آخر ۔۔۔۔میں ہی کیوں؟
ماریہ شبیر (خان ہری)
اگر بات کی جائے عورت کی ذات کی تو یہ جملہ سب سے زیارہ اسی پر ہےکیوں کہ اس کی اس مختصر اور فانی زندگی میں پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک اس کو ایک بات باور کروا دی جاتی ہےکہ تم نے ہی ہر کام میں جھکنا ہے ۔ہر بات کو تسلیم کرنا ہے بغیر کوئی سوال کیے اور آگے سے جواب دیے۔
تو عورت پھر آخر یہی کیتی ہے کہ:
آخر۔۔۔۔۔میں ہی کیوں؟
بات کی جائے اس معاشرے کی اور عورت کو حقوق دینے کی تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب بات عوت کو اس کے حقوق دینے کی کرو تو یہ معاشرہ ڈگمگانے لگ جاتا ہےبات ٹال مٹول پر چلی جاتی ہے۔ قربانی عورت کے حصے میں آجاتی ہے۔طنز بھی اسی کو کیا جاتا ہے اور انگلیاں بھی عورت کی کردار پر ہی اٹھائی جاتی ہیں لیکن میرا سوال یہاں یہ ہے کہ:
آخر۔۔۔۔عورت ہی کیوں؟؟؟
اگر اس کے بچپن کی بات کرو اس گھر کی جہاں وہ پیدا ہوئی وہی سے ہی تو یہ سلسلہ شروع ہوتا ہے۔بیٹی کو بیٹے کر مقابلے میں کم خیال کرنا۔اور بیٹی کو یہ یاد کرواتے رہنا کہ وہ بیٹی ہے اور سمجھوتا کرنا اس کے نصیب میں ہے۔اس وقت ایک معصوم سا جملہ جو آدھا تو بول دیتی ہے اور آدھا زیر لب دبا لیتی ہےکہ:
آخر۔۔۔۔میں ہی کیوں؟؟؟
بات کی جائے اس کے زندگی کے سب سے اہم فیصلے کی، رشتے کی تو بیٹے کو ہر کوئی پوچھے گا لیکن بیٹی سے پوچھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔اس کی آدھی اور نئی زندگی اپنے پسند کے ہمسفر کے ساتھ گزارنے کی خواہشات تو وہی دم توڑ دیتی ہیں۔جب ہر بات طے ہو جانے کے بعد اس کو علم ہوتا ہے۔کہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہو چکا ہے۔اور وہ ان خواہشات کو دل میں دفن کر دیتی ہے باہر نکالنا بھی اس کے لیے اب گناہ سمجھا جائے گا۔تو وہ یہ الفاظ اپنے لبوں پر سجائے ہوئےکہ:
آخر۔۔۔۔میں ہی کیوں؟؟؟
چپ ہو جاتی ہے۔
بسانا ہو گھر اپنا یا دیکھنے ہو بچوں کے مستقبل اور اس کے بہتر بنانے کے لیے دیے جانی والی قربانی سب عورت کے حصے میں ہیں۔"مرد برا نہیں نہ میں مرد کو برا کہوں گی۔"مگر ہاں سمجھوتا عورت ہی کرتی ہے۔مرد جھکتا نہیں ۔وہ توہین سمجھتا ہے اور یہ اس کی شان کے خلاف ہے۔
لیکن میں اس جملے کے حق میں ہوں۔آپ تعجب کریں گے وضاحت ہے کہ اگر عورت کو روکا نہ جائے اس کو شروع سے سمجھایا نہ جائے تو یہ فتنہ بن جائے گی۔جھگڑے کی وجہ بنے گی اور اس سے ہی معاشرے میں بے حیائی بھی پھیلے گی اور اس بات سے ہرگز انکار نہیں۔اس لیے شروع سے ہی اسے سمجھایا جاتا ہےکہ عورت لفظ کا مطلب ہی پردہ ہےاور پردے میں رہنا ہی اسی کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتا ہے۔وہی اس کا حسن ہے وہی اس کے کردار کو خوبصورت بنانے کی پہلی سیڑھی ہے۔