Image by
pixabay
حبیبہ شمشیر ( دودھو چک)
ہم بہت سے نیک کام یعنی سادگی والے کام یہ سوچ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے اور جب ہم لوگوں کا سوچنے لگ جاتے ہیں تو اپنے مقاصد سے بہت پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اگر ہم لوگوں کی باتوں پر توجہ دینی شروع کر دیں گے تو اپنا بہت قیمتی وقت ضائع کر دیں گے اور لوگ تو کبھی بھی کسی بھی حال میں خوش نہیں ہوتے بلکہ آپ میں کوئی نہ کوئی کمی نکال کر آپ کو تکلیف ضرور پہنچاتے ہیں
مثال کے طور پر نکاح ایک بہت سادہ رسم ہے جیسے ہم نے خود اتنا مشکل بنا دیا ہے کہ کوئی بھی غریب آ دمی آسانی سے اس فریضے کو سر انجام نہیں دے سکتا۔ہم نکاح کے مقدس موقع پر لاکھوں روپے یہ سوچ کر خرچ کر دیتے ہیں کہ بعد میں لوگوں سے باتیں نہ سننی پڑ جائے اور اس کام کے لیے ہم اتنا قرض اٹھا لیتے ہیں کہ ہمارا زندگی کا کافی حصہ پھر قرض اتارنے میں گزر جاتا ہے.
اور دوسری بات اگر آپ کیسی اونچے درجے پر فائز ہیں تو یہ سوچ کر اپنے بہت سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ اب اگر میں خود کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے تو جناب عالی ایسا کرنے سے انسان کاہل اور کام چور بن جاتا ہے۔ اپنے کام کرنے میں کبھی شرم محسوس مت کریں۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک باپ اور بیٹا گدھے کے ہمراہ سفر پر چل دیے کیسی نے دیکھا تو بولا کہ تمہارے پاس گدھا ہیں تم اس پر سوار ہو جاؤ پیدل کیوں چل رہے ہو؟ یہ سن کر وہ باپ بیٹا گدھے پر سوار ہو گے تھوڑا سا چلے کہ کسی اور نے کہا کہ بے زبان جانور پر اتنا ظلم کہ تم دونوں سوار ہو گے ایک اتر جاؤ . یہ سن کر بیٹا اتر گیا اور باپ سوار ہو گیا ۔ تھوڑا مزید سفر طے کیا تو کوئی راہ چلتا بولا کہ بیٹا بیچارا پیدل چل رہا ہے اور باپ گدھے پر سوار ہے یہ سن کر باپ نیچے اتر گیا اور بیٹا سوار ہو گیا اسی طرح انھوں نے مزید سفر طے کیا تو کوئی اور بولا تم پاگل ہو جو پیدل چل رہے ہو تمہارے پاس گدھا ہیں تم دونوں اس پر سوار ہو جاؤ وہ سوار ہو گیا ابھی وہ چند قدم چلے ہی تھے کہ کوئی اور راہ چلتا بولا کہ گدھے پر اتنا ظلم کہ دونوں ہی سوار ہو گے ہو ۔ تنگ آکر اس باپ بیٹے نے گدھے کو سر پر سوار کر لیا اور پھر لوگ خاموش نہیں ہوتے بلکہ کہنے لگے کہ کتنے پاگل گدھا تو خود آسانی سے چل سکتا ہے بھلا سر پر اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟
لوگ کسی بھی حال میں جینے نھیں دیتے اگر ان کی مان لی جائے تب بھی اگر نہ مان لی جائے تب بھی تو لہذا آپ لوگوں کی باتوں پر توجہ دیے بغیر اپنے سفر کو جاری رکھے۔
کامیاب کرنے والی ذات تو اللہ عزوجل کی ہے۔