کیا واقعی مانگنے والا بھی اپنے دینے والے پر احسان کرتا ہے؟ مولانا رومی کا فلسفہ !

محسن، سخی، منگتا، داتا، دینے والا، لینے والا، غنی، محتاج


منگتا اورداتا ایک دوسرے کے محسن ہیں۔

مولانا رومی کی نظر میں

سخی وسائل دونوں ایک دوسرے کے محسن ہیں۔عام طور پریوں سمجھا جاتا ہے کہ جُود و کَرم(سخاوت) میں دینے والا، لینے والے پر احسان کرتا ہے۔ لینے والا محتاج ہے اور دینے والا غنی۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ دینے والا، لینے والے پر احسان کرتا ہے اور لینے والا دینے والے پر۔ اگر محتاج کی محاجی نہ ہوتی تو سخی کی سخاوت ظہورمیں نہ آ سکتی تھی۔

امیر مینائی کہتا ہے:

مو قو ف جر م پر ہی کر م کا ظہو ر تھا

بندے اگر قصور نہ کرتے،قصورتھا

صائب کہتا ہے کہ:

جس طرح چمن میں غنچے باد نسیم کے جھونکے سے کھلتے ہیں اسی طرح دست گدا قفلِ جُود کی کنجی ہے۔

مہاتما بدھ نے کہا کہ:

بھکشوکو بھیک دو تواحسان جتا کر یا اپنا تفوق جتا کر نہیں بلکہ مودبانہ دست بستہ ہو کر دو، کہ اس نے تم کو نیکی کرنے اور حصول ثواب کا موقع دیا ہے۔ اگر تم اس کے محسن ہو تو وہ تم سے کم تمہارا محسن نہیں ہے۔

مولانا فرماتے ہیں کہ:

جس طرح توبہ کے لئے تائب کا ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح بخشش کے لئے طالب کا ہونا ضروری ہے: بخشش اپنے اظہار کے لئے مفلسوں اور ضعیفوں کی تلاش کرتی رہتی ہے۔ جس طرح کہ حسینوں کو آئینہ کی طلب ہوتی ہے۔محتاج، کریم کے کرم کا آئینہ ہے۔ جس کے اندر وہ اپنے حسن کردار کو دیکھ کر روحانی لذت حاصل کرتا ہے۔ سائل کو جھڑکنا، جس کے متعلق خدا و رسولﷺ نے تنبیہ کی ہے، ایسا ہے جیسا آئینے کی آب و تاب کو اپنے نفس سے مدھم کردینا۔

اسلام کی تعلیم میں کمال درجے کا توازن ہے۔ ایک طرف یہ حکم ہے کہ سائل کے ساتھ نرمی سے پیش آؤاور دوسری طرف مسلمانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ سائل ہونے سے گریز کرو۔ مانگنا اچھی چیز نہیں اس سے وقار میں خلل آتا ہے، محنت سے روزی پیدا کرنے کی کوشش کرو۔

"الکاسب حبیب اللہ"


کتاب کا نام: تشبیہات رومی

 از ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم


7 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی