![]() |
image by pixabay |
اگر ایک انسان اپنے سے نسبت رکھنے والے لوگوں سے بہت زیادہ حسن سلوک سے پیش آتا ہے تو کیا جو شخص اپنی نسبت رب العالمین سے رکھتا ہے تورب جانے کہ رب اسے کیسے کیسے نوازے گا۔
حضرت یوسف علیہ السلام پر زلیخا نے تہمت لگائی اور اللہ تعالیٰ کےحکم سے ایک دودھ پینے والے بچے نے ان کی بےگناہی کی شہادت دی۔ مگر اس کے باجود حاکم نے اپنی عزت گنوانے کے خوف سے آپ کو جیل میں ڈال دیا۔
اب ماہ و سال گزرتے رہے او پھر حضرت یوسف علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے کرم سے جیل سے آزاد ہوئے اور پھرعزیز مصر کے عہدے تک جا پہنچے۔ جب قحط کا زمانہ آیا نوبت یہاں تک آئی کہ سارے مصر کی دولت آپ کے اختیار میں آگئی۔
کیونکہ جب قحط پڑاتوخلقِ عالم ایک ایک دانے کی محتاج ہو کر مصر کا رخ اختیار کرنے لگی۔ جہاں پر حضرت یوسف علیہ السلام نے گندم کی تقسیم کا بہت ہی منصفانہ نظام وضع کیا ہوا تھا۔
آپ ایک دن گندم کی تقسیم کی نگرانی کر رہے تھے کہ اپنی باری پر ایک لڑکا گندم لےکر حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آیا اورکوئی بات کی تو آپ علیہ السلام نے اس لڑکے کو ناصرف مزید گندم دینے کا حکم دیا بلکہ خوب انعام واکرام سے بھی نوازا۔
اس پر اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی آپؑ سے مخاطب ہوئے۔
اے میرے حسین پیغمبرآپ نے اس لڑکے کو اس کے حصہ سے زیادہ گندم کیوں دی اور اس پر انعام و اکرم کی بارش کیوں کی؟
تو آپؑ نے عرض فرمایا:
اے رب کریم پہلے تومیں نےاس لڑکےکو گندم کا اتنا ہی حصہ دیا جتنا بنتا تھا۔ لیکن جب اس نے مجھے بتایا کہ وہ وہی شیرخوار بچہ ہے جس نے میری بےگناہی اور پاکدامنی کی شہادت دی تھی۔ یہ سن کرمیرے دل میں تڑپ پیدا ہوئی کہ آج یہ لڑکااس حال کو پہنچ چکا ہے تو کیوں نا میں اس کی عزت کروں اور اس لئے میں نے اس کو اسکے مقررکردہ حصہ سے زیادہ گندم دینے اور انعام واکرام دینے کا حکم دیا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے اس جواب پر اللہ تعالیٰ نے پھرسے وحی نازل فرمائی۔
کہ اے میرے پیغمبرؑمیرے حکم سے جس بچے نے آپ کی پاکدامنی کی گواہی دی تھی تو آپ نے اس کے برے وقت میں اس کا اکرام کیااور اپنی حیثیت کے مطابق اعزاز واکرام سے نوازا۔ اسے نوازنا آپؑ کی اپنی شان کے مطابق تھا۔
اسی طرح آپ میرے بندوں کو بتا دیں کہ جو میرا بندہ مجھے بِن دیکھے میری الوہیت کی گواہی دے، میری ربوبیت کا گواہ بنے گا اور کسی کو میری ذات میں شریک نہ ٹھہرائے گا تو میرے اس بندے سے فرما دیجیئے کہ میں رب العزت جل جلالہ اسے قیامت کے دن اپنی شان کے مطابق انعام واکرام سے نواز دوں گا۔
بے شک میرے رب کی ذات وحدہ لا شریک ہے اور کل کائنات اس نے ایک لفظ "کُن" سے بنائی ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں اور اس کی عطا کردہ نعمتوں پر اس کے شکر گزار ہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمانِ کامل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شرک سے بچائے اور رسول کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ پر چلنےکی توفیق دے۔ آمین
اگر یہ تحریر اچھی لگی ہے تو اس کو اپنے دوست و احباب سے شیئر کریں اور اسی پیج کی آخر میں کمنٹس میں اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ شکریہ
جس کتاب سے رہنمائی لی گئی ہے۔
کتاب: اہل دل کے تڑپا دینے والے واقعات
مصنف: پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب