![]() |
رب العُلیٰ ہے۔ سب کا پرودگار ہے۔
۔۔۔۔ اگر ایک انسان کا وجود ہے تو ایک خدا کا وجود کیوں نہیں؟ اگر ہوا اور پانی ، درخت اور پتھر، چاند اور ستارے موجود ہیں تو ان کو وجود دینے والے کا وجود مشتبہ کیوں ہو؟ حقیقت یہ ہے کر تخلیق کی موجودگی عمل تخلیق کا ثبوت ہے اور انسان کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں ایک ایسا خالق موجود ہے جو دیکھے اور سنے، جو سوچے اور واقعات کو ظہور میں لائے ۔
اس میں شک نہیں کہ خدا ظا ہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا ۔ مگر اس میں بھی شک نہیں کہ اس دنیاکی کوئی بھی چیز ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی۔ پھرخدا کوماننے کے لئے دیکھنے کی شرط کیوں ضروری ہو۔
آسمان پر ستارے جگمگاتے ہیں۔ عام آدمی سمجھتا ہے کہ وہ ستاروں کو دیکھ رہا ہے ۔ حالانکہ خالص علمی اعتبار سے یہ صحیح نہیں۔ جب ہم ستاروں کو دیکھتے ہیں تو ہم ستاروں کو براہ راست نہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ ان کے ان اثرات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جو ستاروں سے جدا ہوکر کروڑوں سال کے بعد ہماری آنکھوں تک پہنچے ہیں۔
یہی تمام چیزوں کا حال ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز کوانسان "دیکھ" رہا ہے ۔ وہ صرف بالواسطہ طور پر اسے دیکھ رہا ہے۔ براہ راست طور پرانسان کسی چیز کو نہیں دیکھتا اور نہ اپنی موجودہ محدودیت کے ساتھ کبھی دیکھ سکتا۔
پھرجب دوسری تمام چیزوں کے وجود کو بالواسطہ دلیل کی بنیا د پر مانا جاتا ہے تو خدا کے وجود کو بالواسطہ دلیل کی بنیاد پر کیوں ماناجائے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا اتنا ہی ثابت شدہ ہے جتنا کہ اس دنیا کی کوئی دوسری چیز۔ اس دنیا کی ہر چیز بالواسطه دلیل سے ثابت ہوتی ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز اپنے اثرات کے زریعہ سے پہچانی جاتی ہے۔ ٹھیک یہی نوعیت خدا کے وجود کی بھی ہے۔
خدایقیناً براہ راست ہماری آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ مگر خدا اپنی نشانیوں کے ذریعہ دکھائی یقیناً دیتا ہے۔ اور بلاشبہ خدا کےعلمی ثبوت کے لئے یہی کافی ہے۔
کتاب کا نام:اللہ اکبر
مصنف کا نام: جناب مولانا وحید الدین خان صاحب