لوح محفوظ کا قلم اور ورق کس چیز سے بنائے گئےہیں اور قلم لوح محفوظ میں کیا لکھتا ہے؟؟

لوح محفوظ، سرخ یاقوت، طول و عرض، ازل تا ابد


حافظ ابوالقاسم طبرانی فرماتے ہیں کہ (ازمحمد بن عثمان بن ابی شیبہ، منجانب بن حارث، ابراہیم بن یوسف اورزیاد بن عبداللہ نےلیث، عبدالمالک بن سعید بن جبیر، ان کے والد ابن عباس رضی اللہ) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا ہے،اس کے صفحات سرخ یاقوت کے ہیں، اس کا قلم نوری ہے جس نے اس میں اللہ تعالی کا حکم اس کےنورسے لکھا ہے۔ لوح محفوظ میں ہر دن کے تین سو ساٹھ لحظےہیں۔ جن میں تخلیق، رزق،رسانیٔ موت و حیات اورعروج و زوال کے بارے میں اللہ تعالی کے احکام درج کیے جاتے ہیں اور ان کے علاوہ جو کچھ اللہ تعالیٰ چاہے وہ بھی لکھا جاتا ہے۔"

اسحاق بن بشیر کہتے ہیں انہیں مقاتل اور ابن جریح نے مجاہد اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بتایا کہ

"لوح کے درمیان میں لاالہ الااللہ،وحدہ و دین الاسلام ومحمد عبدہ و رسولہ(ﷺ) لکھا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد و یکتا ہے، محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اور اس کا (قابل قبول) دین اسلام ہے۔"

اس کے بعد ابنِ عباسؓ نے کہا کہ:

" پس جو شخص خدا پر ایمان لایا، اس کے جملہ احکام قبول اور تسلیم کیے اور ان کا اتباع کیا اور اس کے رسولوں کے احکام بھی مانے وہ جنت میں جائے گا۔"

ابن عباس رضی اللہ نے کہا:

یہ سب کچھ لوح محفوظ میں لکھا ہوااس کے علاوہ مذکورہ بالا حضرات کو ابن عباس نے یہ بھی بتایا کہ

"لوح محفوظ ایک لوح ہے جو سفید موتی سے بنی ہے اوراس کا طول زمین و آسمان کے درمیان کےفاصلے کےبرابر ہے اور اس کا عرض مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلے کے برابر ہے۔ اس کی جلد موتیوں اور یاقوت سے بنی ہے، اس کی اوراق بھی موتیوں اور یاقوت سرخ کے ہیں۔ اس کا قلم نوری ہے اور اس میں جو کلام درج ہے، وہ عرش سےمقصود ہے۔ اس کی اصل یعنی جڑدودھیا پتھر کی ہے۔ آخر میں ابن عباسؓ نے کہا کہ لوح محفوظ کے بارے میں یہ سب کچھ انہوں نے ان لوگوں کوآنحضرتﷺ سے سن کر بتایا ہے۔

لوح محفوظ ہے کہاں؟

انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ لوح محفوظ اسرافیل کے سامنے ہے۔ ان کے علاوہ کچھ پہلے لوگوں کے بقول بھی یہ لوح اسی سمت میں ہے۔ لیکن مقاتل کے بیان کے مطابق یہ لوح عرش کےدائیں جانب ہے۔

نوٹ:۔ یہ پورے باب کا ایک حصہ ہے مزید رہنمائی کےلئے تاریخ ابن کثیر میں ایک پورا باب اس بابت مختص ہےاور یہ کہ علماء کےدرمیان مختلف آراء بھی پائی جاتی ہیں۔ لہٰذاصرف درج بالا تحریر کی بنیاد پر کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔



کتاب کا نام:تاریخ ابن کثیر (حصہ اول)

مصنف:حافظ عماد الدین ابوالفدا اسماعیل ابن کثیر(متوفی)774ھجری

مترجم:ابو طلحہ محمد اصغرمغل،فاضل دارالعلوم کراچی


1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی