افسانہ: لذت

 از قلم: اقصیٰ اشرف

شہر:بنوں

افسانہ: لذت


سر توڑ کوشش کرنے کے بعد حماد نے "اپنی زندگی کے پانچ سالوں میں پہلی بار زمین پر قدم رکھا۔"وہ پہلی بار زمین کو محسوس کرنے کی لذت سے روشناس ہوا۔۔۔۔۔بے اختیار خوشی کی ایک لہر اس کے وجود میں دوری اور اسے سر شار کر گئی۔وہ ہولے ہولے گیلی مٹی پر چلتے ہوئے اس کی خوشبو کو اپنے اندر اتارتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

             ****

مستقبل کے خوف اور پیچھے رہ جانے کے ڈر سے صحیح اور غلط میں تمیز کے بجائے، خوب سے خوب تر کی تلاش میں رشوت کے چسکے روشناس ہوا۔۔۔۔۔ بازار دنیا میں اس جیسوں کی مثال ایسی ہے!

''جیسے کوئی اونٹ کنویں میں گر رہا ہو اور وہ بھی اس کی دم پکڑے اور کنویں میں جا گرے'' ۔(الحدیث)

یہ گمراہی ہے۔۔۔۔تباہی ہے۔۔۔۔۔سکون کی تلاش میں ہم ظلم،بدعنوانی،رشوت، کے دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔"جسطرح آگ اور پانی،سورج اور چاند،آسمان اور زمین کا اکھٹا ہونا ناممکن ہے۔اسی طرح زندگی کی برکتیں سکون، ظلم اور بد عنوانی کے ساتھ نا ممکن ہے۔

                        * * ** 

دنیا کتنی خوبصورت ہے۔لیکن در حقیقت کتنی خوفناک اور بد صورت۔"

اپنی زندگی کی 72 بہاریں دیکھ چکنے کے بعد اب حماد اپنی زندگی کے آخری سورج کے ڈوبنے کی لذت کو بھرپور طریقے سے محسوس کر رہا تھا۔ڈوبتے سورج کی نارنجی کرنیں اسکے ضعیف وجود پر پگھلی، اسکے چہرے پر خزاں رسیدہ مسکراہٹ چھا گئی۔ بلآخر آج وہ "اصل لذت سے روشناس ہوا۔جب اس نے موت کی لذت کو چکھا۔"

بے شک!!!!

''کل نفس ذائقہ الموت''

آپ کی رائے

جدید تر اس سے پرانی