ایک طرف امانت کا بوجھ تھااور دوسری طرف بیٹے کی گردن پر تلوار تھی!! فیصلہ کس کے حق میں ہوا۔۔۔ مصلحت یا امانت؟

امانت، خیانت، قلعہ، دیوار، سردار،kind, castle, urdu, honesty


جب ایک امانتدار شخص کو اپنی زندگی کے سب سے بڑےامتحان سے دوچار ہونا پڑا تو پھر کیا وہ اپنی امانتداری میں کھرا اُترپایا یا نہیں۔۔۔۔۔۔

امرؤالقیس قیصرروم سے ملاقات کےلئے گیا تو اس نے اپنی زرہیں امانت کے طور پرسموأل کے پاس رکھیں۔

امرؤالقیس مرگیا تو شام کے بادشاہ حارث بن جبلہ غسانی نے امرؤالقیس کی زرہیں لینے کے لئے سموأل پر چڑھائی کردی۔ سموأل قلعہ نشین ہوگیا اور قلعے کے دروازے مضبوطی سے بند کر لئے۔ بدقسمتی سے سموأل کا ایک بیٹا قلعہ سے باہر رہ گیا، اسے بادشاہ نے گرفتار کر لیا۔

بادشاہ نے سموأل کو آواز دی اور کہا:

اگرچہ تم قلعہ نشین ہو گئے ہو لیکن دیکھو! تمہارا یہ بیٹا میرے قبضے میں ہے۔ تمہیں علم ہے کہ امرؤالقیس میرا چچا زاد تھا اور میں اس کی میراث کا دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں، لہذٰا اگر تم نے اس کی زرہیں میرے حوالے نہ کیں تو میں تمہارے بیٹے کو قتل کر دوں گا۔

سموأل اپنے بیٹے کو اس ظالم کے قبضے میں دیکھ کر سخت پریشان ہوا اور اس سے غور و فکرکے لیےکچھ مہلت مانگی۔ بعد میں اس نےقلعے میں اپنے عزیز و اقارب اور خواتین خانہ سے صلاح مشورہ کیا۔ سب نے یہی مشورہ دیا کہ زرہیں اس کے حوالے کرکے اپنے بیٹے کی جان بچا ؤ۔ جب صبح ہوئی تو سموأل نے قلعہ کی فصیل سے جا کر بادشاہ کو آواز دی اور کہا:

"اے بادشاہ میں تجھے میں تجھے وہ زرہیں کسی قیمت پر نہیں لوٹاؤں گا، جو جی چاہے، کر لے"

بادشاہ نے اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے بیٹے کو قتل کر دیا۔ لیکن سموأل نے اسے زرہیں نہ دیں۔ بادشاہ بے نیل و مرام واپس چلا گیا۔ بادشاہ کے واپس جانے کے بعد سموأل زرہیں لے کر امرؤالقیس کے اہل خانہ کے پاس گیا اورزرہیں اس کے ورثا کے سپرد کر دیں۔ اس کے چند شعر ہیں جس کا جن کا ترجمہ یہ ہے:

"میں نے امراء القیس کندی کی زرہیں اس کے وارثوں کو پہنچا دیں۔ جن حالات میں دوسری قومیں خیانت کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، میں ان دگرگوں حالات میں بھی اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔"


کتاب کا نام: سنہرے نقوش

مصنف: جناب عبدالمالک مجاہد صاحب

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی