نظم: بچپن

Image by pixaby

یاد آتا ہے مجھے وہ حسین زمانہ
 خوشبو سے مہکا ہوا تھا آشیانہ
چھٹیوں میں ہمیشہ گاؤں کو جانا 
فقط یاروں سے ملنے کا تھا اک بہانہ
وہ گپ شپ وہ قہقے وہ مستیاں
 کیا خوب ہوتا تھا وہ بچپن کا افسانہ
وہ سورج کا چمکنا،بادل کا برسنا
وہ مٹی سے گہرا تھا رشتہ پرانہ
نہ تھی ذمہ داری نہ تھا کوئی غم
بس ہوتا تھا کھیلنا اور پڑھنا پڑھانہ  
شام ڈھلتے ہی پنچھیوں کا لوٹ جانا
ہوتا تھا اشارہ کہ اب ہونے کو ہے ویرانہ
وہ چھپ کر بزرگوں کی باتیں سننا
خاموش رہ کر پھر اس پہ سب کو چرانہ 
 بہت پر سکون لگتا تھا وہ موسم سہانہ
آسمان پہ وہ رات کو تاروں کا ٹمٹمانہ
 رک جاتا ہے وقت کہیں ماضی میں ہی
رلا جاتا ہے آج بھی یادوں کا میخانہ
چھوٹ گئے وہ دوست منزل کی راہ میں
جن کے دم سے چہکتا تھا اپنا گھرانہ

سنبل شہزادی
سیالکوٹ

5 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی