فلموں کے شوقین ماں باپ اور بچوں کی تربیت

 

image by pixabay


فاطمہ کنیز (بہاولنگر)

میں نے ادب کی تقریباً ہر صنف کے بارے میں پڑھا لیکن ادب میں مجھے کہیں بھی فلم کا نام دکھائی نہیں دیا یعنی فلم کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لکھاری کی لکھی ہوئی ہر تحریر میں قارئین کےلئے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق پوشیدہ ہوتا ہے جو کہ کسی کی پوری زندگی بدل سکتا ہے۔میں نے بہت سے چھوٹی عمر کے بچوں میں بہت سے کبیرہ گناہ  دیکھیں ہیں جن کے بارے میں سن کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کچھ بچے تو پڑھائی میں اچھے تھے لیکن کچھ بالکل ہی نکمے اور جو تھوڑے بہت ذہین تھے وہ بھی انتہا کے بدتمیز جنہیں نہ بیٹھنے ،اٹھنے کی تمیز تھی نہ ہی بولنے کی ان بچوں کے بارے میں تھوڑی معلومات حاصل کرنے کے بعد پتا چلا کہ ان کے گھروں میں ہر وقت فلمیں دیکھی جاتی ہیں ظاہر ہے  ان کے والدین فلموں کے شوقین ہیں تبھی تو ان بچوں کو کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔

میرا آنکھوں دیکھا واقعہ ہے ایک ایسا گھر جس کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی پانچ وقت کے نمازی تھے گھر میں ڈش اینٹینا تھا لیکن صرف پاکستانی  چینل ہی چلتے تھے بچے چونکہ نماز کے پابند تھے تو فحش فلموں کی طرف ان کی دلچسپی نہیں تھی لیکن ان کے باپ کا یہ کہنا تھا کہ کہانیوں سے بچے سیکھتے ہیں یہ بات درست ہے کہ کہانیوں سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں لیکن ان کا باپ اپنے نفس کی غلامی میں مبتلا ایک گھمنڈی انسان تھا جو کہ نفس کی خواہش پر اس طرح ڈٹا ہوا تھا کہ اسےاپنے بچوں کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں تھی وہ شہر سے آیا تھا اس نے گھر میں بہت سے غلط چینل چلانا شروع کردیا اور ہر وقت فلمیں اور گانیں ان نمازیوں کے گھر میں گونجنے لگے ان فحش گانوں اور فلموں کی نحوست نے اس گھر سے نماز کی پاکیزگی کو اٹھا دیا اب وہ دن اور آج کا دن اس گھر میں کبھی دو اور کبھی تین لوگ پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں باقیوں کو ہزار دفعہ بھی کہہ دو تو بھی وہ نماز نہیں پڑھتے ۔

والدین جب سارا دن اور ساری رات فلمیں دیکھنے میں مگن ہوں گے تو اولاد کی تربیت کب کریں گے اور کیا تربیت کریں گے؟ گانے اور فحش لباس کسی کو سبق کیا سبق سکھا سکتے ہیں  میں نے ہمیشہ سنا کہ اچھی کتاب اور اچھے دوست کا انتخاب کرو کیونکہ اچھے دوست اور اچھی کتاب آپ کو اچھائی کی طرف راغب کریں گی  آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے بہت سے لوگ ٹی وی کے ذریعے ہی دنیا میں ہونے والے  واقعات سے باخبر  رہتے ہیں ڈراموں کے ذریعے بہت سے درندوں کے چہروں کو بے نقاب کیا جاتا ہے لیکن فلم بالکل بےہودہ اور بے مقصد ہے جو کہ صرف اور صرف گمراہی کی طرف اکسا سکتی ہے۔ میں نے لوگوں کو فلموں کی دنیا میں مگن دیکھا میں نے کچھ فلمیں دیکھیں جن میں کچھ تو بالکل سادہ پنجابی کلچر پر بنائی گئی تھیں اور کچھ ہندی اور اردو لیکن یقین مانیں میں نے جب بھی کبھی فلم دیکھی میں  اس سوچ میں مبتلا ہو گئی کہ آخر اس میں کیا سبق پوشیدہ تھا میں فلم دیکھ کر ہمیشہ بے چینی کا شکار ہوئی۔ آج مجھے افسوس ہے اپنے اس وقت پر جو میں نے ایسی لعنت کو دیکھنے میں گزارا ہر کسی میں حوصلہ نہیں ہوتا کہ اپنے ماضی سے پردہ اٹھائے لیکن ایک لکھاری کا مقصد اصلاح کرنا ہوتا ہے اپنی اور اپنے لوگوں کی ۔میں نے فلمیں دیکھنے سے اپنے رب سے توبہ کرلی ہے اور اپنے لوگوں کو بھی اس لعنت سے نکالنے کیلئے کوشاں ہوں اس سفر میں  مجھے بہت سے اپنوں کی دشمنی بھی مول لینی پڑی لیکن میں اپنے مقصد پر قائم ہوں ۔

ماں باپ سے میری درخواست ہے کہ اپنے نفس پر قابو پائیں اپنی خاطر نہ سہی اپنی اولاد کی خاطر کیونکہ اگر آپ اس لعنت کے شوقین نہیں تو آپ اپنی اولاد کی  تربیت اچھی کرسکیں گے اس طرح آپ اپنے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی دنیاوآخرت بھی سنوار لیں گے ۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی