غیرمسلم کےدعویٰ پر خلیفہ وقت نے بھری عدالت میں قسم کھائی،مگر۔۔۔۔

جب عدل اسلامی اپنے بامِ عروج پر تھا تو بادشاہان کو ہروقت اپنی گردن شکنجے میں نظر آتی تھی۔ جس کی وجہ سے عوام میں سے کوئی بھی شخص حاکمِ وقت پر نا صرف اپنے حق کے لئے دعویٰ کرسکتا تھا بلکہ اسے یہ بھی یقین ہوتا تھا کہ عدالت اسے انصاف بھی فراہم کرے گی۔۔۔۔

انصاف کے ایک تقاضےپہ دلالت کرتی یہ اچھوتی داستان آج ہرعدالت میں آویزاں ہونی چاہئے۔

قاضی ابو یوسف کے مرض الموت میں ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:

"اللہ کی قسم میں نے کبھی زنا کا ارتکاب نہیں کیا، اللہ کی قسم میں نے فیصلہ دینے میں کبھی بھی ظلم و زیادتی سے کام نہیں لیا اور نہ ہی میں اپنے بارے میں کسی بات سے خوف کرتا ہوں۔ البتہ ایک بات کا خدشہ ضرور ہے جو مجھ سے سرزد ہوگئی تھی۔"

کسی نے پوچھا آخر وہ کون سی غلطی ہے؟ کہنے لگے" دراصل بات یہ ہے کہ ایک روز میں شکایات کے اوراق ترتیب دے رہا تومجھے ایک نصرانی کا شکوہ نامہ نظرآیا۔اس نے خلیفہ ہارون رشید پر ظلم کا دعوی کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ہارون رشید نے اس کی ایک جاگیر پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ میں نےنصرانی کو بلوایا اور پوچھا:

"جس جاگیر کا تم نے دعویٰ کیا ہے ابھی وہ کس کےقبضے میں ہے؟"

نصرانی:"امیر المؤمنین ہارون الرشید کے قبضے میں"

قاضی ابو یوسف: "اس جاگیرکی آمدنی کون لیتا ہے"

نصرانی: "امیرالمومنین!!

چنانچہ میں نے اس کا شکوہ بھی دوسرے لوگوں کے اوراق کے ساتھ رکھ لیا۔

دوسرے دن جب عدالت کا دروازہ کھلا تو میں نے اپنی نشست سنبھالی اور یکے بعد دیگرے ان لوگوں کا نام پکارنے لگا جن کے نام میرے اوراق میں درج تھے۔ نصرانی کا نام بھی آیا اور میں نے اسے پکارا۔ جب وہ عدالت کے سامنے حاضر ہوا تو میں نے امیر المومنین کے خلاف اس کا شکایت نامہ پڑھا۔

امیر المومنین نے اپنے خلاف مقدمہ سن کرکہا: "نصرانی نے جس جاگیر کا ذکر کیا ہےوہ تو ہم نے اپنے دادا ابو جعفر منصورسے وراثت میں پائی ہے۔"

میں نصرانی کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: "امیرالمومنین نے جو کچھ کہا ہے اسے تم نے سن لیا۔ کیا تہمارے مقدمے کی تائید میں کوئی گواہ ہے؟:

نصرانی گویا ہوا: "میرے مقدمے پرکوئی گواہ تو نہیں ہے آپ امیر المومنین سے قسم اٹھوائیں کہ یہ جاگیر انہی کی ہے۔"

میں نے امیر المومنین سے پوچھا: "کیا آپ قسم کھانے کوتیار ہیں؟"

امیرالمومنین نے کہا: "میں قسم کھانے کو تیار ہوں"

پھر امیر المومنین نے بھرے مجمع میں قسم کھائی اور نصرانی اپنے گھر لوٹ گیا۔

قاضی ابو یوسف نے کہا:

"صرف اسی بات سے مجھے اپنے بارے میں خدشہ ہے"

حاضرین نے پوچھا:

" اس میں کونسی خدشے کی بات ہے جبکہ آپ کے اوپر جو کچھ واجب تھا اسے آپ نے انجام دے دیا؟"

قاضی ابو یوسف نے کہا:

" امیرالمومنین کو مدعی کے مدمقابل نہ ِبٹھانے کے سبب"



کتاب کا نام: سنہرے نقوش

مصنف کا نام: جناب عبدالمالک مجاہد صاحب

3 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی