درویشانِ قاہرہ اپنے شب و روز کیسے بسرکرتے تھے۔ اس دورکی بہترین عکاسی کرتی یہ تحریر آپ کو اسلام کے دورِ عروج میں عام شہری زندگی کا منظر دکھاتی ہے۔
یہاں کے خاص مقامات میں مسجد عمرو بن العاص کبیر القدر ومشہورالذکر چیز ہے۔ جمعہ کی نماز یہیں ہوتی ہے۔ اس کا ایک راستہ مشرق سے مغرب کی سمت گیا ہے اور مشرق کی جانب زاویہ بھی ہے جس میں حضرت امام شافعیؒ درس دیا کرتے تھے۔ رہے مدرسے تو وہ حدوشمار سے خارج ہیں کیونکہ ان کی تعداد اتنی ہی زیادہ ہے۔اور وہ
شفاخانہ جو دونوں قصروں، یعنی ملک المنصور، قلادون کی قبر کے قریب واقع ہے۔ اس کی
خوبیاں احاطہ بیان سےباہرہیں۔ بیماروں کی راحت اور ان کے علاج کا سامان اس قدر
بہتا ت سے ہے کہ تعریف کرنے والا تعریف سے قاصر ہے۔ اس شفاخانہ کا روزانہ خرچ ایک
ہزار دینارہے۔یہاں زاویے بکثرت ہیں اور امرا علی العموم زاویے بنوانے کے شوقین
ہیں۔اور ہر زاویہ فقراء کی ایک خاص جماعت کے لئے مخصوص ہے۔
اکثر فقرا
عجمی ہیں۔ یہ آداب ِسلوک اور تصوف کے بڑے
ماہراور عارف ہیں۔ اور ہرزاویہ کا ایک
شیخ اورمہتمم ہوتاہے۔ان کی ترتیب امورعجیب انگیز ہے۔ ان کی عادت ہے کہ صبح
ہوئی اورخادم ان فقرا کے پاس آتے ہیں، جوزاویےمیں موجودہیں۔ ان سے کھانے کے
متعلق دریافت کرتے ہیں جوجیساکھاناچاہتاہےاس کے لیےویساہی تیار ہوتا ہے۔
پھرسب دسترخوان پرکھاناکھانےکےلیےجمع ہوتےہیں۔ ہر ایک کے سامنے روٹی اورسالن وغیرہ علیحدہ علیحدہ رکھاہوتاہے۔ ایک کےکھانےمیں دوسراشریک نہیں ہوتا۔
اس طرح دن میں دومرتبہ کھانا کھلاتے ہیں۔
روزانہ
کھانے کے علاوہ جاڑے اورگرمی دونوں موسموں کے کپڑے کےمصارف بھی ہردرویش کوزاویے سےملتےہیں اور ہر درویش کو متفرقات جیب خرچ کے لیے بھی دس درہم سے تیس
درہم ماہوار تک ملتا ہے۔ ہر پنج شنبہ کی شب کو شکر وغیرہ شرینی کھانے کے لئے اور
صابون ،دھوبی کی دھلائی، روشنی، حمام کرنے کی اجرت، روشنی کے لئے روغن زیتون اورحجامت وغیرہ کے مصارف ماسوا ہیں۔ یہ بھی سب زاویہ کی طرف سے ملتے ہیں۔
یہ
تمام درویش تجرد کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو درویش مجرد نہیں بلکہ گھر گھرہستی والے
ہیں ۔ان کے لیے جداگانہ زاویےہیں۔ان تمام درویشوں کے لئے یہ امرلازمی ہے کہ مسجد میں پنج وقتہ نماز باجماعت
ادا کریں اور شب کو زاویہ سے باہر ان کا کہیں قیام نہ ہو، اور زاویہ کے قبہ کے اندر
بھی جمع ہوں۔ ان کا روزانہ طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے خاص سجادہ پر بیٹھتا ہے اور
صبح کی نماز کے بعد "سورۃ فتح" ،"سورۃ ملک" اور "سورۃ
عم" کا وظیفہ پڑھتا ہے۔پارہ پارہ علیحدہ کلام مجید تقسیم کیا جاتا ہے اور اس
کا ختم ہوتا ہے۔جب قرآن شریف ختم ہو جاتا ہے تو اذکار و اشغال میں مصروف ہوتے ہیں۔ پھر
اہل مشرق کے طریقہ پر قاری قرات کرتے ہیں ۔اسی طرح نماز عصر کے بعد روزانہ ورد
ہوتا ہے ۔
زاویہ میں نئے درویشوں کی آمد
جب کوئی نیا درویش زاویہ میں آتا ہے تو اس کی یہ صورت ہوتی ہے کہ کمر بستہ داہنے ہاتھ میں لمبی جریب، جس میں نوکدار لمبی لوہے کی شیام لگی ہوئی، بائیں ہاتھ میں لوٹا اور کندھے پر جائے نماز، زاویہ کے دروازے پر پہنچا۔
دربان نے فوراًمہتمم کو اطلاع دی۔ مہتمم فوراً نکل آیااور اس سے سارا حال
دریافت کیا کہ کہاں سے آئے ہو کن کن زاویوں میں رہنے کا اتفاق ہوا ہے اور ان کے
شیوخ کا کیا نام ہے؟ جب اس کے بیان کی صحت معلوم ہوگئی تو اندر لے جاتے اور مقام
مناصب پر اس کے لئے سجادہ بچھاتے ہیں اور اسے طہارت کی جگہ بتاتے ہیں۔ یہ نووارد
درویش داخل ہونے کے بعد تجدید وضو کرتا اور اپنے سجادہ پر آتا ہےاورکھڑا ہو کردو رکعتیں نماز نفل ادا کرتا ہے۔ اس
کے بعدشیخ اور تمام حاضرین سے مصافحہ کرتا اوران کے درمیان بیٹھ جاتا ہے۔
ان لوگوں کا یہ بھی قاعدہ ہے کہ جمعہ کے دن زاویہ کے خدمت گار تمام درویشوں کے سجا دے ان کی جگہوں سے اٹھا لے جاتے ہیں اور لے جا کر ان کے لیے مسجد میں بچھا دیتے ہیں۔ جب تمام درویش جمع ہوکر شیخ کے ہمراہ مسجد میں جاتے ہیں تو ہر درویش اپنے سجادہ پر نماز پڑھتا ہے ۔نماز جمعہ کے بعدحسب عادت قرآن شریف پڑھتے ہیں اور پھر سب اکٹھے ہوکر شیخ کی معیت میںخانقاہ میں واپس آتے ہیں۔
کتاب کانام:ابن بطوطہ
مترجم:جناب رئیس احمد جعفری صاحب