باپ
ماہ نور حسین(حیدرآباد)
آج جب قلم اٹھایا تو کافی وقت یہ سوچنے میں لگا کہ باپ کے بارے ميں لکھنا کہاں سے شروع کیا جائے۔بظاہر عام اور معمولی لگنے والا عنوان"باپ"جب قلم تھاما تو باپ کی شفقت،محبت اور قربانی کے آگے نہایت ہیچ معلوم ہوا۔کیوں کہ باپ ایک ایسی ہستی ہے جو اپنے گھر اور اس کی خوشیوں کی خاطر اپنا وجود تمام تر ذمےداریوں کے بوجھ تلے دے دیتا ہے۔جو خود تو سلگتی آگ میں مزدوری کرتا ہے۔اپنی خواہشات کا گلہ ابھرنے سے پہلے ہی گھونٹ دیتا ہے مگر اپنے گھر پہ آنچ نہیں آنے دیتا۔اپنے بچوں کی کوئی خواہش زبان پہ آنے سے پہلے اسے پوری کرنے کی تگ و دو اس کو خوشی کا احساس دلاتی ہے اور یہ جذبہ دنیا کے تمام رشتوں میں واحد باپ کے رشتے میں پایا جاتا ہے۔
"کہہ رہی ہے نوعِ انسانی سے یہ صبح ازل
باپ کے رشتے کا کوئی بھی نہیں نعم البدل"
اسلام میں والدین کے بہت حقوق ہیں۔ہم جگہ جگہ والدین کی اہمیت و افادیت اور ان کے حقوق پڑھتے ہیں مگر جب اپنی حقیقی زندگی کا رخ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی قدر و قیمت ہم لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے۔ہم ہر جگہ ماں کی اہمیت اور رتبہ پڑھتے ہیں مگر باپ زندگی کا وہ خاموش باب ہے جس کے دم سے گھر کا پہیہ چلتا ہے۔جس کا وجود پورے گھر کی خوشی اور خوشحالی کا ضامن ہوتا ہے۔جو ہر اذیت ہر تکلیف کو اپنے گھر کا رخ کرنے سے پہلے خود پہ سہہ لیتا ہے۔اتنا مضبوط کہ بڑے سے بڑا غم اور تکلیف خاموشی سے سہہ لے اور حساس اتنا کہ اپنی اولاد کا چھوٹے سے چھوٹا دکھ درد اس کے وجود کو ہلا دیتا ہے۔باپ زندگی کی وہ حسین حقیقت ہے کہ جن کے سائے تلے تمام اولاد اس طرح پروان چڑھتی ہے جیسے کوئی سایہ دار شجر کے تلے سکون کا سانس لیتا ہے۔باپ کا وجود اولاد کو دنیا کی تپتی دھوپ سے اس طرح بچا کر رکھتی ہے جب تک باپ حیات رہتا ہے اس کی اولاد کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔
آج اپنے اطراف میں نظر دوڑا کر دیکھا جائے تو اپنا گناہ گار وجود صرف اس ایک نعمت پر زندگی بھر سجدہ ریز ہونے کے لیے کافی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے مخلص والدین کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔آج قلم اٹھا کر اس بوجھ کا احساس محسوس ہو رہا ہے کہ زندگی کی عظیم ہستی"باپ"پر چند الفاظ قلم بند کرنا کتنا مشکل مرحلہ ہے جو کہ اس ہستی کی ذمے داریوں اس کی خوبیوں اور اس کے احساس کا نتیجہ ہے۔
"میرا باپ"جس کی زندگی کا محور ہم خود ہیں۔جس نے اپنی خوبصورت جوانی ہماری ضروریات و خواہشات اور آسائشات کے لیے وقف کردی۔پہلے ہمیں دنیا میں لانے کا سبب بنے،پھر ہمیں چلنا سکھایا،بولنا سکھایا اور پھر تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔اب جب کہ میں اپنے قلم سے چند سطور لکھنے کے قابل ہوئی تو بھی پہلا شخص میرا باپ ہے۔جس کی آنکھوں میں،میں نے خوشی کی رمق دیکھی بالکل اسی طرح جس طرح وہ میرا پہلا قدم اٹھانے پہ خوش ہوا تھا۔آج میں بذاتِ خود اس بات کا دل سے اعتراف کرتی ہوں کہ میں یہ چند سطور لکھنے کے قابل صرف اپنے باپ کی وجہ سے ہوئی کہ جس کی پشت پناہی، جس کا حوصلہ آج مجھے قلم کے ذریعے میرے جذبات، احساسات، خیالات کی صورت میں اس قابل بنا دیا ہے کہ میں معاشرے کا اہم اور کارآمد فرد بن کر اپنے حصے کا کام کرنے کے قابل ہوں۔
"میرا باپ"میری زندگی کا وہ عظیم باب ہے کہ جس کی بدولت آج میں اس معاشرے میں سر اٹھا کر جی سکتی ہوں۔جس کا حوصلہ،ہمت،بھروسہ اور اعتماد مجھے دنیا کے پیچ و تاؤ سکھاتا ہے۔جو اپنے عمل سے روز مجھے جینے کے گر سکھاتا ہے۔زندگی کے پیچ و غم سے آشنا کرا کے اسے پار کرانے کے طریقے بتاتا ہے۔یہ ہی وہ میرا باپ ہے جو پہلے مجھے خواب دیکھنا سکھاتا ہے اور پھر ان کی تکمیل میں میرا ساتھ نبھاتا ہے۔اس تحریر کو لکھنے سے میری آنکھوں میں وہ تمام مناظر سامنے آرہے ہیں کہ جس میں میرے باپ نے میرے لیے دن رات بھاگ دوڑ کی۔جس کو اپنی طبیعت اور آرام سے زیادہ ذریعہ معاش اور میری اور میرے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کی فکر ستاتی تھی۔میں سوچتی ہوں وہ کون ہوتی ہیں جو حقوقِ نسواں کی بات کرتی ہیں؟ کیوں کہ باپ اپنی بیٹی کو اتنے حقوق دیتا ہے کہ اس کے بعد اسے کسی ایسے حقوق کی ضرورت نہیں رہتی جو غیروں سے مانگنے پڑیں۔مجھے اتنے باعزت طریقے سے میرے اپنے گھر میں اتنے حقوق دیئے گئے ہیں کہ جس کے بعد مجھے کبھی کسی اضافی حقوق کی ضرورت کا احساس ہی نہیں ہوا اور اس قابل بنانے میں پہلا کردار میرے باپ کا ہے اور اگر مجھ سے بحیثیت ایک بیٹی کے پوچھا جائے کہ باپ کیا ہے؟تو میں یہ ہی کہوں گی کہ "باپ وہ سایہ دار درخت ہے کہ جس کے سائے میں بیٹیاں راج کرتی ہیں۔جس کے ہونے سے دنیا کی میلی نگاہ کبھی بیٹی پہ نہیں پڑتی۔"
مختصراً کہوں تو باپ وہ ہے کہ جو ہماری دنیا سنوارتا ہے اور اس کی خدمت کر کے ہم اپنی آخرت بھی سنوار سکتے ہیں۔شاعر نے کیا خوب لکھا ہے: