![]() |
Imge by pixabay |
شیر اور شکاری
ایک دن شکاری اپنی تیر کمان لےکر جنگل میں چلا گیا۔ اس کے ارادے بھانپ کر جنگل کے جانوروں میں بھگدڑ مچ گئی اور جانورخوف کے عالم میں جس طرف منہ اٹھا، بھاگ کھڑے ہوئے۔
ایسے میں جنگل کا بادشاہ دہاڑتا ہوا شکاری کے سامنے آگیا۔
شکاری نے جب شیر کو اس غصے کی حالت میں دیکھا تو اس نے گھبرانے کی بجائے ذہن میں کچھ الفاظ ترتیب دیے اور اس کے بعد کمان پر تیر چڑھایا اور للکار کر کہا:
"پھٹے ہوئے ڈھول کی طرح شور مچا کر تم مجھے ڈرا لو گے۔ ابھی دیکھو کہ میں اپنا قاصد تمہاری طرف بھیج رہا ہوں جو تمہاری پسلیوں کی خوب خبر لے گا اور میرے قوت بازو سے تمہیں خوب آگاہی دے گا"
یہ کہہ کر شکاری نے نشانہ سادھ کر تیر چھوڑا جو شیر کے پہلو میں پیوست ہوگیا۔ شیر کراہتا ہوا سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔
بھاگتے بھاگتے راستے میں اسے لومڑی ملی جس نے شیر کی ہیئت کذائی دیکھ کر اس کو شرم دلاتے ہوئے کہا:
"لعنت ہے تمہارے جنگل کے بادشاہ ہونے پر تم ایک انسان سے ڈر کر بھاگ رہے ہو جو تمہارے ایک پنجے کی مار ہے۔ کوئی شک نہیں کہ تم نے شیروں کی عزت و آبرو خاک میں ملا کر رکھ دی ہے۔ تمہیں شکاری کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئے تھا۔"
شیر نے بھاگتے ہوئے کہا کہ:
"اے لومڑی میں تیری بات کا بعد میں جواب دوں گا۔ فی الحال تو یہ سن لے کہ اس شخص سے بھلا کون لڑ سکتا ہے کہ جس کے قاصد نے میری پسلیاں چیر کر رکھ دی ہیں۔ بذات خود اس شخص کی قوت کیا ہوگی۔ میں اس کی آفت سے نہیں لڑ سکتا""
درس حیات:- بعض اوقات صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ آپ اپنے عمل سے زیادہ اپنے الفاظ سے اپنے دشمن کو شکست دے دیتے ہیں۔
![]() |
image by pixabay |
قضائے الٰہی
حضرت سلیمان علیہ السلام کو تمام مخلوقاتِ دنیا کی بادشاہی حاصل تھی۔ ایک مرتبہ تمام پرندے آپ کے دربار میں اکٹھے ہوئے اور اپنے اپنے ہنر خوب بڑھا چڑھا کر بیان کرنا شروع کئے۔
جب ہد ہد کی باری آئی تو اس نے کہا کہ اے بادشاہ میں زیادہ اپنی تعریف نہیں کرتا۔ بس اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ ہنر عطا کیا ہے کہ آسمان میں اڑتے ہوئےزمین پرموجود پانی کو دیکھ لیتا ہوں۔ یہ بھی دیکھ لیتا ہوں کہ پانی کی گہرائی کیا ہے، رنگ کیسا ہے اور پتھر سے یا مٹی سے ابل رہا ہے۔ آپ کا تخت چونکہ ہوا پر سفر کرتا ہے اس لئے مجھے ساتھ رکھ لیں تاکہ میں آپ کو یہ معلومات بروقت فراہم کرتا رہوں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو حکم دیا کہ وہ لشکر کے ساتھ رہے تاکہ لشکر پیاس کی تکلیف میں مبتلا نہ ہواس طرح ہدہد حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہنے لگا۔
ہد ہد کی یہ پذیرائی کوے کو ایک آنکھ نہ بھائی۔ وہ حسد میں جلنے لگا۔ ایک دن موقع پا کر اس نے شکایت کر ہی دی۔
اس نے کہا کہ اے بادشاہ ہدہد کا یہ بیان سوائے شیخی کے کچھ بھی نہیں اور صرف ایک غلط بیانی ہے جو کہ بادشاہ کی بھی توہین ہے۔ اگر ہد ہد کو زمین میں پانی نظر آجاتا ہے تو جب یہ دانہ دیکھ کر زمین پر آٹپکتا ہے تو اس کو وہ جال کیوں نظر نہیں آتا جس میں یہ شکار ہوجاتا ہے۔اگر اس کی نظر اتنی ہی تیز ہوتی تو اسے جال ضرور نظر آجانا چاہئے تھا تاکہ اس کی جان عذاب میں مبتلا نہ ہو۔
اب کوے کی دلیل سن کو حضرت سلیمان علیہ السلام نےہدہد سے باز پرسش کی کہ اس کے دعویٰ میں کتنی سچائی ہے اور آیاکہ اس نے شیخی بگھارنے کی جرأت کیوں کی۔
اس پر ہد ہد نے جواب دیا:
"اے بادشاہ کوے نے یہ بات حسد کی بنا پر کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے خوبی عطا کی ہے کہ میں زمین پر موجود دانہ اور جال دیکھ لیتا ہوں۔ لیکن کوے نے جو میرے جال میں پھنسنے کو میری خامی کہا ہے، یہ سوچ قضائے الہیٰ کے منکروں کی ہے۔ جب میری قضا آجاتی ہے تو میری عقل سوجاتی ہے اور میری آنکھوں پر پردہ پڑجاتا ہے اور میں قضائے الہیٰ سے اپنی تمام تر خوبی کے باجود جال میں پھنس کر اپنی جان سے جاتا ہوں۔
درسِ حیات:-انسان اور دیگر مخلوقات اپنی تمام تر خوبیوں اور جان بچانے کے تمام تر اسباب کے باجود قضائے الہیٰ سے بچ نہیں سکتے۔
از:-حکایات رومی
مولانا جلال الدین رومی