سبیت طاہر (سیالکوٹ)
جنوری کی ٹھنڈی رات تھی جب وہ اپنے
ارد گرد شال اوڑھے لان میں کرسی پر بیٹھی چاند کو دیکھنے میں مصروف تھی۔ ٹھنڈی ہوا
اس کے وجود سے ٹکرا رہی تھی جس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ لیکن اس کی
کھلی زلفوں کو اڑا رہی تھی جن کو وہ کانوں
کے پیچھے بار بار کر رہی تھی لیکن ہوا کی وجہ سے وہ پھر اس کے چہرے پر آجاتیں۔۔ وہ خاموش گزرے برس کی ایک ایسی
ہی رات کو یاد کر رہی تھی۔ جس نے اسے کافی تبدیل کر دیا تھا۔ جب اس کی بچپن کی
محبت اس دور ہو گئی۔ اسے وہ رات آج بھی یاد تھی جب وہ اس کا انتظار کے رہی تھی کہ
کب وہ آئے اور اس سے اپنے دل کا حال بیان کرے۔ ہاشم اور افشاں چچاذاد تھے اور بہت
اچھے دوست بھی تھے۔اُن دونوں کا بچپن میں ہی نکاح ہوگیا تھا۔ ہاشم اسے پسند کرتا
تھا لیکن افشاں نہیں کرتی تھی۔ نکاح کے بعد اس کی بھی دل کی کیفیت بدلی۔ اسے بھی
ہاشم سے محبت ہوگئی لیکن اس نے کبھی اس سے اظہار نہیں کیا تھا۔اور ہاشم کو اس کی
ضرورت بھی نہیں تھی کیوں کہ وہ بھی اس کے جذبات سے باخبر تھا۔ان دونوں نے کافی وقت
ساتھ گزارا تھا۔پھر ہاشم نے آرمی جوائن کر لی۔ اور وہ دونوں الگ ہوگئے۔ پانچ سال
تک وہ دونوں ایک دوسرے سے نہیں ملے تھے۔ لیکن فون پر اُن کا پورا رابطہ تھا۔ ایک
دوسرے کی سالگرہ پر تحائف بھیجتے رہتے تھے۔ پھر ایک دن افشاں کو معلوم ہوا کے ہاشم
کی پوسٹنگ کشمیر میں آئی ہے۔ افشاں کا دل دہل گیا کیونکہ اس کے حالات بہت خراب
تھے۔ لیکن ہاشم نے اُسے تسلی دی۔ وہ پھر بھی اندر سے مطمئن نہیں ہوئی لیکن ہاشم کی
خوشی کے لیے چپ ہوگئی۔اس کا ایم۔بی۔بی۔ایس پورا ہوگیا تھا اب وہ ہاؤس جاب شروع کر
چکی تھی۔ اور ہاشم کے قریب رہنے کے لیے اس نے بھی کشمیر کے ایک گاؤں میں ایک
ہسپتال میں جاب شروع کر دی تھی۔سب نے افشاں کی مخالفت کی یہاں تک کہ ہاشم نے بھی
منع کیا لیکن اس نے کسی کی نہیں سنی۔ وقت گزرتا گیا ہاشم کی ڈیوٹی کافی سخت ہو گئی
تھی۔ اُسے ایک سال تک کوئی چھٹی نہیں ملی تھی۔ لیکن وہ دو بار افشاں سے ملا
تھا۔آخری ملاقات پر ان دونوں نے کافی وقت ساتھ گزارا تھا اور چھٹی ملتے ہی شادی کا
فیصلہ کیا۔وہ دونوں مطمئن اور خوش تھے۔ بالآخر اُسے چھٹی مل گئی
لیکن اس سے پہلے اُسے ایک آپریشن پورا کرنا تھا اس کے بعد اُسے ایک طویل چھٹی ملنی
تھی۔ اس کے بعد اس کی اور افشاں کی شادی
تھی۔ سب بہت خوش تھے۔ شادی کی تیاریاں شروع ہو چکی تھیں۔ بس ہاشم اور افشاں کی کمی تھی۔ اُن دونوں نے اکٹھے ہی اسلام آباد
آنا تھا۔ خوش قسمتی سے ہاشم کا آپریشن کامیاب ہوا۔ بدھ کی رات ہاشم
افشاں کو ہسپتال سے لینے کے لیے نکلا اور پہنچا بھی بدقسمتی سے نکلا پاؤں پر تھا
لیکن پہنچا ایمبولینس میں۔ راستے میں اُس کی گاڑی پر ان گینگ کے ساتھیوں نے حملہ
کیا جس گینگ کو اس نے بےنکاب کیا تھا۔ فائرنگ کی وجہ سے دو گولیاں اس کے وجود کے
ار پار ہوئیں۔ ہاشم کو اُسی ہسپتال لایا گیا جس میں افشاں کام کرتی تھی۔ ایمرجنسی
کی طرف جاتے سٹریچر پر پڑے ایک وجود کی طرف جب اُس کی نظر پڑی تو وہ وہیں برف کا مجسمہ بن گئی۔ وہ وہی تھا جس کے ساتھ اس
نے زندگی گزارنے کے خواب دیکھے تھے۔لیکن وہ اس طرح بےجان اس کے سامنے تھا۔ اُس کی
سرجری دیگر ڈاکٹرز کے ساتھ افشاں نے بھی کی تھی۔وہ ائی۔سی۔یو سے باہر نکلتے وقت
اسے ہاشم کے ساتھ گزارے لمحے یاد آنے لگے۔اسے وہ آخری ملاقات یاد آئی جس میں ان
دونوں نے اپنی شادی کی پلینیگ کی تھی۔اس کی آنھ سے ایک آنسو نکل کر زمین بوس
ہوا۔اور پھر وہ خود بھی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
آج اُس حادثے کو گزرے ایک برس گزر گیا لکين افشاں ابھی تک اُسی
میں ہی تھی۔ اُس کی زندگی بلکل بدل گی تھی۔ ہسپتال سے گھر اور گھر سے ہسپتال بس
اُس کی زندگی اُسی کے گرد گھوم رہی تھی۔ایک شرارتی لڑکی ایک سنجیدہ انسان میں
تبدیل ہو کر رہ گئی تھی۔وہ خوش تھی اسی طرز زندگی سے۔ اُسے کُچھ وقت چائیے تھا
زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے۔ وہ چاند کو دیکھ رہی تھی جب وہ اس کی ساتھ والی کرسی
پر آکر بیٹھا۔افشاں نے اسے دیکھا اور مسکرا دی۔ہاشم آرمی یونیفارم میں اپنی مخصوص
مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر افشاں کے چہرے پر ایک دلفریب
مسکراہٹ نے جگہ لی۔
حلیمہ طارق
انھیں ایک گنبد نما گول عمارت میں
رکھا گیا تھا۔ جس میں آمد و رفت کا کوئی راستہ نہیں رکھا گیا تھا۔ وہ اس بات سے
لاعلم تھے کہ یہاں کیسے لائے گئے تھے. بس انھیں اس بات کا پتہ تھا کہ کچھ عرصے کے
بعد انھیں یہاں سے چلے جانا ہے ۔ کب جانا ہے؟ اس بات کا انحصار ان کے طرز عمل پر
تھا۔ یہ سب باتیں انھیں کیسے پتہ تھیں وہ اس سے بھی بے خبر تھے۔ حیران کن بات یہ
تھی کہ انھیں ایک مخصوص وقت پر نیند آجاتی تھی۔ اور نیند کی حالت میں وہ عام
انسانوں کی طرح تمام کام کیا کرتے تھے ۔کھانا کھاتے تھے۔ کام کرتے تھے۔ گھومتے
پھرتے تھے۔ رشتے نبھاتے تھے۔ اور دیگر بشری تقاضے پورے کرتے تھے۔ ان تمام امور کو
انجام دینے کے لیے کن ضوابط پر عمل کرنا تھا اس کا علم ہر فرد کو ایک سرگوشی کی صورت میں موصول ہوتا یہ سر گوشی
صرف وہ سن سکتا تھا جو ضوابط پر عمل کرنے
کے لیے تیار ہو۔ اگر کوئی ضوابط پر عمل نہ
کرنا چا ہے تو اس کی آزادی تھی۔ لیکن بیداری کے بعد اس کے وجود سے نیلے رنگ کی
روشنی نکلتی تھی اور دیگر افراد کو علم ہو جاتا تھا کہ یہ فرد اپنے اختیار کو
استعمال کر چکا ہے۔ وہ اس کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیتے یہ روشنی ساتھ والوں کے بھی جسم میں سرایت کر
جاتی اور ضوابط پر عمل کرنے کے باوجود انھیں بھی سماجی مقاطعہ کا سامنا کرنا پڑتا
تھا۔ کل سات افراد تھے۔ جن میں سب سے پہلے جس نے ضوابط کو نظر انداز کیا۔ اس
نے اس وسیع گنبد میں خود کو اَن چاہا سمجھ کر
خوب وا ویلا کیا۔ منت سماجت کی ۔
ساتھ رہنے کی کوشش کی۔ لیکن سب اس کی روشنی کی نحوست سے بچنے کی کوشش میں اس سے
دور دور رہتے تھے۔ وہ تنہائی کے عذاب سے تڑپتا رہا اس وقت کو کوستا رہا جب اس نے
اختیار استعمال کیا تھا۔ اس کی آہ و زاریاں گنبد میں چکراتی رہتیں۔ اس کی تنہائی
اور یہ کیفیت زیادہ دیر تک قائم نہ رہی۔ کچھ عرصے کے بعد دوسرے شخص کے پاس سے وہی
روشنی نکلنے لگی ۔ پہلا شخص چیخ مار کر اس سے لپٹ گیا۔ اس کی تنہائی دور ہو گئی۔
اب گنبد کے مکینوں کے تین طبقے بن چکے
تھے۔ ایک طبقہ شرمندگی کا طوق لٹکائے ہوئے ، دوسرا طبقہ آنکھوں میں ان کے لیے
حقارت لیے ہوئے جب کہ تیسرا طبقہ صرف ایک شخص
پر مشتمل تھا نہ اس کی آنکھوں میں حقارت
تھی نہ ہی ہمدردی۔ اگلے ہی دن گنبد کے تین طبقے دو میں بدل گئے ۔چھ کے چھ نفوس نیلی
روشنی والے بن گئے۔
صرف ایک شخص نے ضوابط کی پابندی نہیں کی تھی دوسرے نے اس کی دیدہ
دلیری دیکھ کر اس کی راہ اختیار کی اور باقی چار لوگوں نے ان کو حقارت سے دیکھا ۔ وہ اکثریت میں تھے اور بے سکون تھے۔
وہ اس واحد سفید روشنی کے حامل مکین کو
رشک و احترام کی نظر سے دیکھنے لگے ۔ اس کے اندر
سے پھوٹتی نورانی شعاعیں ان کو احساس شرمندگی سے دوچار کرنے لگیں۔ کچھ ہی عرصے کے بعد وہ اپنے نیلے رنگ سے نفرت
کرنے لگے ۔ اس شخص کا گریز ان کے لیے روح فرسا تھا ۔ وہ اس کی منت سماجت کرنے لگے
کہ وہ انھیں اپنے پاس آنے دے ۔ اور اس تمام عرصے میں جس کا وہ تعین نہیں کر سکتے
تھے کہ کتنا طویل تھا۔ وہ اس ساتھی کی محبت میں مبتلا ہو چکے تھے ۔ آخر انھوں نے ایک
دن اس دوری کو ختم کرنے کے لیے ایک بہت بڑا فیصلہ کر لیا ۔وہ آہستہ آہستہ اس کی
طرف بڑھنے لگے۔ وہ شخص خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹتا گیا یہ اس کی طرف بڑھتے گئے۔ اس
شخص کی آنکھوں کا خوف آہستہ آہستہ غصے میں بدلنے لگا اور پھر اس میں نفرت کے سائے
تیرنے لگے۔ جیسے جیسے دوری ختم ہوتی جا رہی تھی اس کی آنکھوں میں نفرت کی جگہ
حقارت لیتی جا رہی تھی۔ نیلی روشنی والے اپنی نحوست سے اس کا مرتبہ، سکھ اور چین
چھیننے لگے تھے۔ ان کے اِس عمل نے اس کے
اندر غم و غصے کی آتش کو بھڑکا دیا ۔اس نے انھیں خبردار کیا کہ وہ اپنی سفید روشنی
ان کو ہر گز نہیں دے گا۔ اسی وقت گنبد میں ایک دروازہ نمودار ہوا اور چھ کے چھ مکین
نورانی پرندوں کی صورت میں پرواز کر کے باہر کی آزاد فضاؤں میں اڑ گئے۔ اب گنبد میں
ایک ہی واحد مکین تھا۔
اکیلا نیلی روشنی والا، اس بات سے بے
خبر کہ اس کے لیے گنبد کا دروازہ کب کھلے گا۔ وہ اس بات پر حیران تھا کہ اس نے اس
گنبد سے آزاد ہونے کی ہر شرط پوری کی تھی اپنی نورانی شعاعیں سنبھال کر رکھیں تھیں۔
لیکن یہ سب کوششیں اکارت گئیں۔ نیند کی حالت میں کئی مرتبہ اس نے بھی ضوابط کو
بالائے طاق رکھنے کی خواہش دل میں پائی تھی ۔ لیکن گنبد سے آزاد ہونے کا تقاضا تھا
کہ اپنی سفید روشنی کی حفاظت کی جاتی جو اس نے کی۔ پھر کہاں چوک ہو گئی؟ اس نے اپنے بال نوچ لیے۔ سینہ پیٹ ڈالا۔ہر سمت
آواز لگائی کہ اس کو اس کی غلطی بتائی جائے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ آیا گنبد کی
تنہائی اس کے لیے زہرِ قاتل بنتی جا رہی تھی۔اس کا غصہ اب پچھتاوے کی شکل اختیار
کر گیا۔ اس نے رونا بلکنا چھوڑا اور اپنے طرزِ عمل پر غور کرنے لگا ۔ گنبد کی گول
دیواریں آئینہ بن گئیں اس نے اس میں اپنا کریہہ چہرہ دیکھا اپنے ساتھیوں کو
دھتکارتا ہوا ان کی عقیدت کو نفرت سے ٹھکراتا ہوا اسی وقت اس پر آگہی کا در کھلا ۔
وہ شرمندگی کے احساس سے مغلوب ہوا اور خاموش آواز میں رونے لگا یہ میں نے کیا کر دیا
۔کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا اگر مجھے ان کا ساتھ مل جائے تو میں اپنی سفید روشنی
ان کو دے دوں گا۔لیکن میری سفید روشنی تو نیل میں بدل گئی ہے۔ندامت اور بہتری کی
خواہش اس کے وجود میں سرایت کر گئی اسی وقت گنبد چٹخا اور اس نے دیکھا کہ وہ وسیع فضا میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ آزادانہ
پرواز کر رہا ہے۔
عائشہ کنول
سیالکوٹ (مراکیوال)
لوگ اکثر دعا کرتے ہیں کہ اللہ کسی پہ
برا وقت نہ لے کر آئے کبھی.....! پر کیا کبھی تم نے غور کیا ہے کہ لوگ سب سے زیادہ
اپنے رب سے کس وقت جڑتے ہیں..؟ لوگ اس وقت اللہ کو زیادہ یاد کرتے ہیں جب ان پر
برا وقت آتا ہے..
ہماری دعا ہونی چاہیے تھی کہ اللہ کبھی ایسا وقت نہ لے کر آئے
کہ بندہ اپنے رب سے دور ہو جائے..
یقین جانو برا وقت بھی انسان کہ لیے
اتنا برا نہیں ہوتا جتنا کہ اپنے رب سے دوری... ہم دوسروں کے لیے خوشیاں تو مانگتے
ہیں پر ان خوشیوں میں اللہ کا شکرگزار بننے کی دعا نہیں دیتے... اس دعا کی ضرورت
اسے سب سے زیادہ ہے..
کیوں کہ خوشیاں اکثر انسان کو اپنے رب
کی یاد سے غافل کر دیتی ہیں.. اور جب انسان اپنے رب سے غافل ہو کر اپنی مستی میں
مست ہو جاتا ہے تو پھر آتے ہیں غم اسے دوبارہ اپنے رب سے آشنا کروانے... ایسے کیوں
سمجھتے ہو کہ غم تمہارے حق میں بہتر نہیں..؟
زرا سوچو تو سہی کہ جو غم تمہیں تمہارے رب سے قریب کر دیں وہ تو ہزاروں خوشیوں
سے بہتر ہے...اور ایسی خوشیاں جو تم کو غفلت کے اندھیروں میں لے کر جا رہی ہیں ان
سے بہت بہتر ہے کہ تم اپنے رب کہ سامنے اپنے غم بیان کرو اپنے دل کا سکون تلاش
کرو، اس دنیا کی حقیقت کا سامنا کرو..
یہ غم تکلیف تو آزمائش ہوتے ہیں اور
آزمائش تو مومن کی سنت ہے.. ان کا سامنا تو نبیوں کو بھی کرنا پڑا ہے پھر ہم کیسے
اس کے بغیر زندگی گزار سکتے ہیں.؟ وہ غم تمہارے لیے نعمت ہیں جو تم کو تمہارے رب
سے قریب کر دیں... اس لیے غم میں اللہ سے گلہ مت کیا کرو بلکہ اس کا شکر ادا کیا
کرو..
وہ تم نے سنا نہیں کہ " اللہ کسی
نفس پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہے"
اس بات کا یقین رکھو کہ جو تکلیف، جو
غم تمہارے حصے میں آئے ہیں تم ان کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہو اسی لیے وہ تمہیں
دیے گئے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ تم اس آزمائش میں پورا اترتے یا اپنے رب سے گلے
شروع کر دیتے ہو...
جانتے ہو نا کہ تمہارا رب فرماتا ہے
کہ" مشکل کے ساتھ آسانی ہے"
تو اس مشکل میں اب تمہارا کام آسانی
کا انتظار کرنا ہے اور اپنے رب کی رضا میں راضی ہونا ہے۔
غموں میں ملے جو رب مجھ کو
تو میں خوشیاں وار لٹاتی ہوں
جو وہ راضی میرے غم میں ہے
تو میں غموں میں مسکراتی ہوں
از قلم: ماہ نور
حسین(حیدرآباد)
ہر سال کی طرح آج بھی عثمان اپنے باپ کی قبر پر آنسوں بہا رہا
تھا۔اس کے ضمیر کی ملامت نے اُسے اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی سکون نصیب نہیں
ہونے دیا اور ہر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ اس کا پچھتاوا اور اکیلاپن اس کے اعصاب
پر حاوی ہوتا جارہا تھا۔وہ قبر پر بیٹھ کر قطبے کو یک ٹک دیکھتا اور نہ جانے کتنی
دفعہ اس کو پڑھتا اور ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ اپنے ماضی میں چلا جاتا جس سے اس کا
پیچھا چھڑانا محال ہوگیا تھا۔
پیارے بابا جان
فرقان احمد (مرحوم)
یوم وفات: ١۵ اگست ٢۰١۶
---------------
فرقان احمد،عثمان کے والد تھے۔جو
ملازمت کے سلسلے میں دوسرے شہر میں مقیم تھے۔عثمان ان کا اکلوتا اور لاڈلہ بیٹا
تھا۔جس پر وہ جان چھڑکتے اور اس کی ہر فرمائش زبان پر آنے سے پہلے پوری کردیتے۔اگست
کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہر سال کی طرح اس سال بھی عثمان نے اپنے بابا سے دوستوں کے
ساتھ مل کر گلی سجانے کی فرمائش کی جس کے لیے فرقان نے پیسے بھیج دیئے۔یومِ آزادی یعنی
١۴
اگست رفتہ رفتہ قریب آرہی تھی اور یومِ آزادی کی تیاریاں پورے جوش و خروش کے ساتھ
جاری تھیں۔عثمان اور اس کے دوست ہر سال یومِ آزادی پر اپنے محلے میں جھنڈیاں لگاتے
اور برقی قمقموں سے چراغاں کرتے اور عین ١٢ بجتے ہی تیز آواز میں قومی ترانہ چلایا
جاتا۔پورے محلے کے بچے اس چھوٹی سی محلے کی تقریب میں جمع ہوتے اور آخر میں عثمان
اور اس کے دوست سب کو مٹھائیاں تقسیم کرتے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے
سارے بچے اپنے ملک و قوم سے عقیدت و محبت کا اظہار کرتے۔
فرقان اکثر ١٣ اگست کو گھر آجایا کرتے تاکہ ١۴ اگست عثمان کے ساتھ منائیں۔اس
سال بھی ١٣اگست ٢۰١۶ کو فرقان نے اچانک گھر
پہنچ کر سب کو حیران کردیا۔عثمان کی خوشی دیدنی تھی۔مگر اس دفعہ عثمان نے کچھ اور
ہی منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔اس نے اپنے بابا سے آزادی جلوس دیکھنے کی فرمائش ظاہر
کی۔جس پر عثمان نے فوراََ حامی بھرلی۔رات تقریباً محلے کی تقریب سے فارغ ہوتے ہی
عثمان اپنے بابا کے ساتھ نکل گیا۔وہ بہت خوش تھا اس کا پورا وجود خوشی اور متانت
سے سرشار تھا۔تھوڑی ہی دیر میں وہ مین شاہراہ پر پہنچ گیا جہاں جشنِ آزادی کی
بھرپور تیاریاں کی گئی تھیں، گھمسان کارن تھا،ہر سو چراغاں کیا گیا، سبز ہلالی
پرچموں کی بہار تھی،تاحدِنظر رنگ و نور کی بارش اور قومی ترانے اور ملی نغموں کی
گونج سے ماحول مزید دلکش معلوم ہوتا تھا خوشیاں اپنے جوبن پر تھیں ہر شخص اپنے طریقے
سے آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھا کہ اسی اثناء میں چند منچلے نوجوان فائرنگ
کرتے ریلی کی صورت وہاں سے گزرے۔جن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان کی اس
فائرنگ سے کتنے گھروں کے چراغ گل ہو جائیں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے دو چار لوگوں کی
لاشیں وہاں گریں اور لمحوں میں خوشیوں کا سماں قیامت کے منظر میں تبدیل ہوگیا۔
--------------
عثمان ماؤف دماغ کے ساتھ مکمل سکتے کے
عالم میں تھا۔وہ ابھی تک اس بات کو قبول نہیں کر پا رہا تھا کہ اُن نا معلوم افراد
کی گولی کا نشانہ بننے والے خود اس کے بابا بھی تھے۔ساری رات ہسپتال میں پریشان
اور بےبسی کے عالم میں گزرنے کے بعد جیسے جیسے عثمان کے خطا اوسان بحال ہونا شروع
ہوئے تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔کیونکہ اس کے بابا پورا دن زندگی اور موت کی
کشمکش میں گزار کر دارِفانی سے کوچ کر گئے۔یہ صدمہ عثمان اور اس کی ماں پر قہر بن
کر ٹوٹا تھا اور اسی طرح ناجانے ہر سال کتنے لوگ اِن نامعلوم منچلوں کی غفلت کی بھینٹ
چڑھ جاتے ہیں جو اپنی چند لمحوں کی خوشی کی خاطر غیر قانونی اسلحے،گولی پٹاخے جیسی
اشیاء کے استعمال سے کسی کی زندگی ختم کر دیتے ہیں۔
کل ١۴ اگست جو عثمان کی خوشیوں اور مسرتوں کا
تہوار تھا۔شاید یہ اس کی زندگی کا آخری جشن تھا جیسے اس نے دل سے منایا تھا اور آج
١۵
اگست اس کے والد کا یومِ وفات جو اس کے دل میں ساری زندگی کے لیے نقش ہو گیا۔یہ اس
کی زندگی میں آیا ایک ایسا طوفان تھا جو اس کی زندگی بھر کی خوشیوں،آرام و آسائش
کو اپنے ساتھ بہا لے گیا۔اس کے بعد آنے والے تمام سالوں میں ١۴ اگست بھی آئی اور جشنِ
آزادی بھی بہت جوش و خروش سے منائی گئی۔اگر کہیں فرق پڑا تو وہ عثمان کا دل تھا جو
ساری زندگی کے لیے ویران ہوگیا اور آج ۵ سال گزر جانے کے باوجود
زخم اتنا گہرا اور تازہ ہے۔جتنا اس قیامت خیز منظر کے وقت تھا۔آج بھی قبر پر عثمان
آنسوں بہا کر خود کو قصور وار تصور کرتا ہے کہ کاش اس دن اس نے جلوس دیکھنے کی
فرمائش نہ کی ہوتی تو آج اس کے والد اس کے درمیان ہوتے۔خدارا! تہوار کو اس طرح
منائیں کہ کسی کو زحمت نہ اٹھانی پڑے۔
حبیبہ شمشیر (
دودھوچک)
وٹامنز انسانی صحت کے لیے بہترین
سمجھے جاتے ہیں۔پھر چاہیے وٹامن اے ہو یا پھر وٹامن بی یو پھر کوئی اور وٹامن ہو
۔ہو ایک وٹامن اپنے اندر راز رکھتا ہے۔اج میں آپ کو بتاؤ گی کہ کون سا وٹامن کس
طرح فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
اگر آپ بھی کمزور بینائی کا شکار ہیں۔تو
وٹامن اے آپ کی بینائی کو بہتر کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔جبکہ بالوں کی
نشوونما اور صحت مند بنانے میں بھی وٹامن اے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔جلد کے لیے بھی
وٹامن اے بہت اہم ہے۔
وٹامن ڈی کا استعمال ہڈیوں کو مضبوط
بنانے میں اور انہیں صحت مند بنانے میں مدد کرتا ہے۔جبکہ ایستھما اور ڈپریشن کے
خلاف بھی کار آمد ہیں۔اس کے علاوہ قوت مدافعت بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا
کرتا ہے۔
وٹامن سی جلد کو بہتر بنانے اور وقت
سے پہلے پڑنے والی جھریوں کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔جلد کی خلیوں اور
خون کی شریانوں کی حفاظت میں بھی وٹامن سی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔وٹامن سی دانتوں
اور ہڈیوں کو مضبوط اور صحت مند رکھنے میں مدد گار ہے۔نزلہ زکام کو ختم کرنے میں
بھی وٹامن سی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
از قلم: زینب امجد
عوان
شہر
سیالکوٹ (گاؤں بھگوال عوان)
پنچھی اڑ کیوں جاتے ہیں
اپنے
آشیانے ویراں کیوں کر جاتے ہیں۔۔۔
اونچی
اڑانیں کیوں بھر لیتے ہیں
لوٹ
کر اپنے دیس کیوں نہیں آتے ہیں
بلند
صدائیں فراموش کیوں کر جاتے ہیں
پنجرے
خالی کیوں کر جاتے ہیں
اپنے
صیاد کو دکھی کیوں کر جاتے ہیں
اپنے
ساتھیوں کو تن تنہا چھوڑ کیوں جاتے ہیں۔۔۔۔
پنچھی
اڑ کیوں جاتے ہیں
اپنے
آشیانے ویراں کیوں کر جاتے ہیں۔۔۔۔
۔
دو چائے کے چمچ بادام کے پاؤڈر کو ایک کپ گلاب کے عرق میں شامل کرلیں ۔
۔
پھر اس کا مکسچر بنالیں ۔
۔
اب اس کو ایک محفوظ بوتل میں محفوظ کرلیں ۔
۔
اسے دن میں دوسے تین مرتبہ جلد پر لگائیں ۔
سردیوں
میں اکثر جلد خشک ہو جاتی ہے جلد کو نرم کرنے کے لے تھوری سی بالائ لینی ہے اور دس
منٹ فرج میں ٹھنڈی کرنی ہے اور رات کو اپنے چہرے پر لگانی ہے اور صبح کسی بھی صابن
سے چہرے کو دھو لیں چہرہ نرم بھی ہو جاۓ
گا اور خشکی بھی ختم ہو جاۓ
گی
😢نظم😢
'' شاید اسی کرب میں بیتے ایک لمحے کا انتظار تھا'' 🤷♀️
بس
اک لمحے کا انتظار ہے
دل
برسوں سے بے قرار ہے
سوچا
تھا آئے گا وہ ایک لمحہ جب میرے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو جائینگی
یہ
پیاسی آنکھیں جس کی راہ میں آج تک پلکے بچھائے بیٹھی ہیں
ان
پیاسی آنکھوں میں وہ قرب میں بیتے سارے لمحے سمیٹ رکھے ہیں
صرف
اس ایک لمحے کے انتظار میں جس لمحے یہ ساری پیاس یہ ساری تھکن مٹ جائے گی
یہ
بڑھتی ہوئی دوریاں یہ فاصلے سمٹ جائیں گے
اس
ایک لمحے میں جس لمحے ایک تھکا ہارا مسافر اپنی منزل کی ایک جھلک دیکھ پائے گا
یہ
عمر بیتی جارہی ہے اس ایک لمحے کے انتظار میں
جس
لمحے دبے پاؤں چپکے سے کوئی آئے گا ہاتھ تھام کے سرگوشی میں کہے گا
کہ
آؤ!🏡🏡
ہم
مل کے اک نئی دنیا بسائ ایک نیا گھر بنائیں اپنے آنگن کو اپنے پیار کی خوشبو سے
مہکائیں
کہ
آؤ!
اب
یہ سفر ختم کریں اس کانٹے بھرے رستے سے منہ موڑ کے کسی باغ بہار کا رخ کریں
کہ
آؤ!
اپنی
انگلی کے پوروں سے آنسو پونچھ کے اپنے ہونٹوں پہ مسکراہٹ بکھیرے
لیکن
یہ کیا ہوا
وہ
لمحہ آیا بھی اور پلک جھپکتے گزر بھی گیا
یوں
جیسے خزاں میں کسی سوکھے درخت کا پتہ گرا ہو
اور
ہوا کی ہلکی سے ارتعاش کے ساتھ چپکے سے خاموشی سے صحرا میں کہیں گم ہو گیا ہو
وہ
لمحہ بھی بس یوں ہی کرب میں بیت گیا اور میں کتنی نادان بے خبر رہی
میں
اس لمحے کا انتظار کرتی رہی
میں
اس پتے کو صحرا میں ڈھونڈتی رہی
یہاں
تک کہ
من
کی چاہت میں گم ہو گئی
''
شاید اسی قرب میں بیتے اک لمحے کا انتظار تھا''
دل
برسوں سے کسی کی چاہت کا طلبگار تھا-
از
قلم: سیمی طور
تربیت
عائشہ
کنول ،سیالکوٹ (مراکیوال)
آخر
آج وہ دن آگیا تھا جس کا وہ پورے ہفتے سے انتظار کر رہی تھی۔ وہ مقررہ وقت پر ہال
میں پہنچ چکی تھی جہاں ہر کوئی سر ابراہیم کے لیکچر شروع ہونے کا انتظار کر رہا
تھا ۔ جوں ہی گھڑی نے ساڑھے گیارہ بجائے سر ابراہیم ہال میں تشریف لے آئے ۔
السلام
علیکم...!
امید
ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ آپ سب کا بہت شکریہ کہ آج آپ سب یہاں تشریف لائے ہیں
۔(سر ابراہیم سامعین سے مخاطب تھے).
آج
ہم جس موضوع پر بات کرنے جا رہے ہیں وہ ہے تربیت، اس سے پہلے کہ میں آپ کو اس کے
متعلق بتاؤں ،میں چاہوں گا کہ آپ سب پہلے مجھے اس کے متعلق بتائیں کہ آپ کیا
سمجھتے ہیں تربیت کیا ہے..؟
(ایک
ہاتھ بلند ہوا) سر میرا خیال ہے کہ تربیت سے مراد زندگی گزارنے کے اصول ہیں ۔
(ایک
اور آواز آئی) سر مجھے لگتا ہے کہ تربیت سے مراد صحیح و غلط کی پہچان ہے ۔
(ایک
تیسری آواز آئی) سر مجھے لگتا ہے تربیت سے مراد رہنے سہنے کے طور طریقے ہیں ۔( سر
ابراہیم سب کے جواب سب کر خوش ہو رہے تھے)۔جی آپ سب نے بالکل ٹھیک کہا، تربیت اسی
کو کہا جاتا ہے جس میں انسان سیکھتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کیسے گزارنی ہے ۔ کس
طرح سے دنیا میں رہنا ہے۔ اس کے معاملات کیا ہونے چاہیے یہ سب تربیت اسے بتاتی ہے۔
آپ
کو معلوم ہے سب سے پہلے انسان کی تربیت کس نے کی..؟
(ایک
ہاتھ بلند ہوا) سر سب سے پہلے تربیت ماں کرتی ہے ۔
(سر
ابراہیم نے جواب دیا) جی ماں کرتی ہے تربیت مگر آپ کو معلوم ہے انسان کی سب سے
پہلے تربیت خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مرّبی کا لفظ
استعمال کیا ہے جس کے معنی تربیت کرنے والے کے آتے ہیں ۔
اللہ
تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی تربیت اس کو تمام علم سیکھا کر کی، اس کو زندگی
گزارنے کے تمام طریقہ کار سکھائے اور پھر آدم علیہ السلام کو اس بات کا حکم دے دیا
کہ وہ زندگی گزارنے کی تعلیم کو اپنی نسلوں میں پھلائے ۔
اسی
طرح نسل در نسل یہ سلسلہ چلتا رہا ہے ۔ جہاں کہیں انسانوں کی زندگی میں بگاڑ آنا شروع ہوا اللہ تعالیٰ نے انہی میں
سے ایک اور نبی کو معبوث کیا جو ان کو ان کی زندگی کے مقصد کی طرف واپس لے کر آئے
۔
(ایک
ہاتھ بلند ہوا) تو سر کیا تربیت کا کام صرف نبیوں اور رسولوں تک ہی ہے..؟
(سر
ابراہیم نے جواب دیا) نہیں بالکل بھی نہیں.. جتنے بھی نبی آئے ان کا کام اللہ کا پیغام
لوگوں تک پہنچانا ہوتا تھا اس کو سننے کے بعد ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کی تربیت کرے
ان کو اللہ کے احکام بتائے، کہ اللہ نے کس طرح زندگی گزارنے کا حکم دیا ہے ۔
آپ
کو معلوم ہے اسلام نے عورت کو اتنا بلند مقام کیوں دیا ہے..؟
اس
لیے کہ اس کے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ۔ ماں کو بچے کی پہلی درس گاہ کہا
گیا ہے ۔ بچے کی تربیت کا پہلا مرحلہ ماں کی گود سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور جیسے جیسے
وہ اپنی عمر کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے
اس کے کردار سے اس کی تربیت جھلکتی ہے ۔اگر بچے کی تربیت اسلام کے بتائے
ہوئے طریقوں سے کی جائے گی تو یہی بچے بڑے ہو کر شیخ عبدالقادر جیلانی جیسی مثالیں
قائم کریں گے ۔تربیت ہماری نسلوں کو سنوار بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے ۔
میری
پیاری بیٹیو آج اس لیکچر کا بنیادی مقصد ہماری بیٹیوں کو اس بات کی آگاہی دینا ہی
ہے کہ وہ اپنی نسلوں کی تربیت کیسے کریں ۔
آپ
سب ہماری قوم کی معمار ہیں۔ آپ کی آج کی گئی تربیت سے ہماری آنے والی نسلوں کا اور
ہماری قوم کا مستقبل سنور سکتا ہے ۔اور ہمیں صرف اپنے بچوں کی ہی تربیت نہیں کرنی
ہے بلکہ اپنی بھی اصلاح کرنی ہے ساتھ ساتھ
اور دیکھنا ہےکہ کہیں ہمارے اندر کوئی ایسی بات تو نہیں پائی جاتی جو اللہ
اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف ہو...،؟
آج
ہم لوگ اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے دوری اختیار کر چکے ہیں۔ ہماری تربیت میں مغربی رنگ نظر آتا ہے جس کی
وجہ سے آج ہم اپنی اور اپنی نسلوں کی زندگیوں کو خوار کر رہے ہیں ۔
ہمیں
اس کو بدلنا ہو گا اور اسلامی طور طریقے رائج کرنے ہوں گے ۔ آداب واخلاق کی جو
مثال اسلام پیش کرتا ہے وہ دنیا کا کوئی
مذہب نہیں پیش کرتا ۔ اس لیے آج سے آپ سب میرے ساتھ یہ عہد کریں کہ ہم اپنی اور
اپنی نسلوں کی تربیت اسلام کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق کریں گے اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ حاصل کرنے
کی کوشش کریں گے.. ان شاء اللہ ( سارا ہال ان شاء اللہ کی آوازوں سے گھونجتا ہے
اور اسی کے ساتھ لیکچر مکمل ہو جاتا ہے)
بقول
عائشہ کنول
نسلیں
یہ سنور جائیں گر ہو ہمیں ملال
بنیاد
ہو تربیت کی جو اسلام کے سوال
"یقین"
کلثوم
پارس (کراچی)
ایک
کار کے حادثے میں اس کا سارا خاندان موت
کے منہ میں چلا گیا ۔اپنے خاندان کو اپنے ہاتھوں سے اس نے سپردِ خاک کیا تھا۔ وہ
خاندان جس کی ہر خواہش پوری کرنے کے لئے حلال حرام کی تمیز کیے بغیر دن رات دونوں
ہا تھوں سے دولت سمیٹنے میں لگا ہوا تھا ۔اپنے خاندان کو قبر میں اتار کر اسے ہر چیز
کے فانی ہونے کا یقین ہو گیا تھا۔وہ جان گیا تھا کہ ہر چیز کو اپنی اصل کی طرف
لوٹنا ہے ، جو آنکھ کھلی ہے اس نے ایک دن بند ہونا ہے ۔ کیونکہ آج اس نے اس بے
ثباتی کو یقین کی آنکھ سے دیکھ لیا تھا انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک
وہ یقین کی آنکھ سے نہ دیکھے وہ یقین ہی نہیں کرتا۔
"اور تم ضرور بہ
ضرور دیکھو گے یقین کی آنکھ سے۔"
(سورہ التکاثر)
*دل کا ٹوٹنا
اقرا
شہزادی ( پاکپتن شریف)
میں
جان چکی ہوں میرا دل جب بھی کسی انسان کی
محبت میں گرفتار ہوتا ہے تو ٹوٹ کیوں جاتا ہے ۔ میرا سوہنا رب نہیں چاہتا کے کسی
بے قدرے کی محبت میرے دل میں رہے ۔میرا اللّه چاہتا ہے بس میں اللّه کی بن کے
رہوں۔اپنی ہر چھوٹی سے چھوٹی بات اللّه
سے کروں، ہنسوں تو بھی بس اللّه کو پتہ ہو روں تو بھی بس اللّه کو پتہ ہو۔ میرا
اللّه مجھے خاص کرنا چاہتا ہے ،اپنی رحمت
سے میرے اللّه میں لوٹ آئ ہوں تیری طرف اب میرے دل سے اس دنیا کی محبت کو نکال دیں
مجھے اپنے خاص بندوں میں شامل کر لے میرے اللّه
۔
نظم
: خاموشی اچھی تو ہے لیکن
جویریہ
ارشد وِش
سنو
متاعِ
جاں
ایک
چپ سو سکھ
اک
مشہور محاورہ ہے
خاموشی
اچھی ہوتی ہے
وہ
تو ٹھیک ہے لیکن
میں
نے چپ سادھ تو لی لیکن
مجھے
ڈر ہے
خاموشیوں
کا طوفان نہ بن جائے
کہیں
میرے اندر لاوا پکتا نہ رہ جائے
خاموشی
اچھی ہے
لیکن
مجھے ڈر ہے
کہیں
یہ لاوا نہ بن جائے
کہیں
سارے الفاظ آگ کی صورت نہ اگل دوں
مجھے
ڈر ہے
کہیں
تم اس آگ سے جھلس نہ جاؤ
اسلئے
خاموشی اچھی تو ہے
لیکن
مجھے
ڈر ہے
کہیں میں خود خاموشیوں
کی بھینٹ نہ چڑھ جاؤں
کہیں
خاموشیوں کے ہاتھوں ہی کوئی بے موت مارا نہ جائے
کہیں
یہ لاوا نہ بن جائے
کہیں
جان لیوا نہ بن جائے۔
خاموشی
اچھی ہے
ہاں
لیکن مجھے ڈر ہے
"میری ماں"
(
نظم )
مہرالنساء انور چندر
مدھریا
والا کالر
ضلع
گوجرانوالہ
جو
تو کہہ دے میری ماں
وہی
حرف آخر ہو میرا
جو
تو سلامت رہے گی سدا ماں
تو
گھر جنت رہے گا میرا
تیری
لوری ہو گود بھی تیری ماں
روح
تیری ہو سایہ میرا
جو
میں پرواز کروں آسمانوں میں ماں
دعائیں
تیری ہوں یقین میرا
تجھ
سے بچھڑنے کا کبھی سوچوں تو لرز جاؤ ماں
تیرا
ساتھ ہو صحیح زندگی کا راستہ میرا
عنوان:درخت
کے فوائد
نوف
غلام نبی (حیدرآباد)
فواد
کی دو جڑواں بیٹیاں تھیں۔ایک کا نام نفیسہ اور دوسری کا نام رومیسہ تھا۔نفیسہ رومیسہ
سے تھوڑی سمجھدار تھی۔اور صابر بھی تھی۔نفیسہ اور رومیسہ کو درختوں سے بہت پیار
تھا۔ انکی خواہش تھی کے ان کے گھر کے آس پاس درخت ہوں ۔جسے کچن گارڈننگ بھی کہتے
ہے۔ نفیسہ نے سوچا کہ آج اپنے ابا جان سے بات کرے گی کہ ان کے گھر کے آس پاس درخت
لگائیں۔ نفیسہ اور رومیسہ اپنے ابا جان کے دفتر سے آنے کا انتظار کر رہے تھیں۔فواد
نے گھر آتے ہی اپنے دونوں بیٹیوں کو گلے لگایا۔بہت ساری باتے کرنے کے بعد نفیسہ
ابا جان جان سے کہتی ہے
"ابا جان! میں اور رومیسہ چاہتے ہیں کہ ہمارے گھر کے آس پاس
درخت اگائے جائیں،جس سے تازہ پھل اور پھول اگے گیں اور تازہ پھل ہم شوق سے کھائیں
گیں۔یہ میری اور رومیسہ کی ایک خواہش ہے۔"نفیسہ فواد کو معصومیت سے کہتی ہے۔
"بیٹا! درخت
اگانا آسان کام نہیں ہے, اس کے لیے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے اور میں دفتر میں
مصروف ہوتا ہوں، درختوں کا دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے ان کو ٹائم سے پانی دینا ہوتا
ہے اور بڑے ہونے میں بھی بہت ٹائم لگتا ہے، کب وہ بڑے ہوں گے، کب وہ پھل دینگے اور
کب ہم انہے کھائیں گے؟" فواد نفیسہ کو پیار سے جواب دیتا ہے۔
"ابا جان! درختوں سے ہمیں صرف پھل پھول نہیں ملتے درختوں کے بہت
سارے فوائد ہے، جن سے بہت لوگ انجان ہے۔"نفیسہ فواد سے کہتی ہے۔
نفیسہ
کی بات سن کر رومیسہ بھی کہنے لگی "ابا جان! نفیسہ بالکل سہی کہ رہی ہے, درخت
ہمیں آکسیجن پیدا کرکے دیتے ہیں جس سے ہم سانس لے پاتے ہیں اگر درخت نہ ہو تو
ہمارے لئے سانس لینا بھی مشکل ہوتا, درخت قدرت کا وہ عطاکردہ انمول تحفہ ہے جو
ہمارا وجود ہے۔"
اتنے
میں نفیسہ جواب دیتی "ابا جان! درخت کا ایک ایک پتہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں
رہتا ہے، یہ ہم انسانوں کے لیے بہت بڑی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے٬ اس سے
ہمارے گھروں میں بھی برکت ہوتی ہے۔ایک درخت اگانے سے بہت فائدے سمیٹے جا سکتے ہیں۔
مزے کی بات تو یہ ہے کے درخت صرف ہم انسانوں کے لئے فائدے مند نہیں بلکے جانوروں
اور زمین کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے۔ یہ ماحول کی حفاظت کے خاموش سپاہی ہیں۔انہیں
کاربن ڈائی آکسائڈ گیس جذب کر کے تازہ آکسیجن پیدا کرنے کا کارخانہ سمجھ لیجئے۔"یہ
بول کر نفیسہ خاموش ہوگئی تھی۔
"نفیسہ! آگے بتاؤ تاکہ مجھے بھی نالج ہو۔" رومیسہ نے نفیسہ
سے کہا۔
"درخت ہونے سے
ہمارے دل اور ذہنی سکون برقرار رہتا ہے اور درخت ہونے سے ہمیں مثبت سوچ بھی ملتی
ہے۔یہ ہمارے سوچ کو بھی پاک صاف رکھتے ہیںجس مقام اور جگہ پر زیادہ درخت موجود
ہوتے ہے وہاں کے لوگ زیادہ صحت مند رہتے ہیں ذہنی اور جسمانی صحت بہتر ہونے کے لیے
درخت کا ہونا لازمی ہے۔"نفیسہ رومیسہ کو بتاتی ہے۔
رومیسہ
کرسی اور ٹیبل کو دیکھ کر بولتی ہے "ارے باجی! یہ بھی تو ہے کے درختوں سے جو
لکڑی حاصل ہوتی ہے اور لکڑیوں سے ہم اپنے ضروری سامان بنا کے استعمال کرتے ہے۔جیسے
کے یہ کرسی ٹیبل ہی دیکھ لو ہمارے گھر کی الماری دیکھیں وہ بھی لکڑیوں سے ہی بنی
ہوئی ہے۔اور ہمارے بہت سی ضروریات لکڑیوں سے پوری ہوتی ہیں۔"
"جی بالکل! اور درختوں کے فائدے انسان ہزاروں سال پہلے سے
اٹھاتا آ رہا ہے۔درختوں سے دوائیاں بنانا انسانوں نے بہت پہلے سیکھ لیا تھا۔ درخت
ہمارے دوست ہے۔جب آندھی آتی ہے اپنے ساتھ جو گرد و غبار لے آتی ہے وہ درخت ہونے کی
وجہ سے انکے پتوں پہ وہ گرد و غبار جم جاتی
ہے اور ہوا صاف ہوجاتی ہے۔یہ ایک طرح کے اسے قدرت کا پھیپڑی بھی کہتے ہیں کیوں کے یہ
ہوا کو صاف کرنے کا کام کرتی ہے۔"نفیسہ سمجھداری سے رومیسہ کو کہتی ہے۔
"باجی! میں نے ایک
کتاب میں پڑھا تھا کہ یہ اپنی جڑوں میں جذب شدہ پانی کو ہوا میں خارج کرتے ہے اور
بادل بنانے میں مدد کرتے ہیں۔درخت کی جڑیں زمین کی مٹی کو روک کر اضافی پانی کو
جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد دیتی ہیں جس کے وجہ سے پانی
جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔اور دیکھا جائے تو جہاں درخت زیادہ ہوتے
ہیں وہاں طوفان اور سیلاب کا خطرہ نہیں ہوتا ہے۔"
"ماشاءاللہ! رومیسہ اتنی سمجھدار ہوگئی ہے اور اتنی سمجھداروں
والی باتے کر رہی ہے میرا دل خوش ہوگیا!۔یہ
بول کر فواد نے اپنی دونوں بیٹیوں کو گلے لگایا۔ اور گھر کے پاس درخت لگانے کے لیے
بھی رضامند ہوا۔
"بیٹا! درخت کے اتنے سارے فائدے ہیں ہمیں صرف اپنے گھر کے آس
پاس نہیں بلکہ سب کو چاہئیے کہ ہر جگہ پہ درخت اگائے جائیں۔ اور ہمارے پورے
پاکستان کو سرسبز پاکستان بنایا جائے۔جس سے ہمیں مثبت سوچ مل سکے اور پورا پاکستان
ایک صحت مند زندگی گزار سکے۔"