بچہ ماں کی قبر سے لپٹ کر کن لفظوں میں اپنے دل کی باتیں سنا رہا تھا!! ایک دل گداز تحریر

love of mother. husneurdu, maan ka piyar
image by pixabay

ماں کی قبر سے لپٹ کرفریاد کرنے والے بچے کی تخیل پر مبنی باتیں جو پڑھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو نا بھی آئے تو دل میں گداز ضرور پیدا ہوجائےگا۔

۔۔۔۔میں نے ایک مرتبہ سنا تھا کہ انسانوں میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کا باپ مر جائے۔ جانوروں میں یتیم وہ ہوتا ہے میں کی ماں مر جائے اور موتیوں میں یتیم وہ ہوتا ہے جوسیپ میں اکیلا ہو۔

موتی تو بے جان ہے اس پر کیا گفتگو کروں لیکن جاندار کے متعلق خواہ جانور ہو یا انسان میرے خیال میں ماں کے مرنے سے یتیم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ بچے کو بچپن سے محبت کی ضرورت ہوتی ہے جوصرف اور صرف ماں ہی کے پاس ہوتی ہے۔ ایک بچہ جس کی ماں مر گئی اور باپ زندہ تھا اس کے متعلق ایک تخیل ملاحظہ ہو۔

"ایک دن میں قبرستان اپنے دوست کی قبر پر فاتحہ پڑھنے گیا۔ شام کا وقت تھا، پرندے اپنے گھروں کو جارہے تھے اورکچھ اپنی ماؤں کی گود میں ۔۔۔۔۔ سورج بھی جارہاتھا ۔۔۔۔ کہ مجھے رونے کی آواز آئی ۔۔۔۔۔ آواز معصوم بچے کی تھی،

"اماں۔۔۔۔۔ اماں۔۔۔اُٹھو گھر چلیں۔ آپ یہاں کیوں سو رہی ہیں؟

میں آواز کی طرف چل پڑا۔ کیا دیکھتاہوں کہ ایک نابالغ بچہ اپنی ماں کی قبر سے لپٹ کر رو رہا ہے اور ماں سے کہتا ہے۔

"ماں جی آپ نے گھر کیوں چھوڑ دیا؟۔۔۔۔ ہم سے منہ کیوں موڑ لیا؟۔۔۔ یہاں کیوں ڈیرے لگائے؟ ۔۔۔۔چلو پہلے مکان میں واپسں چلیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔ اب تجھے نہیں ستاؤں گا ۔۔۔۔ تیری نصیحت کو نہیں بھلاؤں گا ۔۔۔۔ میں ضد نہیں کروں گا۔۔۔۔ شرارت نہیں کروں گا۔۔۔۔ ماں جی اُٹھو گھر چلیں ۔۔۔۔ یہ بیاباں ہے۔ آپ کے بعد زندگی عجیب ہو گئی۔ سب کچھ بدل گیا۔

ابا سے پیسے مانگتا ہوں، پہلے دے دیتے تھے اب نہیں دیتے۔ بات بات پہ ڈانٹتے ہیں۔ رو رو کر میری آنکھیں سرخ ہو گئی ہیں۔ اور ماں جی آپ مجھے چھوڑکرادھرآ گئی ہیں۔ میری خطا تو بتاؤ۔ کیا گستاخی ہوئی بولنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

میرے ساتھی میلے پہ جاتے ہیں۔ وہی ملتا ہے جو وہ چاہتے ہیں۔ ان کی مائیں ساتھ ہوتی ہیں میں اکیلا پھرتا ہوں۔ ان کو دیکھ کر میرا کلیجہ باہر کوآجاتا ہے۔

کاش کہ تو ہوتی مجھے ساتھ لے کر چلتی۔ اُٹھ ماں چلیں۔ پہلے تو میں روتا تھا تو مناتی تھی۔ مجھے چومتی تھی گلے لگاتی تھی۔ میں بیمار ہوتا ساری رات میرے سنگ گزارتی تھی۔ ماں میں ہی تیرا وہ بیٹا ہوں۔جسے تو نے بڑے نازوں سے پالا تھا۔ آج تنہا پھر رہا ہوں ویرانےمیں۔ ان ماں کیوں رہتی ہے بیاباں میں؟

آج بھی بھوکا ہوں جب روٹی مانگتا ہوں لوگ کہتے ہیں کیا تیرے لئے کماتے ہیں۔ مجھے روٹی نہیں ملتی۔ مجھے دھکے ملتے ہیں۔ ماں سب پیسے کی دنیا ہے۔۔۔۔ تیری طرح کوئی بھی بے لوث پیار کرنے والا نہیں۔ ماں جی اُٹھو گھر چلیں۔ یہاں کیوں سورہی ہو؟

ماں جی لوگوں کی جھڑکیاں مجھ سے برداشت نہیں ہوتیں۔ میری کوئی غلطی ہے تو معاف کر دے، مجھ پررحم کر آپ چل یا مجھے ہی اپنے پاس بلا لے ۔۔۔۔ میری

آنکھیں رو رو کر لال ہوگئی ہیں۔ ماں اب تو چپ توڑ دے ۔۔۔۔ توُبولتی کیوں نہیں؟پہلے تو میرے بلانے پر اتنی دیر تو نہیں لگاتی تھی۔ کیا آج تیرے کانوں میں میرا رونا اور میری آواز نہیں پہنچ رہی؟ یا تو نے ابھی تک مجھے پہچانا ہی نہیں؟
قبر سے آواز آئی "میرے بیٹے میں تجھ پر قربان، تیرا رونا مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میں نے تجھے پہچان بھی لیا اور تیری آواز بھی میرے کانوں تک پہنچ رہی ہے۔ میں ضرور اُٹھتی تجھے گلے لگاتی مگرموت نے مجھے مار دیا۔ بیٹے صبر کر اور لوٹ جا اللہ تیرا حامی وناصر ہو۔"
تو میں عرض کر رہا تھا کہ انسان کا بچہ بھی ماں کے مرنے سے ہی یتیم ہو جا تا ہے۔ باپ کا رویہ جو ماں کے پیار نے چھپا رکھا ہوتا ہے وہ ماں کے مرنے سے اور ماں کے مقابلے میں عجیب سا لگتا ہے۔ باپ تو صرف اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ خزانچی ہے۔ دعا کرو اللہ کرے کسی کی ماں نہ مرے... یہ دکھ بڑا بھاری ہے۔

اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو براہ کرم تھوڑا سا تردد فرمائیں اور اسے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ نیچے دیے گئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ضرور شیئر کریں۔ اس سے ہمیں مزید حوصلہ ملےگا اور اسی پیج پر تھوڑا نیچے جاکر اپنی رائے سے ضرور آگاہ فرمائیں تاکہ آئندہ ہم آپ کی رائے کے مد نظر پوسٹ لگانے کی کوشش کریں۔

کتاب کا نام: ماں
مصنف: جناب محمد مختار شاہ صاحب


1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی