از قلم:اقصی اشرف
شہر: بنوں
دوپہر کا وقت تھا۔۔۔۔گرم گرم لو کے تھپیڑے
بدن کو جھلسائے دے رہے تھے۔سورج اپنے تمام تر غیض وغضب کے ساتھ زمین کو گھور رہا تھا۔
اوپر،نیچے لکڑیوں کو نئے سرے سے ترتیب دے کر آگ کو مزید دھکایا گیا۔وہ بے یارو مدد گار پڑا اپنی بے بسی کا تماشہ دیکھ رہا تھا۔بے اختیار درد کی ایک شدید لہر اس کے پورے وجود میں سرائیت کر گئی۔
یا اللہ!!! میری مدد فرما۔اسکی پکار میں ایک فریاد تھی،درد تھا۔۔۔۔۔۔"مالک نے اسے اٹھایا اور دھم سے بھڑکتی آگ میں دیوار کے ساتھ چپکا دیا۔"
نہیں۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔نہ کرو یہ ظلم۔۔۔۔۔بخش دو مجھے۔۔۔۔رحم کرو مجھ پر۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔اس کی فریاد آگ کے شعلوں میں ہی کہیں دم توڑ گئی۔
اس نے دائیں،بائیں دیکھا تو کچھ اطمینان سا ہوا کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔اس کے ساتھ اسکے قبیلے کے اور بھی ساتھی تھے۔جو اس تشدد کا شکار ہوئے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکا نرم و ملائم وجود اپنی شناخت کھو رہا تھا۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔
ارے چھوٹے کیا جھانک رہا ہے۔جلدی کر نا۔۔۔۔کب تک انتظار کروائے گا سب کو۔مالک نے چھوٹے کو ٹوکا۔
جی مالک بس دو منٹ۔چھوٹے نے چمٹے نما لوہے کے دو سریوں کو یکجا کرکے اسے اور اسکی برادری والوں کو نکالا اور۔۔۔۔۔۔
یہ لو صاحب جی! تناول فرمائیے،"گرما گرم نان۔۔۔۔دال مکھنی کے ساتھ۔
چھوٹے نے ہوٹل آئے گاہکوں کو کھانا پیش کرتے ہوئے کہا۔