ڈائجسٹ روشن ستارہ | اگست 2021| سیریز1

 



فہرست

 


 

حمنا افضل      

  حمد .1

 

بریسیس         

پرانا فلیٹ.2

ثمر فاطمہ      

 

منفی سوچیں.3

مہوش اکرام آزاد کشمیر

    ماں کی گود.4

ماریہ شبیر۔      

برعکس.5

فرخندہ سلیم کشمیر         

غلامی.6

عشرت صدیق        

 

ادھورا عشق.7

سنبل شہزادی

بھائی انمول.8

سحرش ظفر اسلام آباد       

بچپن کی عید.9

سدرہ شہزادی سیالکوٹ      

معصوم بچی.10

ستارہ منیر      

غزل.11

شفاء کیسا جبین

مٹی سے بنے انسان کو غرور.12

محمد ذولفقار عثمان          

جھوٹے خدا.13

عائشہ کنول            

ذہن پر نقش.14

ناصرہ نواز سرگودھا         

محبت ہمسفر میری.15

 حمد

 

(حمناافضل)

اے رب تو رحمن بھی ہے 

اےرب تو رحیم بھی ہے 

    تیری ذات سب سے عظیم بھی ہے 

    اے رب تو کریم بھی ہے 

تو نے سورج چاند ستاروں کو آسماں پر سجایا ہے 

تو نے ندی نالے سمندر میں پانی بہایا ہے 

  تو نے اچھے برے کا فرق بتایا ہے 

  تو نے سیدھا راستہ بھی دکھایا ہے 

اے رب تو مالک بھی ہے 

اے رب تو خالق بھی ہے 

  تری ذات سب سے  عظیم بھی ہے 

  اے رب تو کریم بھی ہے


                               

                    پرانا فلیٹ   

                       بریسیس                                                                

کافی سالوں بعد میرا یہاں سے گزر ہوا۔ سوچا اپنا پرانا فلیٹ دیکھتا چلوں، چھ منزلہ بلڈنگ کے سامنے گاڑی روکی اور سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ میر

 فلیٹ اس بلڈنگ کے ٹاپ فلور پر تھا۔ مجھے یاد آیا کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ شدید موسم کے اثرات سب سے زیادہ ٹاپ فلور پر ہوتےہیں، مگر میں نے پرواہ نہیں کی، کہ مجھے ٹاپ پہ رہنے کا شوق تھا۔ ابھی پانچویں فلور تک ہی پہنچا تھا کہ خیال آیا واپس لوٹ چلوں مگر میں لاشعوری طور پر  سیڑھیاں چڑھتا رہا۔ باہر سے بلڈنگ کافی صاف ستھری اور مضبوط لگ رہی تھی کیونکہ اچھے علاقے میں بنی تھی، مگر اندر سے گندی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، کتنی ہی دفعہ مکڑی کے جالوں کو ہٹانا پڑا۔

میں چھٹے فلور پر اپنے دروازے پر تھا۔ یہاں کی بلڈنگ کے ڈیزائن میں ٹاپ فلور پر ایک ہی فلیٹ ہوتا۔ میں نے دروازے سے گرد اور جالے صاف کیے، زنگ آلود تالے میں چابی ڈالی مگر تالے نے کھلنے سے انکار کر دیا۔ بہت جتن کیے، کافی دفعہ اوپر نیچے گیا، آخر کار تھک ہار کر ایک تالے کھولنے والے کو بلایا۔ اللّٰہ اللّٰہ کر کے تالا کھلا اور میں اندر داخل ہوا۔

فلیٹ کے اندر بہت تاریکی تھی، میں نے اندر قدم رکھا تو چہراجالوں سے جاٹکرایا، اغ غ  ۔۔! میری زبان سے نکلا۔ گاڑی سے ایک جھاڑو نکال لایا تھا اس سے جالوں کو ہٹایا، سب سے پہلے پردے ہٹائیں اور بڑی مشکل سے ایک کھڑکی کھولی۔ پورے فلیٹ میں گرد اور گند کا راج تھا۔ میں ایک چھوٹے کمرے کی طرف چل پڑا۔ یاد آیا کہ اس فلیٹ کو سجانے میں میری پوری عمر گزری تھی۔ چھوٹے کمرے میں کچھ تصویریں تھیں، کھلونے تھے اور الماری میں کچھ فائلز بکھری تھیں، ساتھ میں کچھ کپڑے بھی پڑے تھے۔

ایک فائل کو اٹھایا اس پہ عمر اڑھائی سال لکھا تھا، گرد جھاڑی اور کھول کے پڑھنے لگا۔ کچھ الفاظ وقت کے ستم نہ سہہ سکے تھے اور مٹ گئے تھے، مگر میں پڑھتا رہا، ایک چھوٹا لڑکا جو بڑی ٹونٹی (tab) تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے مگر قد چھوٹا ہونے کی وجہ سے ٹونٹی کھول کر پانی نہیں پی سکتا۔ پھر وہ بغیر گلاس والی عینک پہنتا ہے اور چھت کی منڈیر پر اپنی ٹوٹی ہوئی گاڑی چلاتا ہے۔ کچی چھت پر گھاس کے پاس چیونٹیوں کو دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ یہ جب بھی مخالف سمت سے آتی ہیں ایک دوسرے کو سلام کرتی ہیں۔ پھر باہر نکلتا ہے تو ہمسائے میں رہنے والے انکل اس کے گال زور سے کھینچتے ہیں درد کی وجہ سےاسکی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، گال لال ہو جاتے ہیں مگر ممی نے بتایا تھا کہ وہ خوبصورت بچہ ہے اس لئے لوگ پیار سے گال کھینچتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سوچتا تھا کہ یہ کیسا پیار ہے جس میں دوسروں کو تکلیف دی جاتی ہے۔ وہ پھر سے چھت پہ چڑھتا ہے مٹی سے کھیلنے کو بہت دل کرتا ہے مگر اسے یاد آتا ہےکہ جب کچھ دن پہلے اس کے کپڑے گندے ہوئے تھے تو چھڑی سے ممی نے دھلائی کی تھی، یہ سوچ کر چپ چاپ ایک طرف بیٹھ جاتا ہے۔

آہ! یہ کمرہ تو بہت گندا اور بے ترتیب ہے، میں نے سوچا اور اگلے کمرے کی طرف چل دیا۔ یہ کمرہ مجھے یاد آیا کہ میں نے چین کے گھروں کی طرز پر بنوایا تھا، کمرے میں چینی ٹی ٹیبل (Tea Table) اور فرنیچر تھا۔ یہ کمرہ قدرے بہتر تھا۔ میں نے جھاڑو سے صفائی کی دیواروں پر بہت سے ٹی وی (tv) لگے تھے، جن میں تصویریں اور ویڈیوز چل رہی تھیں۔ مجھے یاد آیا بہت سا ڈیٹا ڈیلیٹ کرنے والا ہے۔ یہاں بھی فائلز پڑی تھیں، میں نے سب سے پہلے اس کمرے کو ترتیب لگانے کا سوچا۔ الماری پر لکھا عمر 19 سے 27 سال کا جملہ صاف کیا اور صفائی شروع کر دی۔ اس کمرے کی ترتیب "چین کی دنیا" (The Chinese World) کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔

میری بلڈنگ کا ٹاپ فلور کا فلیٹ میرا دماغ ہے، میں پیسے کمانے کی اور جینے کی ہوس میں اس قدر مصروف تھا کہ سانس لینے کی بھی فرصت نہیں تھی۔ مگر اب میں نے تالا کھول لیا ہے، اب میں فائلز کو بھی ترتیب لگاؤں گا اور اس فلیٹ کی صفائی بھی کروں گا۔ منفی ڈیٹا اور فائلز ڈیلیٹ بھی کروں گا۔ میرا قدتقریباً چھ فٹ اونچا ہے، جم اور کرکٹ کی وجہ سے بلڈنگ باہر سے ٹھیک ہے مگر اندر کے حالات برے تھے اب صفائی کے عمل کا آغاز کیا ہے۔

آپ بھی میری طرح لاپرواہی نہ کیجئے گا، خود کو خود احتسابی کے عمل سے گزاریں، لکھیں، بولیں، ویڈیوز بنائیں اور تصویریں بنائیں مگر دماغ کو آرگنائز رکھیئے۔ سپورٹ گروپ (support groups) جوائن کیجیئے اور سب سے بڑھ کر یہ ہنر سیکھیں کہ دماغ کے ڈیٹا کو ترتیب میں کیسے رکھنا ہے؟

بقولِ اقبال

اپنے مَن میں ڈُوب کر پاجا سُراغِ زِندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بَن

منفی سوچیں.3

ثمر فاطمہ (شکرگڑھ)

انسان اپنی سوچ کو ہی عملی جامہ پہناتے ہوے کوئی بھی کام تشکیل دیتا ہے۔ اب یہ اس کی صلاحیت پہ منحصر ہے کہ وہ مثبت پہلو تلاشے یا کہ منفی۔سوال یہ یے کہ ہم کیوں کسی کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں ؟

شاید ہم اس انسان سے بغض رکھتے ہیں وہ ہم سے ایک قدم آگے ہے یا شاید جو چیز اس کے پاس ہے ہمارے پاس کیں نہیں ؟ بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں نا۔ اب یہ بات تو سمجھنے کی ہے کہ جو اس کے پاس ہے وہ اس کا نصیب ہے اور اگر ابھی آپ کے پاس وہ نہیں ہے تو آپ بھی محنت کریں یا صحیح وقت کا انتظار کہ جب آپ بھی اس قابل ہوں ۔لیکن ہم عموماً اس چیز کو ذہن پہ سوار کر لیتے ہیں ۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس نہیں تو اس سے بھی وہ خوشی ،وہ چیز یا انسان جو بھی ہے چھن جائے۔خود اس قابل نہیں بنیں گے اس سے کیسے چھیننا ہے یہ سوچیں گے۔اب اگر بات کی جائے منفی سوچ اور کے تحت ہونے والی تباہ کاریوں کی تو سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں اس سے آپ اور صرف آپ متاثر ہوں گے۔یہ سوچیں آپ کا سکون غارت کر دیں گی اور آپ کو اندر ہی اندر کھا جائیں گی۔ ذہنی طور پر آپ متاثر ہوں گے اور آپ کی صحت پہ اثر پڑے گا۔ اس سے صرف آپ نہیں آپ کے قریبی لوگ بھی زیرِ اثر آئیں گے۔اس لیے اچھا سوچیں اور اچھے پہلو تلاش کریں ۔اس میں سبھی کی بھلائی ہے ۔

ماں کی گود .4

 

مہوش اکرم (تراڑکھل) آ زاد کشمیر

بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایہ ،اس کا مستقبل ہوتے ہیں۔بچے جب اس دنیا میں آ تے ہیں ان کی مثال مٹی کے   برتن کی طرح ہوتی ہے جن کو ان کا بناے والا جس طرح چاہتے ہے بنا لتے ہے اسی طرح بچوں کو بھی جس طرح آ پ چاہتے ہیں ان کی تربیت کر کے اپنے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔اسلام میں بھی بچوں سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے،نرمی سے بات کرنے ،ان کی بہترین تعلیم و تربیت کرنا۔ بچے کی ضرورت پوری کرنا مقصد نہیں وہ تو جانور بھی اپنے بچوں کی  پوری کرتے ہیں مقصد ہے بہترین تعلیم وتربیت ہے۔

ہم لوگوں نے اپنا بچپن کس طرح گزارہ تھا مٹی سےکھیلتے ہوئے، بھاگتے دوڑتے ہوئے،نئے نئے تجربات کرتے  ہوئے ،پر آ ج کل کے بچوں کا بچپن  ہی گم ہو گیا ہے۔مٹی میں کھیلنے سے کپڑے خراب ہوتے ،شور نہ کرو،گندہ نہ کرو ،بس ایک جگہ بیٹھے رہو بڑوں کی طرح۔ہر وقت کی روک ٹوک ان کی صلاحیتوں میں کمی لاتی ہے۔یہ سچ ہے کہ بچہ سات ماہ کی عمر میں ہی ماں کے پیٹ میں سنا شروع کر دیتے ہے وہ اس دنیا میں آ نکھیں کھولتے ہی ان کا دماغ  ایک سپنچ کی طرح کام کر رہا ہوتا ہے جس کا کام ہے پانی کو جذب کرنا اس بات کا خیال نہ کرتے ہوئے پانی گندہ یا شفاف ،اسی طرح بچہ بھی ہر اچھی اور گندی بات کو دماغ میں جذب کرلیتا ہے جو ہم اس کے سامنے بول رہے ہوتے ہیں۔

ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑے سے نچہ بہت لطف اندوز ہوتا ہے،بچہ ایک کونے میں بیٹھا خاموشی سے  سن اور سیکھ رہا ہوتا ہے کس طرح ماں نے ضد کرکے اپنی بات منوا لی وہ بھی بڑا ہو کر اسی طرح کرتا ہے۔

جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے ہم کس طرح اس کے لیے کھلونے اور قیمتی کپڑے لتیے ہیں ۔بچہ کو اس سےکوئی غرض نہیں  ہوتی کپڑے کتنے قیمتی ہیں بچہ کو صرف آپ کی توجہ اور پیارا چاہیے۔

ماں کی گود سے لے کر سات سال تک کا دور بچہ کے لے بہت اہم ہوتا اس دور میں آپ  بچہ کی شخصیت بنا بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں یہ آ پ پر منحصر کرتا ہے۔  آ پ اگر یونیورسٹی کے سال میں بچوں کی تربیت کر نے چاہیں تو مشکل ہے کیونکہ وہ آ پ کے ہاتھ سے نکل چکے ہوتے ہیں

ماں کی گود نچہ کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے آ پ اس کو اتنا موثر اور بہترین بنایں تاکہ ہمارا آ نے مستقبل  روشن ہوسکے۔ آ ج جو کچھ بویں گے وہ ہی 

کل کو کاٹے گے آ ج اگر آپ نے بچہ پر توجہ اور پیارا دیا   تو کل کو وہ  آ پ کو اولڈ ہوم میں نہیں چھوڑے گا بلکہ آ پ کا سہارا بنا گا ۔

  

 برعکس.5

ماریہ شبیر  (چونڈہ۔خان ہری)

ایک چوبیس سال کا لڑکا چلتی ٹرین سے باہر دیکھ کر اونچی آواز میں چلاتا ہے۔دیکھو بابا! درخت پیچھے رہ گئے ہیں۔ہم بہت تیزی سے آگے جارہے ہیں باپ اس کی طرف دیکھتا ہے اور خوش ہو کر مسکرا دیتا ہے۔

ایک نوجوان جوڑا بھی چوبیس سال کے لڑکے کے قریب بیٹا ہوتا ہےاور غور سے اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔اور سوچ رہا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا ہو گیا ہےاور کتنی بچگانہ حرکتیں کر رہا ہے۔

اچانک سے پھر لڑکا چلاتا ہے دیکھو بابا! بادل بھی ہمارے ساتھ ساتھ بھاگ رہے ہیں آخر کار اس جوڑے سے رہا نہ گیا اور لڑکے کے باپ کو کہنے لگے۔کہ آپ اپنے بیٹے کو کسی ماہر نفسیات سے چیک کروائیں۔بوڑھے آدمی مسکرایا اور کہا 'ابھی ابھی ڈاکٹر کے پاس سے آرہے ہیں۔

لیکن ماہر نفسیات کے پاس سے نہیں ہم ہسپتال سے واپس آرہے ہیں۔میرا بیٹا پیدائشی اندھا تھا اس نے آج پہلی دفعہ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھا ہے آج 24 سال بعد اس کو اپنی نظر سے دنیا کو دیکھنے کا موقع ملا ہے۔اس کا یہ رویہ آپ کے نزدیک احمقانہ ضرور ہوگا لیکن میرے نزدیک یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے وہ جوڑا لڑکے کے باپ کے پاس آکر بہت سے ان کہے الفاظ اور آنکھوں میں شرمندگی کے آنسو لیے ہوئے بیٹھ جاتا ہے۔اور انکی خوشی میں شامل ہوتا ہے دنیا میں ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے۔لیکن ہم لوگوں کو بہت جلد ان کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا اور رائے دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ کون ہےاور ان کو کیا مسئلہ ہے۔دوسروں کی زندگی میں جھانکنے کی بجائے اور رائے دینے کی بجائے اپنی زنگی پر توجہ دیں۔

شکریہ

بھائی انمول ہوتے ہیں

(سنبل شھزادی)

 

آج سارا کا کالج میں پہلا دن تھا۔وہ بہت خوش تھی۔لیکن تھوڑی ہی دیر بعد اس کی یہ خوشی پھیکی پڑ گئی۔ جب اسے پتا  چلا کہ آج بابا نہیں بلکہ بھائی اسے چھوڑنے جا رہے ہیں۔سارا کو بھائی نام سے نفرت تھی۔وہ سوچتی تھی کہ ہمیشہ بھائیوں کو کیوں زیادہ فوقیت دی جاتی ہے۔انھیں ہر قسم کی آذادی ہوتی ہے۔ اس کی اس سوچ کے پیچھے اس کی دوستیں تھیں۔جو اسے یہ محسوس کراتی تھیں کہ بھائی بہنوں کی آذادی کی  راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔ وہ صرف حکم چلاتے ہیں۔ وہ بہنوں کو گھر میں قید کرنا چاہتے ہیں۔اسی سوچ کی وجہ سے سارا ہر گزرتے لمحے اپنے بھائی سے دور ہوتی جا رہی تھی۔جبکہ اس کی ماں اسے ہمیشہ یہی کہتی تھیں۔ کہ سارا بیٹا بھائی تو انمول ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بہنوں کی ڈھال ہوتے ہیں۔ جیسے گلاب کانٹوں کے بغیر نہیں ہوتا۔اسی طرح کوئی بھی بہن اپنے بھائی کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ لیکن سارا کو یہ سب باتیں فقط نصیحت لگتی تھیں۔ ایک دن سارا کمرے میں جا رہی تھی کہ سامنے سے اسے بھائی آتا دکھائی دیا۔کہ اچانک سارا گرنے ہی لگی تھی کہ اس کے بھائی نے اسے تھام لیا۔ سارا کا بھائی اس سے بہت محبت کرتا تھا۔ اس نے سارا سے کہا کہ تم زندگی کہ کسی مقام پر بھی پہنچ جاؤ مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ دیکھو گی۔ اور میں تمھیں کبھی گرنے نہیں دوں گا۔سارا اسی وقت غصے سے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ابھی رات آدھی ہی گزری تھی کہ سارا کہ بابا کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔انھیں ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ اپنی زندگی کے آخری سفر کا آغاز کر چکے تھے۔وہ رات ان لوگوں پر قیامت کی رات تھی۔جیسے جسم میں روح ہی موجود نہ ہو۔ ایک ہفتے بعد جب گھر کا ماحول قدرے بہتر ہوا۔ تو سارا نہ سوچا کہ بابا کی زمہ داری اب اسے سنبھالنی ہے۔لیکن وہ یہ سب کیسے کرے گی۔اسے تو کچھ آتا ہی نہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ کھانے کے لیے نیچے اتری ۔ تو اس نے اپنی ماما کی باتیں سنی ۔ وہ سارا کے بھائی کو کہہ رہی تھیں کہ تم نے بہت اچھے سے اپنی زمہ داری کو سنبھال لیا ہے۔ یہ بات سارا کے لیے ہضم کرنا بہت مشکل تھی۔ کیونکہ وہ اپنے بابا کی جگہ سنبھالنا چاہتی تھی۔دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ معاشرے میں صرف مرد ہر کام نہیں کر سکتا ۔بلکہ عورت بھی ہر میدان سر کر سکتی ہے۔اسی حسد میں وہ گھر والوں سے کٹ کہ رہ گئی۔ اس کی ناکامی اسے دن بہ دن اندر سے کمزور کر رہی تھی۔ ایک دن اسے ایک کمپنی سے کال آئی ۔ فون پہ اسے بتایا گیا کہ اسے ایک پوسٹ کے لیے سیلیکٹ کیا گیا ہے۔ جہاں اس کی تنخواہ اس کی مرضی کی ہو گی۔اس بات نے اسے اتنی خوشی دی۔اسے لگا کہ اس کا خواب پورا ہونے جا رہا ہے۔اب وہ اپنے بھائی کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس جلن نے اسے یہ سوچنے کا موقع ہی نہ دیا کہ میں نے تو کسی پوسٹ کے لیے اپلائے ہی نہیں کیا تو سیلیکٹ کیسے ہو گئی۔ خیر اگلے روز جب اس نے یہ بات گھر والوں کو بتائی۔تو اس کی ماما نے انکار کر دیا۔ بھائی نے بھی کہا کہ جب بابا کا اتنا بزنس ہے تو تمہیں نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بات سنتے ہی وہ آگ بگولہ ہو گئی۔اور فوراً سے بولی کہ یہ میری زندگی ہے ۔میں اس میں کسی کو  بولنے کا حق نہیں دوں گی۔اور  ویسے بھی میری مرضی ہے میں جو چاہے کروں۔ اس کی یہ تلخ باتیں پورے گھر کو سنسان کر گئی۔ کتنے ہی روز گزرتے گئے۔ وہ رات دیر تک گھر سے باہر رہتی۔کبھی اوفیشل ڈنر تو کبھی پارٹیز وغیرہ۔ اس دوران اگر کبھی اس کا بھائی بولتا بھی تو وہ کہتی کہ مجھے میری عزت کی تم سے زیادہ پرواہ ہے۔ اس کا غرور سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔ ہر وقت دوستوں کے ساتھ باہر گھومنا اپنی ماں کو تو جیسے وہ بھلائے بیٹھی تھی۔ اس کا بھائی بھی ہفتے کے لیے ملک سے باہر گیا تھا۔لیکن وہ کبھی بھی سارا سے بے خبر نہ رہتا۔ ہفتے کے دن سارا کا بھائی صبح ہی آگیا تھا۔لیکن سارا کو معلوم نہ تھا ۔ہوتا بھی کیسے وہ دو دن سے گھر نہیں آئی تھی۔ سارا کی ماما نے اس کے بھائی کو سب بتا دیا جب وہ پورے گھر میں سارا کو ڈھونڈ رہا تھا۔ ماما کی یہ بات سن کر وہ بہت غصے میں آیا اور چیخنے لگا۔کہ امی وہ تو نادان ہے ۔ بچی ہے لیکن آپ نے اسے اس چیز کی اجازت کیسے دے دی۔ انھوں نے کہا کہ وہ مانتی کس کی ہے وہ تو بس آئی اور کہا کہ میری ڈیوٹی رات کی ہو گئی ہے اور فیصلہ سنا کہ چل دی۔لیکن بیٹا آج دو دن ہو گئے ہیں وہ واپس نہیں آئی۔میرا دل پھٹا جا رہا ہے۔بیٹا کچھ کرو اسے تلاش کرو۔تم تو اس کو کبھی گرنے بھی نہیں دیتے تھے۔وہ تمھارے بابا کا مان تھی۔ سارا کو گھر سے گئے آج ہفتہ ہو گیا تھا ۔لیکن اس کا کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔اس کا بھائی اسے پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا تھا۔وہ جو بچپن میں کبھی سارا کی گڑیا نہیں گم ہونے دیتا تھا ۔آج وہ اپنی سارا اپنی گڑیا کو ہی کھو بیٹھا تھا۔ سارا کے بھائی نے اس کی دوستوں سے پتہ لگوانے کی کوشش کی۔اس کی ایک دوست تھی۔جس سے سارا ہر بات شیر کرتی تھی۔ اس کی شادی ہو گئی تھی۔ اور ایک روز جب وہ اپنے مائیکے آئی تو وہ سارا سے ملنے اس کے گھر آئی۔ اس کے پوچھنے پہ اسے پتا چلا کہ سارا گھر سے غائب ہے۔اسے یاد آیا کہ جب آخری بار اس کی سارا سے بات ہوئی تو وہ بتا رہی تھی کہ آج اس نے اپنے باس کے ساتھ کسی زمین پہ جانا ہے۔شاید کمپنی کی کوئی نئی برانچ وہاں بنانی تھی۔ سارا کے بھائی نے فوراً اس سے آفس کا ایڈریس لیا اور روانہ ہوا۔ وہاں پہنچنے پر اسے پتا چلا کہ یہ کمپنی نہیں بلکہ لڑکیوں کو فروخت کرنے کا اڈا ہے۔جہاں کتنی ہی کلیاں مرجھا چکی تھیں اور اس دن سارا کی باری تھی۔ادھر سارا تکلیف اور شرمندگی کی آگ میں جھلس رہی تھی۔ کہ کاش اس نے کبھی اپنے بھائی کی بات مانی ہوتی۔ کاش اس نے کبھی بھائی کو نیچا دکھانے کے لیے یہ سب نہ کیا ہوتا۔ اس دن اسے اپنے گناہ ایک ایک کر کے یاد آرہے تھے۔اور ساتھ ہی بھائی بھی۔اس دن اسے پتا چلا کہ ماما کیوں کہتی ہے کہ بھائی انمول ہوتے ہیں۔کیونکہ ان کے ذمے معاشرے کی اہم زمہ داری ہوتی ہیں۔ وہ اپنی بہنوں کی ڈھال ہوتے ہیں۔وہ بہنوں پر پابندیاں نہیں لگاتے بلکہ وہ تو اپنے باغ کے پھول کی حفاظت کرتے ہیں۔ کہ کہیں زمانے کی آزمائشیں انھیں کمزور نہ کر دے۔ آج اسے اپنے بھائی کی یاد آ رہی تھی ۔کہ کیسے وہ بچپن سے اس کے نخرے اٹھاتا آیا ہے۔ سارا نے کبھی اظہار نہیں کیا۔ لیکن وہ جانتی تھی کہ اس کا بھائی اس سے بہت پیار کرتا ہے۔ چھپ چھپ کہ رات کو دیکھنا کہ میں سکون سے سو بھی رہی ہوں یا نہیں۔کوئی ہوم ورک ہوتا یا اگر کوئی غلطی ہو جاتی تو بھائی اپنے ذمے لے لیتا۔آج اس کا دل تھا کہ شاید پھٹ جاتا۔آج اسے اپنے ہر کیے پر پچھتاوا ہو رہا تھا ۔اور وہ بس چاہتی تھی کہ کسی طرح آج بھی اس کا بھائی آجائے۔وہ اللہ سے رو رو کر دعائے مانگ رہی تھی۔کہ اچانک اسے یاد آیا کہ اس کے بھائی نے کہا تھا کہ میں تمہیں کبھی گرنے نہیں دوں گا۔اسے یقین تھا کہ بھائی ضرور آئے گا۔اور ایسا ہی ہوا۔سارا کا بھائی کسی طرح اس تک پہنچ ہی گیا۔اور اندر وہ لوگ سارا کی ڈیل فائنل کر رہے تھے۔ کہ اچانک اس کا بھائی پولیس کے ساتھ اندر داخل ہو گیا۔ دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگی اور لاشیں ایک ایک کر کے گر رہی تھیں۔کہ اسی دوران سارا کی نظر اپنے بھائی پر پڑی اور یوں لگا جیسے چمن میں بہار آگئی ہو ۔سارا کی ہمت ذرا بندھی ہی تھی کہ جیسے ہی اس کا بھائی اسے بچانے کے لیے آگے ہوا تو پیچھے سے کسی نے گولی چلا دی۔ سارا کی آنکھیں جیسے اندھیرے میں ڈوب گئی۔اور جب اسے ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو اپنے گھر میں پایا۔جہاں اس کی ماں اس کے پاس تھی۔لیکن شاید کسی کی کمی تھی۔اچانک اس کے منہ سے نکلا ٬

بھائی بھائی“۔اس کے ہوش میں آنے کے بعد اس کی ماما نے بتایا کہ اس کا بھائی ہسپتال میں ہے۔ اس کا آپریشن ہوا ہے۔ لیکن اب وہ خطرے سے باہر ہے۔سارا فوراً سے ہسپتال پہنچی اور اپنے بھائی کو دیکھتے ہی آبدیدہ ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں جیسے آنسوؤں کا سمندر امنڈ آیا ہو۔ وہ جلدی سے بھائی کے سینے سے لپٹ گئی۔اور مسلسل روتی جا رہی تھی ۔ اس کے بھائی نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پے رکھا۔ سارا نے بھائی سے معافی مانگنی چاہی لیکن بھائی نے خاموش کرا دیا۔اور دونوں بہن بھائی ساری رنجشیں بھلا کر ایک ہو گئے۔اس دن سارا کو سمجھ میں آیا کہ بھائیوں کی زمہ داری بڑی ہوتی ہے۔ بہنوں پر  بچپن سے لیکر شادی تک وہ زمہ داریاں نہیں ہوتی جو بھائیوں پر  چھوٹے ہوتے ہی ہوتی ہیں۔ بہنیں تو اپنے آنگن میں محفوظ ہوتی ہے۔ اور بھائی تھوڑا بڑے ہوتے ہی اہم فرائض کی ادائیگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ انھیں انمول اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے گلشن کی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔ موتی کی خفاظت کے لیے سیپ کا سخت ہونا ضروری ہوتا ہے۔انھیں زمانے کی سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ان کے لیے ہر موسم ایک جیسا ہوتا ہے۔ انھیں تاریک شاموں کے ساتھ خود کو ڈھالنا ہوتا ہے۔اور  پگھلتے سورج کے ساتھ خود کو جلانا ہوتا ہے۔ اور دنیا  کا ہر رشتہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن بہن بھائی کا رشتہ ایسا ہے کہ چاہے انسان ختم بھی کر دے پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔ کیونکہ "بھائی تو انمول ہوتے ہیں".

 

سختیاں زمانے کی وہ سب جھیل گیا

 خواہشوں کا اپنی وہ  دم توڑ گیا

 فرمائشوں کو میری اپنا خواب بنا کر

زندگی کو میری بے مثال کر گیا

میں سمجھتی رہی جسے بے انمول

 وہ اپنی زندگی ہی مجھ پہ قربان کر گیا

بچپن کی عید

سحرش ظفر  

سال میں جب تہوار عید کا دن قریب آنے لگتا ہے اور بچوں کو عید کی تیاریوں و انتظار میں خوش و خرم دیکھتے ہیں   تو دل و دماغ کے دریچوں سے وہ بچپن کی کھٹی میٹھی یادیں پھوٹنے لگتی ہے اور چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ رقم ہو جاتی ہے اور پھر  بچپن کی عید کےحسین لمحات آنکھوں کے گرد گردش کرنے لگتے ہیں

 

ہمارا بچپن بھی اسی طرح کی شوخ چنچل اور معصوم یادوں سے بھرا پڑا ہے ۔

رمضان المبارک میں گھر کے چھوٹے بچوں کی ایک ہی ضد کہ روزہ رکھنا ہے تو بچپن کے بیتے دن یاد آتے ہیں جب ہماری عمر نہیں ہوتی تھی روزہ رکھنے کی تو ہم اگھر کے ہر فرد کو فرداً فرداً تاکید کرتے کہ مجھے کل روزے کے لیے لازمی اٹھانا اور پھر اسی چکر میں تراویح پڑھ کر اپنے ارادے پر مہر لگادیتے کہ اب تو اٹھانا ہی اٹھانا تراویح پڑھ کے آٸیں ہیں ۔اور پھر روزہ رکھ بھی لیتے تو  والدین  بچوں کو بہت محبت سے  سمجھاتیں کہ چھوٹے   بچوں کا آدھے دن کا روزہ ہوتا ہے ،کیونکہ ﷲتعالی  بچوں سے بہت  محبت کرتے ہیں تو اس لیے بچوں کے روزے بھی آسان   رکھے گۓ ہیں۔

اور جب ہم اپنے روزے کو مکمل کرتے تو گھر والے اسپیشل افطاری بنا کر خوش کرتیں اور پھر مزید اور روزے رکھنے کا جذبہ بیدار ہوجاتا۔

 

    عید کے کپڑے   وغیرہ والدین جو بھی دلواتے ہم  اسے حاصل کر کے خوشی سے باغ باغ ہو جاتے ،ان سادے سے رنگ برنگے کپڑوں کے ملکیت ملنے پر  ناقابل بیان خوشی محسوس کرتے ، اس  خوشی کی۔جھلک  آج  کے دور کے  بچوں کو ان کی پسند  اور خواہش کے مطابق سب کچھ دلوانے کے بعد بھی نہیں دکھتی ۔

خیر تو جناب بات ہو رہی ہے ہمارے بچپن کی تو بتاتے چلے کہ پیاریے پیارے جوتے اور چمکتا دمکتا لباس   پہننےکا موقع  ہمیں عید کو ہی ملتا تھا۔ آج ہمارے بچوں کی نظروں میں شائد  اسی لیۓ ہر چیز کی  قدر و قیمت  ختم ہو گئ ہے کیونکہ ہم ان کی ہر  خواہش زبان پر آنے سے پہلے ہی پوری کر دیتے ہیں ۔

جب ہمارے بچپن کے دن تھے تو ہماری عید ہی نہ پوری ہوتی کہ جب تک عید کارڑ”  نہ دیۓ جائیں یہ  تو ناممکن بات ہو گئ۔

جی جناب ہمارے بچپن میں ہر  دوست کو  درجہ با درجہ عید کارڑ دینے کا رواج تھا  ۔

 

عید کارڑز پر دلچسپ لطیفوں و پیار بھرے  اشعار لکھنا بھی خوش کا  باعث سمجھا جاتا تھا۔مثلا

1_ ۔ڈبے پہ ڈبہ ڈ بے میں کیک

میری دوست نادیہ لاکھوں میں ایک

(نوٹ : دوسرے فقرے میں دوست کا نام تبدیل کر کے سب  کو   یہی شعر  بجھوا دیتے  )

2_ چاول چنتے چنتے نیند آگئ

صبح اٹھ کے دیکھا تو عید آگئ

آجکل کے بچے اپنے دوستوں اور رشتے داروں کی لکھائ سے خصوصی طور سے لکھے گۓ ان عید کارڈز کی سنہری خوشی سے محروم ہو گۓ ہیں۔،واٹس ایپ پر فیملی اور براڈ کاسٹ لسٹ  گروپس کے سو دو سو  ممبرز  کو  “گوگل بابا “ پر موجود بنے بناۓ ” برقی کارڑ “ایک ہی   بٹن میں  پوسٹ کر کے بھگتا دیا جاتا ہے ۔

آج انٹرنیٹ پر موجود ہزاروں میل دور بسنے والے “فیس بک فرینڈز “کو “عید  ڈپی بجھوانے کا وقت تو دستیاب ہے ،،پر اپنے پڑوس کے افراد سے سلام دعاکرنے  کی بھی فرصت نہیں۔

چاند رات ہزاروں خوشیاں لے کر آتی تو ہم بازاروں کو نکل پڑتی اسی حوالے سے ایک بچپن کا قصہ یاد آیا جب ہم چاند رات پر بازار چوڑیاں لینے نکلیں تو واپسی پر آتے ہوۓ راستے میں نالے جیسی گھٹری موجود تھی چاند رات  خوشی میں دماغ پر بس عید کا ہی نقشہ تھا تو میرا ایک جوتا اسی میں گر گیا پہنے کی پریشانی تو نہیں تھی کہ اب کیا پہن کے جاٶں گی گھر تک کیونکہ واپسی پر عید کے لیے نٸے جوتے تھے پاس وہ پہن کر ایک پریشانی تو حل ہوٸی مگر دوسری بڑی فکر امی کی طرف سے دماغ پر حاوی تھی کہ اب امی نہیں چھوڑے گی کیونکہ وہ بھی نٸے جوتے لے کر دٸیے تھے کچھ عرصہ پہلے امی نے اب پورا راستہ عید کی خوشی بھول کر اسی سوچ میں مگن تھی ۔گھر پینچے تو معصوم سے شکل بناکر امی کو بتایا تو امی نے  امی جان  نے باتوں سے خوب دلاٸی کی میری خیر اب جو ہونا ھا ہوگیا مگر دکھ اب بھی باقی تھا کیونکہ میری عادت کہ میں چیزوں کی بہت قدر کرتی ہوں یہ سوچ کر کہ یہ بھی کسی کی دن و رات کی محنت کی کماٸی تھی  اور کچھ اسی لیے بھی مجھے اپنے سے جڑی ہر چیز بہت عزیز ہوتی تھی گم ہونے پر ایسے پریشان ہوتی جیسے اس جیسی چیز کا پھر ملنا نا ممکن ہو۔

مہندی لگانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا تو ۔ہم باجی جان  کے گرد داٸرہ بنا کر بیٹھ جاتی اور ہر ایک کی یہی آرزو ہوتی کہ میں پہلے لگاٶں پھر باجی جان سب کی باری باری ،ہتھیلیاں  خوبصورت مہندی کے ڈیزائن سے  سجاتی۔

عیدی” کے تازہ نوٹ اپنے چھوٹے سے بٹوے میں جمع کرنا عید کے روز  سب سے” اہم مشن ” ہوتا ۔عید کے دن تمام مرد جب نماز پڑھنے جاتے ہیں تو ہم بے تابی سے عیدی لینے کے انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔اور پھر ہر بچے کو دس دس یا بیس روپے کے نوٹ سے نوازا جاتا ہے تو سب کے چہروں پر مسکان چھا جاتی ہے کیونکہ دس روپے کے ہرے رنگ کے  نوٹ کی عیدی  ہمیں دل و جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ آج ہمارے بچے  جیب خرچ میں اتنے زیادہ پیسے لیتے ہیں کہ اب ان کی نظر میں 500 یا100 کی عیدی کی وہ اہمیت نہیں جو اس وقت کے 10 روپے کے نوٹ میں   ہوتی  تھی اس زمانے میں سارا وقت  موبائل اور انٹرنیٹ  پر صرف نہیں کیا جاتا تھا بلکہ  آس پڑوس کی خبر گیری اور احساس کرنا تہزیب کا حصہ تھا اسی لیۓ ہم سب بچے بے فکری سے ایک دوسرے کے گھر  جاتے اور خوب کھیلتے ۔

 عید کے روز بھی ہم ا پنی تمام کزنوں  کے” سنگ  ایکدوسرے کے گھر عید مبارک کہنے جاتے تو خوب ہلا گلہ کرکے آتے ۔ہمارے پڑوس میں ایک بہت بڑا گھر ہے ہر ایک کا اپنا اپنا خاندان ادھر جب بھی ہم جاتے ہیں تو وہ کیلسی والا جوس بنا کر دیتے  ہم سب کو تو ہم خوب لطف اٹھاتے  اس بات کا ہماری دو کزنیں جڑواں بہنیں ہیں وہ سب کو ہسنے ہنسانے میں خوب ماہر ہے  بات کو ایسے بیان کرتی ہیں کہ ناچاہتے ہوۓ بھی سب کے لبوں پر ہنسی بکھر جاتی ہے۔

 

۔۔واپسی پر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ کر سب مل کر پر تکلف دعوت سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور پھر سے خوش گپوں میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ یوں ہنستے کھیلتے اور اپنوں کے ساتھ خوشیاں بانٹتے ہماری”  بچپن کی عید ”   کا اختتام ۔ہوتا ہے پر اپنے  بڑوں سے ملنے جانا۔انُ کی دعائیں لینا ، رشتے داروں بزات خود  مل کر تحائف کا تبادلہ کرنا  یہ سب ہماری  وہ روایات ہیں  جن کے بغیر عید کی خوشیا ں ادھوری اور پھیکی ہیں ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارے بچپن کا دور ہو یا آج کی جدید ٹیکنالوجی کا دور ہو عید کی اصلی خوشی تو اپنوں کے ساتھ اسے  منانے  میں ہی ہے.مگر اب ہم بڑوں کی زبانوں پر بھی ایک بات رقصاں ہوتی ہے کہ عید تو اب بچوں کی ہوتی ہے ۔کیا کرے سب حالات کے اتنے مارے ہوۓ ہیں کہ اب وہ خوشیاں اچھے سے محسوس ہی نہیں ہوتی ۔انسان کا بچپن وہ دور ہوتا ہے جسمیں بچہ بچہ ہر غم سے بھیگانا نظر آتا ہے مگر جیسے جیسے عمر جوانی کی دلہیز پار کرتی ہے انسان تجربات کی راہ سے گزر کر خوشی و غمی کی پہچان سیکھ لیتا ہے۔

معصوم بچی

سدرہ شہزادی (سیالکوٹ)

بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلے تھے۔سورج کی کرنیں جیسےاس کے چہرے سے ٹکراتی روشنی بکھیر رہی تھیں۔اپنے نام کی طرح روشن سے چہرے والی تھی روشنی۔۔روشنی نام ہے اس معصوم بچی کاجو اپنے چچا خالد اور چچی شازیہ کے ساتھ رہتی تھی۔چچا اور چچی کے دو بچے بھی تھے زارا اور علی۔

روشنی عمر اور نادیہ کی اکلوتی بیٹی تھی جو ان دونوں کی زندگی میں ایک روشن پھول کی مانند تھی اسی لیے انھوں نے اس کا نام روشنی رکھا۔وہ اپنی چاند سی بیٹی کے ساتھ ایک حسین زندگی کا آغاز کر چکے تھے۔خوشیاں تو جیسے سنبھلے نہیں سنبھل رہی تھیں ان سے۔

زندگی کا یہ خوبصورت سفر بڑی تیزی سے گزر رہا تھا۔ آج گھر میں سبھی بہت خوش تھے کیونکہ آج روشنی کاچھٹا جنم دن تھاہر شخص بہت خوش تھا سوائے روشنی کی چچی کے ۔۔

وہ روشنی سے اسکی پیدائش کے وقت سے ہی نفرت کرتی تھیں کیونکہ اس کی معصوم سی آنکھیں،پھول سے لال گال سب کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھےجبکہ زارا کو کوئی دیکھ نہیں رہا تھا۔ہر کوئی روشنی کو بہترین زندگی کی دعا دے رہا تھااورچچاخالدبھی تو خوشی سےجھوم رہے تھے وہ اپنے بھائی کی بیٹی کو اپنی بیٹی سے بھی زیادہ لاڈ کر رہے تھے اور پاس کھڑی شازیہ بیگم کو یہ منظر انتہائی ناگوار گزرا۔۔۔۔

کیونکہ چند روز قبل ہی تو زارا پیدا ہوئی تھی جو خالد صاحب کی دوسری اولاد تھی اور وہ اس کی پیدا ئش پربھی خوش تھے،مگرزارا کا رنگ سانولا اور پکا رنگ تھا اور شازیہ بیگم اپنی کم عقلی کے باعث دونوں بچیوں میں فرق کرنے لگیں اور روشنی ان کی نفرت کانشانہ اسی کمپیریزن کی وجہ سے بنیں جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا مگر شازیہ بیگم کے آگے کسی کی ا یک نا چلتی تھی اور وہ اپنی بی تکی سوچ کو سچ مانتی تھیں،وہ اسی وجہ سے اس معصوم بچی سے نفرت کرتی تھیں۔خالد صاحب نے کئی بار سمجھایا بھی مگر کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ ۔۔۔۔

روشنی کے والدین اسکے لئے سرپرائز گفٹ لینے بازار گئےاور پھر وہ دونوں واپس نہ لوٹ سکے۔ایک تیز رفتار ٹرک نے انکی کار کو ٹکر ماری جس سے وہ دونوں جائے وقوعہ پر ہی دم توڑ گئے۔

خوشیوں سے بھرا ماحول پل بھر میں دل دہلا دینے والا منظر بیان کر رہا تھاہر شخص انکی اچانک موت سے پریشان تھا۔خالد صاحب بھی غم سے نڈھال تھے اور روشنی یہ سب دیکھ بے خوش ہوگئی تھی۔خوشی اس کی زندگی سے دور جا چکی تھی۔آج دو ماہ ہوئے تھے روشنی کے والدین کو گزرے مگر وہ آج بھی اپنے کمرے میں ڈری ہوئی اداس بیٹھی آنسو ں بہا رہی تھی۔

خالد صاحب اب پہلے سے بھی زیادہ روشنی کا خیال رکھنے لگیں تھے مگر یہ بات شازیہ بیگم کو بہت کھل رہی تھی ۔نفرت تو پہلے ہی کرتی تھیں مگر اب وہ روشنی سے سے سخت رویہ اختیار کرنے لگیں تھیں۔حالانکہ خالد صاحب نے بیگم سے روشنی کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کی تھی مگر۔۔۔۔۔

روشنی جو پہلے ہی چچی سے ڈرتی تھی اب ان سے مزید خوفزدہ رہنے لگی تھی،زارا بھی روشنی سے جھیلس کرتی تھی اور اپنی ماں کے نقشِ قدم پر چل رہی تھی۔بات بات  پر روشنی سے جھگڑتی ،اسے مارتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چچی صاحبہ نے اب اسے گھر کے کاموں میں لگا دیا تھا۔وہ معصوم بچی جو ماں باپ کی آنکھوں کا نور تھی ایک نازک کلی کی طرح کھل رہی تھی والدین کے اس دنیا سے جانے کے بعد مرجھا گئی تھی کیونکہ جب والدین کا سایہ سر سے اٹھ جائے تو ایسے بچوں کے لیے زندگی تنگ ہوجاتی ہے کچھ ایسا ہی حال روشنی کا بھی تھا۔علی کو روشنی سے ہمدردی تھی مگر اپنی ماں کی وجہ سے وہ بھی کچھ کہہ نہیں پاتا تھامگر کبھی کبھار اس سے بات کر لیتا تھا ۔۔۔

ادھر خالد صاحب ان سب حالات سے بے خبر کاروبار میں مصروف تھے۔ظلم کی انتہاء تب ہوئی جب زارا نے روشنی پر چوری کا الزام لگایا اور چچی نے بری طرح اسکا ہاتھ جلا دیا حالانکہ چوری زارا نے کی تھی مگر اس یتیم مسکین کی آہ و پکار کون سنتا۔دو دن سے روشنی کمرے میں بند تھی اور رات دیر سے آنے اور صبح جلدی چلے جانے کی وجہ سے خالد صاحب ان حالات سے بے خبر تھے۔۔۔

علی نے ہمت کرکےاپنے والد کو جب حالات سے آگاہ کیا تو وہ تلملا اٹھے،چیخے ،چلّائےکہ وہ کیسے  روشنی سے بے خبر تھے جبکہ وہ اپنی بیگم کے مزاج اور نفرت کو جانتے تھے۔۔۔۔۔

جب وہ روشنی کو لے کر ہوسپٹل پہنچے تو اس کی حالت تشویشناک بتائی گئی اور ہاتھ بروقت علاج نہ ملنے کی وجہ سے زہر آلود ہو چکا تھا ویسے بھی جینے کی امید وہ بہت پہلے ہی چھوڑ چکی تھی۔۔۔۔

اس سے پہلے کہ ڈاکٹرز اس کی حالت کو سمجھ پاتے وہ زندگی کی بازی ہار چکی تھی۔۔۔۔۔

اتنی کم عمر میں وہ بہت سی مشکلات کا سامنا کر چکی تھی کہ اب جینا مشکل ہو گیا تھا ۔اپنوں کی نفرتیں،رنجشیں انسان کو وقت سے پہلے ہی ختم کر دیتی ہیں اور اس طرح ایک حسین و جمیل روشنی کا دیپ بج گیا۔

غزل

ستارہ منیر کبیروالہ

 

تو تم آنکھیں جھکا کیوں نہیں دیتے

نا پا سکتے ہو نا کھو سکتے ہو

بےبسی کا یہ عالم ہے نا ہنس سکتے نا رو سکتے ہو

 

ہار گئے ہم تقدیر کے آگے بتا کیوں نہیں دیتے ہو

تو تم آنکھیں جھکا کیوں نہیں دیتے

 

محبت کا چراغ جو جلتا رہے گا دل میں

تم یہ نفرتیں یہ فاصلے جدائیاں مٹا کیوں نہیں دیتے ہو۔

 

سب کچھ قسمت نے چھین لیا رکھے خط جلا کیوں نہیں دیتے ہو

تو تم آنکھیں جھکا کیوں نہیں دیتے

مٹی سے بنے انسان کو غرور کیسا

شفا جبین(سیالکوٹ)

ایک دن میں پیدل اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا جب سڑک پر ایک بزرگ چوہدری سے کہہ رہے تھے۔

ارے چوہدری صاحب مٹی کے ہیں مٹی میں ہی جانا ہے تو غرور کس بات کا“ بزرگ نے مٹی ہاتھ میں پکڑ کر کہا تھا۔

جاٶ بابا راستہ خالی کرو، اگر تمہارے پاس پیسہ ہوتا تو میں دیکھتا مٹی کو بھی اور تمہیں بھی۔“ چوہدری صاحب نے نخوت سے کہا اورگاڑی کا شیشہ اوپر کر لیا۔

آج قبرستان میں ایک طرف بزرگ اور دوسری طرف چوہدری صاحب کی قبر ہے اور دونوں کے اوپر نیچے صرف مٹی ہے۔

عنوان "جھوٹے خدا"

از قلم محمد عثمان ذوالفقار

"آپ دوسری شادی کیوں نہیں کر لیتیں۔" سمیرا نے اپنی امی سے کہا۔

"لوگ کیا کہیں گے کہ جوان بیٹی گھر بیٹھی اور خود دوسری شادی کرنے جارہی ہے۔" سمیرا کی ماں نے جواب دیا۔

"لوگ صرف گرے ہوئے کا تماشا دیکھنے اور اس کا مذاق اڑانے کے لیے ہوتے ہیں۔ وہ کسی کا بھلا نہیں سوچ سکتے۔" سمیرا نے سمجھایا

"پھر بھی!" سمیرا کی ماں منمنائی

"جتنا ہم لوگوں سے ڈرتے ہیں کاش اتنا خدا سے بھی ڈرتے تو نہ جانے کہاں کے کہاں پہنچ جاتے۔ بلکہ یہ لوگ ہمارے دوسرے خدا ہی تو ہیں جن کی خوشنودی کے لیے ہم اپنی خوشیاں قربان کر دیتے اور اپنے آپ کو آزمائش میں ڈال لیتے ہیں۔" سمیرا نے غصے سے کہا۔اور ایک بار پھر یہ بحث بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی۔

ذہن پر نقش

عائشہ کنول

آج  پھر سے دل میں شوق ابھرا کے کاغذ پہ اپنے زہن کے نقش کے خاکے بناؤں، ہاتھ اٹھے اور بہت سوچنے کے بعد بھی صرف وہی نقش بناے جو ناجانے کتنے جب سالوں سے میرے زہن کے پردوں پر جم گیا ہے.... جب بھی ہاتھ اٹھتا ہے صرف یہی نقش کاغذ کی زینت بنتا  ہے.... اس نقش میں ناجانے ایسی کیا بات  ہے کے اس کو بنا لینے کے بعد جب بھی اسے دیکھتی ہوں تو اس کو دیکھ کر آنکھ نم ہو جاتی ہے اور دل سکون کی حالت میں آ جاتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ یہ حقیقت ہو جائے.... اس نقش میں ایک گھر سے کچھ دور ایک لڑکی ہے جو اس دنیا سے بے خبر ایک سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھی ہے...  ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اس درحت کے سائے میں بیٹھی کسی سے مخاطب ہو جیسے وہ اپنے دل کی ساری باتیں اس درخت سےسرگوشی میں کر رہی ہو...   جیسے وہ لڑکی اپنے اندر لفظوں کا ایک سمندر لیے صرف اس چیز کا انتظار کر رہی ہو کہ  کون سے پل اس سمندر کو بہنے کا موقع ملے گا اور وہ اپنا دل کھول کر رکھ دے گی جس میں حالات کی  تلخیاں بھی ہیں اور بہار کے خوبصورت     دن  بھی.... اور یہ  درخت کوئی عام درحت نہیں یہ اللہ کی رحمت ہے جو  اس لڑکی کو پوری طرح سے اپنے سائے میں رکھے ہوئے ہے....

اور یہ سایہ ایسا سایہ ہے کہ جس کی چھاؤں بہت زیادہ ٹھنڈی ہے.... جو باہر کی گرمی کو اپنے سائے میں آنے ہی نہیں دے رہی... اس نقش کو بنانے کے لیے مجھے کبھی سوچنا نہیں پڑا بلکہ قلم ہاتھ میں آتے ہی ہاتھ خود بہ خود اس نقش کو بنانا شروع کر  دیتا ہے اور اس کے بن جانے کے بعد اس جگہ خود کو تصور کرنا ایک عجیب سی راحت عطا کرتا ہے.. جیسے دنیا میں اور کسی شے کی ضرور ہی نہیں مجھے.... ایسے لگتا ہے کہ جیسے اس رب نے میرا ہاتھ تھام لیا ہو اور مجھے اپنے لیے چن لیا ہو.... یہ لمحہ میرے لیے اپنی ہی قسمت پہ رشک کرنے جیسا ہوتا ہے... میں تو اس قابل نہیں تھی پھر کیسے ہو گیا یہ سب کیسے اللہ نے دل میں اتنا سکون اتنا صبر بھر دیا...

اس درخت پر قرآن کی ایک آیت بھی درج ہے ان اللہ مع الصابرين "بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے"  اللہ کی رحمت کے ساتھ ساتھ یہ آیت بھی اس لڑکی کو اپنے سایہ میں لیے ہوئے ہے اور شاید یہ اسی کی وجہ سے ہے کہ اس لڑکی کی زبان پہ ہر وقت صبر کے کلمات گردش کرتے ہیں اور وہ ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرنے کی قائل ہے...

 

اس صبر نے بہت سکون بھر دیا ہے اس لڑکی میں اس کو یہ خبر نہیں کہ دنیا اس کے ساتھ ہو گی کہ نہیں پر اس کو یہ یقین ضرور ہے اس کا رب اس کو زندگی کے کسی میدان میں بھی کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا بلکہ اگر کبھی یہ لڑکی گمراہی کی طرف چل نکلی تو وہ تھام لے گا اور موڑ دے گا اس کو اس راستے سے جو اس کے لیے نہیں ہے اس کا راستہ تو اپنے اللہ کو پا لینا ہے تو وہ رب جو فرماتا ہے کہ اگر کوئی چل کر اس کی طرف جائے تو وہ اس کی طرف بھاگ کہ جاتا ہے تو پھر کیسے وہ رب اسے کسی اور راستے پر جانے دے سکتا ہے

"محبت ہمسفر میری"

ناصرہ نواز (سرگودھا)

تمہیں چُن لینا میری روح کی تڑپ تھی اورشاید ضرورت بھی۔جانتے ہو جب میری پہلی نگاہ تم پر پڑی تو دل کو جیسے یقین تھا کہ تم میری مضطرب روح کا واحد قرار بنو گے۔تمہیں چُن لینا میرے جسم و جاں کی خواہش تھی اور شاید اک حسرت بھی،پتہ نہیں کیوں تمہارے بدن کی مخصوص مہک جب میں نے اپنے اردگرد  محسوس کی تو دل کو جیسے یہ گمان گذراکہ تم میری تمام حسرتوں اور شدتوں کا محور بنو گے۔میری تکمیل تم سے ہو گی۔

میرے جانم...تمہیں چُنا!

اس لیے بھی کہ میری یہ زیست اسی قابل تھی کہ تمہارے پہلو میں سر ٹکائے گذار دی جائے۔عاشی نے موحد کے کندھے پر سر ٹکایا تھا بند آنکھوں سے وہ مسلسل بولتے بولتے وہ نیند کی گہری وادی میں اتر گئی تھی۔موحد نے نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھا تھا اور اسے سوتا دیکھ کے ہولے سے مسکرایا تھا۔ابھی ایک ہفتہ پہلے ہی تو عاشی،مسز موحد ہوئی تھی اور وہ اس پاکیزہ محبت کو پا کے بہت خوش تھی۔

وہ دونوں بچپن سے ایک ساتھ تھے۔لیکن موحد کی ایف ایس ای ہوتے ہی اسے لندن میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے بھیج دیا۔جس کو بہت دنوں تک عاشی نے اپنے دل پہ لیا رکھا اور پھر موحد جب ڈاکٹر بن کے لوٹا تو اس پہ قیامت ٹوٹ گئی۔وہ عاشی جو زندگی سے بھرپور تھی۔جس کی وجہ سے پورے گھر میں رونق ہوتی تھی بالکل خاموش اپنے کمرے میں بند رہتی۔

عاشی! کیا میں اندر آ جاؤں؟موحد نے اس کے دروازے پر دستک دی۔وہ جو آڑھی ترچھی لیٹی ہوئی تھی ایک دم اٹھ کر اپنا دوپٹہ اٹھایا۔

جی آ جائیں۔۔عاشی نے دروازہ کھولا۔

موحد اس کے کمرے میں آیا اور تنقیدی جائزہ لیا ہمیشہ کی صفائی پسند عاشی کا کمرہ آج بھی ویسا ہی تھا۔قرینے سے رکھی ہر چیز اس کے سلیقے کا منہ بولتا ثبوت تھے۔

جی موحد خیریت کچھ چاہیے تھا آپ کو۔؟عاشی جو اسی کےسوالوں سے بچنے کے لیے کمرے میں بند تھی نے اسے متوجہ کیا جو جانے کی اس کے کمرے میں دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

عاشی بیٹھو یہاں اور مجھے بتاؤ تم نے کیوں خود کو ایسے کمرے میں بند کیا ہوا ہے۔؟اس نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا جو رو دینے کو تھی۔

نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے موحد میں ٹھیک ہوں۔بس سر میں تھوڑا درد تھا۔اس کی آواز بھراگئی۔بہت عرصے بعد کوئی اپنا اس سے یہ سوال پوچھ رہا تھا۔امی کا تو اسے پتہ ہی نہیں تھا اور بابا کو گے ابھی چار سال ہوۓ تھےاور اس نے اپنی زندگی کے اتنے سے سالوں میں زندگی کا ہر رنگ دیکھ لیا تھا۔سب نے اپنے اپنے طریقے سے اسے اذیت پہنچائی تھی جہاں تک پہنچا سکتے تھے کیوں کہ وہ خاندان کی سب سے سگھڑ،سلیقہ مند اور لائق لڑکی تھی۔وہی لوگ جو کل تک عاشی کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے انہوں نے ہی بابا کے جانے کے بعد ہاتھوں میں پتھر اٹھا لیے تھے۔بابا اس کی ذمہ داری چچا اور چچی کو سونپ کر گے تھے۔

عاشی پلیز جھوٹ مت بولو تم مجھ سے بھی جھوٹ بولو گی ؟اس نے استفسار کیا۔

اور عاشی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

موحد پلیز تم چلے جاؤ یہاں سے پلیز۔اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ لیے۔

موحد خاموشی سے بیٹھا اس کی سسکیاں سنتا رہا۔جب وہ رو رو کر تھک گئی تو پھر پوچھا۔اب بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟تم نے پڑھائی کیوں چھوڑ دی۔تمہیں تو پڑھنے سے عشق تھا پھر کیا ہوا؟تم نے اپنا کمرہ کیوں خالی کر دیا۔؟تمہاری الماری کتابوں والی وہ کہاں ہے۔؟عاشی بتاؤ مجھے؟وہ چیخا تھا۔

سننا چاہتے ہو تو سنو موحد ارتضی۔میری بربادی کی کہانی سنو۔وہ جیسے ہار گئی تھی۔اسے لگا اگر آج بھی وہ چپ رہی تو اس کی نسیں پھٹ جائیں گی۔

بابا کے جانے کے بعد مسلسل ڈپریشن میں رہنے سے میں نفسیاتی مریضہ بن گئی تھی۔میں بابا کو اور تمہیں بلاتی تھی موحد تم نہیں آۓبابا تو بہت دور چلے گئے تھے۔اس کے چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت سمٹ آئی تھی۔وہ مسلسل رو رہی تھی۔ان سب نے مجھے پاگل سمجھ لیا اور مجھے پاگل خانے بھیج دیا موحد وہاں بہت عجیب لوگ تھے۔لیکن پھر آہستہ آہستہ میں ان سب سے مانوس ہو گئی اور ان سب کا خیال نرس کی طرح رکھنے لگی۔میں مسلسل وہاں کام کرتی رہی۔ہسپتال کی انچارج کو جب پوری بات پتہ چلی تو انہوں نے مجھے ان سب کا خیال رکھنے کی اجازت دے دی۔پھر تین سال بعد انہوں نے مجھے کہا کہ بیٹی اگر کوئی ہے رشتے دار تو وہاں چلی جاؤ اور میں وہاں سے نکل آئی۔بہت کوشش کے بعد میں نے فہیم انکل جو بابا کے ڈاکٹر بھی تھے ان کی پاس گئی۔اور ان سے آپ لوگوں کا کانٹیکٹ نمبر مانگا انہوں نے بتایا کہ ارتضی چاچو  یہیں شفٹ ہو گئے ہیں۔میں نے ایڈریس لیا اور یہاں آ گئی۔چاچو اور چچی نے بہت خیال رکھا۔اور کل چاچو مرتضی جنہیں علم نہیں تھا کہ بابا تو اپنی ساری پراپرٹی چاچو ارتضی کے حوالے کر گئے تھے۔اب ان کے علم میں یہ بات آئی ہے تو وہ میرا رشتہ ثاقب کے لیے لینے آۓ ہیں اور وہ مجھے دوبارہ پاگل خانے بھیج دیں گے۔وہ صرف پراپرٹی کے لیے ایسا کر رہے ہیں مجھے وہاں نہیں جانا پلیز موحد تم کہہ دو چاچو کو۔وہ سسک رہی تھی اور اس کے غم میں برابر کا شریک موحد جو اسے ہمت دینے آیا تھا اس کی آپ بیتی پر رو رہا تھا۔

‏محبتوں کی عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی مگر وہ دلکش لمحے ٹھہر جاتے ہیں۔ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں اور میرے ساتھ ہمیشہ سے تم ،امی اور بابا رہے ہو موحد۔وہ اب کافی سنبھل چکی تھی۔ ماتھے پر آتے اس کے بال روئی روئی آنکھیں جو بے تحاشا رونے سے سوجی ہوئی تھیں۔سرخ ہوتی ناک کے ساتھ وہ بار بار اپنے بالوں کو چہرے پر آنے سے روک رہی تھی۔

اچھا چلو!مزے کی بات سنو! میں نے امی بابا سے بات کر لی ہے۔اگلے جمعہ ہمارا نکاح ہے۔کیا تم خوش ہو عاشی؟ وہ جو نظریں جھکا کر بات کر رہا تھا ایک دم نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔اور وہ جو حیرانی سے موحد کو دیکھ رہی تھی نظریں ملنے پر جھینپ گئی۔موحد کھلکھلا کے ہنس پڑا اس کی ہنسی کے ساتھ اب عاشی کی ہنسی بھی شامل ہو گئی۔بہت وقت کے بعد آج وہ دل سے ہنسی تھی اور وہ سوچ رہی تھی کہ الله تو اپنے بندے سے بے تحاشا محبت کرتا ہے۔آج تہجد کے وقت ہی اس نے رب سے شکوہ کیا تھا اور ظہر سے پہلے ہی رب نے اس کی پہلی محبت کو اس کا ہمسفر بنا دیا تھا۔اور کون ہے جو تمہارے بےقرار دل کو قرار بخشتا ہے ؟

کون ہے جو ایک پکار پر بھی تمہاری سن لیتا ہے ؟

اگر تمہیں لگتا ہے تمہیں جواب نہیں ملتے تو یقینا تم غور نہیں کرتے ۔

جب تمھارے سامنے اچانک کوئی آیت آتی ہے نا تو وہ تمہارے سوالوں کے جواب ہوتے ہیں وو کبھی بھی اپنے بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا ۔تمہاری زندگی میں موجود لوگوں کو وہ وسیلہ بناتا ہے تمہارے کاموں میں آسانی پیدا کرنے کے لئے بس اپنے یقین کو ٹوٹنے نہ دینا بیشک اسکی مدد قریب ہے۔

27 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی