ لے۔ چنانچہ پہاڑ زلزے کی زدمیں آگیا سارے سپاہی گر کر ہلاک ہو گئے اور لڑکا صحیح سلامت واپس بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔

لڑکے کو دربار میں زندہ و سلامت دیکھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا اس نے سوال کیا کہ تیرے ساتھ جانے والے سپاہی کہاں گئے اور تو زندہ کیسے ہے۔ تولڑکے نے جواب دیا اللہ تعالی نے میری زندگی دراز کی اورتیرے سپاہیوں کو زلزلے سے ہلاک کیا۔

اس کےبعد بادشاہ نے لڑکے کو دوبارہ اپنےخاص لوگوں کے حوالے کر کے حکم دیا کہ اسے کشتی میں سوار کر کے دور سمندر میں چلے جاؤ اگر یہ اپنے نئے عقیدے سے باز آجائے تو زندگی بخش دیناورنہ اسے سمندر میں غرق کر کے اس کی زندگی خاتمہ کر دو۔

یہ جماعت لڑکے کو لے کر جب سمندر میں کافی دور پہنچی تو لڑکے نے دعا کی یا الہیٰ توہی اُن کا سہارا ہے جن کوئی سہارانہ ہے ،میری طرف سےان ظالموں سے نمٹ لے۔اس دعا کا کرنا تھا کہ کشتی الٹ گئی اور بادشاہ کے تمام خاص لوگ سمندر برد ہوگئےاور لڑکا قدرت الہٰی سے واپس بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔

بادشاہ نے انتہائی حیرانی اور پریشانی میں لڑکے سے پوچھا تیرے ساتھ بھیجے گئے لوگوں کا کیاحشر ہوا لڑکے نے جواب دیا اللہ تعالی نے میری طرف سے ان سے نبٹ لیا اور مجھے محفوظ رکھا۔

پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا اے بادشاہ تو مجھے قتل کرنے پر ہرگز قادر نہیں ہےبلکہ مجھے قتل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کہ وہ طریقہ کیا ہے۔ تولڑکے نے بتایا کہ پہلے لوگوں کو ایک کھلے میداں کے اندرجمع کرو اور پھر مجھے کھجور کے تنے پر مجھے سولی پر لٹکا کر میرے ترکش سے ایک تیر کھینچ کر اسے کمان کے بیچ میں رکھ کر یہ الفاظ ادا کرو۔

''بسم اللہ رب الغلام''

"اس غلام کے رب اللہ کے نام سے تیر چلاتا ہوں"

پھر میرےاوپر نشانہ سادھو۔ جب یہ طریقہ اختیار کرو گے تو ہی مجھے قتل کرنے میں کامیاب ہو سکو گے۔ اب جب کہ اللہ تعالی کو اپنی قدرت دکھانا مقصود تھی تو بادشاہ نے لڑکے کے مشورہ کے مطابق لوگوں کو ایک کھلے میدان کے اندرجمع کیااور لڑکے کو کھجور کے تنے پرسولی پرلٹکا کر اس کے ترکش سے ایک تیر کھینچ کر اسے کمان میں رکھا اور نشانہ سادھ کر کہا،

''بسم اللہ رب الغلام''

پھر تیرچھوڑا تو وہ تیر لڑکے کی کنپٹی میں جا کر پیوست ہوگیا۔ لڑکے نے کنپٹی پر ہاتھ رکھا اوراپنی جان رب کے حضور پیش کردی۔

میدان میں جمع لوگ یہ معجزہ دیکھ کر رب کائنات کی حقیقت اور اللہ احد کی وحدت کی گواہی دینے لگےاور بے اختیار پکار اٹھے۔

''ہم اس لڑکے کےپرودگار پر ایمان لاتے ہیں''

لوگوں نے بادشاہ سے کہا اے بادشاہ تجھے جس بات کا ڈرتھاتو اللہ کی قسم وہی ہوگیا ہے اور تیرےسامنے اللہ وحدہ لاشریک کی قدرت کاملہ عیاں ہوگئی ہے۔ لہذٰا اب یہ تجھ پر لازم ہے کہ توبہ کرےاورخالق حقیقی پر ایمان لے آئے۔

بادشاہ غیض و غضب میں نہاگیا اور حکم جاری کیا کہ سڑک کے کنارے کے ساتھ ساتھی لمبی خندقیں کھودی جائیں جس پر اس حکم کی تعمیل میں لمبی لمبی خندقیں کھودکر ان خندقوں میں بڑی خوفناک آگ بھڑکا دی گئی تو پھر بادشاہ نے حکم دیا۔

"جو اپنے دین سے نہ پھرجائے اسے اس آگ میں ڈالتے جاؤ اور یہ اعلان بھی کردو کہ وہ اس آگ کودتے جائیں"

جس پر اہل ایمان نےایسا ہی کیا۔اسی دوران ایک عورت آئی کہ اس کے بازؤوں میں ایک بچہ تھا جس کی وجہ سےوہ آگ میں کودنے سےگھبرائی تو بچے نے اذن ربی سےگواہی دی "اماں صبر کر یقیناہم حق پر ہیں" اسی واقعے کے پس منظر میں اللہ تعالی کا یہ فرمان عالیشان ہے۔



''چنانچہ اس خاتون نے بے جھجک آگ میں چھلانگ لگا دی ''

بتایا جاتا ہے کہ اس بادشاہ کا نام ذونواس تھا اور علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس ظالم ،غاصب اور بے دین بادشاہ نے صبح سے دوپہر تک 20 ہزار مومنین کو ان خندقوں کی آگ میں گرا کر شہید کردیا۔



کتاب کانام:سنہرے نقوش

مصنف کا نام: جناب عبدالمالک مجاہدصاحب

آپ کی رائے

جدید تر اس سے پرانی