ڈھلتا ہوا سورج



افسانہ

 زاہد سندھو

شام کا وقت تھا۔ سورج ڈھل رہا ہے تھا۔اہستہ آہستہ اپنی کرنوں کو سمیٹ رہا تھا۔کہ ایک سرسبز باغ میں جہاں پرندوں کی چہک تھی۔ سبزازار فرش کی طرح پھیلا ہوا تھا۔سیمنٹ سے بنے بینچ پر ایک لڑکا  جس نے سفید شلوار قمیض پہنا ہوا تھا'ہاتھ میں کتاب لئے کوئی اہم سا موضوع پڑھا تھا۔ احمد کا کل آخری پیپر تھا وہ پارک میں پڑھنے کے لیے آیا تھا۔ اس نے نوٹس پڑھنے ہی شروع کئے تھے  کہ اتنے میں اس کی دوست کا ایس ایم ایس آیا۔ اس نے نوٹس کو بند کیا اور میسج کی طرف متوجہ ہوا؟ سکرین پر چمکتا ہوا نمبر دیکھ کر احمد مسکرا دیا۔ ہیلو احمد جی اسلام و علیکم؟

وعیلکم اسلام جی ثناء احمد نے میسج کا جواب دیا۔ کیسے ہیں آپ ؟کیا کر رہے ہیں؟کدھر ہیں آپ؟ایک ہی سانس میں ثناء نے اکٹھے سوالات کئے۔

میں ٹھیک ہوں ثناء کچھ خاص نہیں پیپر کی تیاری کر رہا ہوں۔ احمد نے جواب دیا۔  کل میرا آخری پیپر ہےثنا۔  اور سنائیں آپ کیسی ہیں؟ اس نے ثناء سے پوچھا۔ بس ٹھیک ہوں۔

 ،آپ کے پیپر کیسے ہورہے ہیں احمد؟

 بس ٹھیک ہو رہے ہیں اس بار کرو نا کی وجہ سے اچھی تیاری نہیں ہو پائی ۔

ثناء اچھا  میں نے آپ سے ایک بہت ہی ضروری بات کرنی ہے احمد میں بہت پریشان ہوں۔

احمد نے جیسے ہی یہ میسیج پڑھاماتھے پر شکن ابھرا اور پر فکر انداز میں میسج کیا کہ جی جی کریں بات کیا پریشانی ہے؟

 احمد میرے والدین نے میرا رشتہ پکا کر دیا ہے۔ میں لاکھ کوشش کے باوجود بھی کچھ نہیں کرپائی۔ ثناء پلیز ایک بار پھر کوشش کریں۔نہیں احمد اب کچھ نہیں ہوسکتاہے۔ احمد نے دکھ سے موبائل بند کر دیا۔ سورج ڈھل رہا تھا۔ احمد کا دماغ دل بےچین تھا کہ پچھلے گزرے وقتوں میں چلا گیا۔ 

ہائے احمد ایک لڑکی نے بلیک پینٹ شرٹ پہنے کمر پر بیگ رکھ کر جاتے ہوئے لڑکے کو کہا تو اس نے چونک کر ہلکا سا پچھےمڑ کر دیکھا کہ مجھے کس نے مخاطب کیا ہے۔ 

جیسے ہی فیروزی رنگ کی شرٹ بلیو جینز کے ساتھ اور پیروں میں سفید سنیکر اور ہاتھ میں دو کتابیں پکڑے کھڑی لڑکی احمد کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ جی کہئے احمد نے جواب دیا۔

ہائے آئی ایم ثناء کہتے ہوئے ہاتھ احمد کی طرف بڑھا دیا احمد تھوڑا سا کنفیوذ ہوا اور اپنی کنفیوژن چھپاتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا میرا نام تو آپ جانتی ہیں احمد نے سنجیدہ سی مسکراہٹ بکھیر کر کہا۔ او جی جی میں جانتی ہوں۔

جی تو کہئے ثناء جی میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟

احمد نے پوچھا

جی بہت بہت شکریہ اگر آپ مجھے کیمیسٹری کے نوٹ دےدیں تو۔   ٹھیک ہے کل میں آپ کو دےدوں گا۔ ثناء نے شکریہ ادا کیا اور احمد گیٹ کی طرف چل دیا۔ ثناء پچھے سے احمد کو دیکھ کر مسکرا رہیں تھی  اور احمد بےفکر ہوکر جا رہا تھا۔یہ انکی پہلی ملاقات تھی۔ ثناء بہت خوش تھی۔ دوسری صبح وہ خوب تیار ہوئی اور یونیورسٹی کی طرف چل دی احمد کا شدت سے انتظارِ کرنے لگی۔ آج تو بہت تیار ہوکر آئی ہو ثناء اسکی دوستوں نے کہا تو ثناء مسکرا دی اتنے میں گیٹ سے احمد انٹر ہوا  تو ثناء بہت خوش ہوئی۔ کچھ توقف  کرنے کے بعد وہ احمد کی طرف گئ  رسمی سلام دعا کیا۔ اور نوٹس کا پوچھا۔ احمد نے اس کی تیاری یا اس کے حسن کی طرف کوئی غور نہیں کیا نوٹس پکڑا کرکلاس کی طرف بڑھ گیا۔اسی طرح دن گزرتے رہے۔ ثناء کبھی احمد سے فری ہونے کی کوشش کرتی تو کبھی چھپ چھپ کر دیکھتی ۔احمد واضح محسوس کر چکا تھا ثناء کی آنکھوں میں اپنے لئے محبت لیکن اگنور کر دیتا تھا کیونکہ وہ بہت سے قصے پہلے سے ہی اس محبت کے سن چکا تھا۔  آج ثناء نے تہیہ کر لیا تھا وہ اپنی محبت کا اظہار ضرور کرے گی۔

کلاس سے فری ہو کر وہ احمد کے فری ہونے انتظار کررہی تھی۔ احمد کلاس سے باہر نکلا تو فوری پہنچ گئ احمد جی مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے' تو کیا ہم چائے پینے جاسکتے ہیں۔احمد نے ہاں کہ دی اور ٹناء کےلئے یہ پہلا کامیابی کا قدم تھا۔ دونوں کینٹین میں جا کر بیٹھ گے۔ثناء چہرہ جھکائے کبھی بالوں کو سمیٹتی تو کبھی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنی انگلیاں مروڑتی عجیب سے اضطراب میں تھی۔ کیا بات کرنی تھی آپ نے ثناء جی احمد نے پوچھا۔

ہمت کرکے ثناء نے احمد کو پروپوز کردیا۔ اور اب ثناء کی دل کی دھڑکن تیز تھی کہ پتہ نہیں ٹھکرا دے گا یا قبول کرلے گا۔  اور ثناء سر جھکائے بیٹھی تھی۔ احمد نے کپ میز پر رکھا اور خاموشی سے باہر کی طرف چل دیا۔ ثناء میں اتنی ہمت نا ہوسکی کہ وہ احمد کو آواز دیتی۔ ثناء کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ ٹوٹے دل کے ساتھ وہ بل پے کرکے باہر کی جانب آئی۔ تو دور احمد اپنے دوستوں کے ساتھ کھڑا مسکرا رہا تھا اسے لگا کہ وہ مجھ پر ہنس رہا ہے۔  احمد کی طرف سے کوئی خاص جواب نہیں آیا صرف رسمی حد تک سلام دعا کے علاؤہ وہ احمد کا بہت خیال رکھتی اپنی طرف سے احمد مجبور ہوگیا۔ اور ایکسیپٹ کرلیا۔ وہ دونوں بےحد خوش تھے۔روز ملنا جلنا ساتھ چائے پینا گھومنا پھرنا ان کا معمول بن چکا تھا وہ ایک دوسرے کے بہت عادی ہوچکے تھے۔  موبائل پر بھی گھنٹوں کالیں چلتی تھیں۔ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے۔پیپر شروع ہونے والے تھے خوب دل لگا کر پڑھ رہے تھے۔ لیکن احمد محسوس کر رہا تھا کہ کچھ دنوں سے ثناء بہت بہت دور دور ہے۔ پہلے والی گرمجوشی نہیں دکھائی دےرہی وہ لاکھ پوچھتا لیکن ثناء مصروفیت کا بہانہ بنا دیتی احمد بہت پریشان تھا اس کے اس رویے کی وجہ سے۔اج بھی بوجھل قدموں کے ساتھ نوٹس اٹھا کر وہ پارک میں آگیا تھا۔کہ ثناء نے بری خبر سنادی تھی

احمد نے جب یہ بات سنی تو ایسا لگا جیسے اس کی زندگی کا بھی سورج ڈھل رہا ہو ،آپ نے تو میرے ساتھ وعدے کئے تھے میرے ساتھ، ثنا جی لیکن میں مجبور ہوں  ثناء نے کہا۔ احمد ایسے محسوس کر رہا تھا جیسےاس کا سب کچھ ختم ہو رہا ،ثنا مجھے معاف کر کردینا،سورج ڈھل گیا اور تھوڑا تھوڑا اندھیرا چھا گیا احمد دل میں درد لئے گھر کی طرف روانہ ہوگی

 


آپ کی رائے

جدید تر اس سے پرانی