زندہ خلیہ کیسے وجود میں آیا۔ ڈارون کی تھیوری کو رد کرتی ہوئی ایک تحریر۔ جناب ہارون یحییٰ کے قلم سے

genetics, genes, ارتقا ہارون، یحییٰ، نسل انسانی


مشہور و معروف تُرک مصنف ہارون یحییٰ کن دلائل کی بنیاد پر ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے خلاف ہیں اور کیسے اسکی ارتقائی تھیوری کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔

انسانی ارتقاء کی کہانی

ارتقاء کی تھیوری کے مبلغ نے جب بھی ارتقاء کا ذکر کیا انہوں نے انسانی ارتقا کے متعلق ضرور بحث کی۔ ڈارون کے ہمنواؤں نے موجودہ انسان کا ارتقائی رشتہ چمپانزی جیسے بندروں سے ملایا ہے اور اس منزل تک پہنچتے پہنچتےانسان کو چالیس پچاس لاکھ سال لگے ہیں اور مفروضہ ہے کہ ان ابتدا اور انتہا کے درمیان کی منزلیں ضرور رہی ہوں گی اور اس مکمل خیالی عقیدہ کو انہوں نے بغیر کسی سائنسی ثبوت کے چار منزلوں میں تقسیم کیا۔

1.Australopithecns....جنوبی افریقہ کا قدیم بندر کی نسل والا

2. Homo Habilis....انسانی عادات والا

3. Homo Erectus....انسان کی طرح سیدھا کھڑا ہونے والا

4.Homo Sapiens....آج کا انسان

ارتقا کے ماہروں نے پہلا انسان جنوبی افریقہ کے بندر کو کہا ہے۔ یہ جاندار دراصل کچھ بھی نہیں ہیں۔ بس مجرب قدیم بے دم کے بندر۔ یہ قسم آج ناپید ہو چکی ہے۔ اس موضوع پر برطانیہ اور امریکہ کے معروف سائنسدانوں لارڈ سولی زکرما اور پروفیسر چارلس آرکنارڈ نےرائے دی ہے کہ یہ نسل فقط بندر تھی جو مٹ گئی اور اس کی انسانوں سے کوئی بھی مشابہت نہ تھی۔ اس کے بعد علمائے ارتقاءنے ارتقاء کی دوسری منزل بتائی جو بالکل ہی غلط مفروضے پر مبنی رہی اور فرضی تصویروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

ماہرین نے ارتقاء نے اگلی منزل "ہومو" یا آدمی تجویز کی۔ انہوں نے اپنے دعوے میں کہا کہ ہومو افریقی "ایپ" بغیر دم کا بندر سے زیادہ ترقی یافتہ ہے اور اس کے لئے ان ماہرین نے بے حد خوبصورت خیالی سکیم بنائیں اور مختلف فوسل کو اس ترتیب سے جس سے ایک خاص نظام سیٹ ہوا۔

یہ ترتیب بے حد خیالی ہے اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ان منازل کااور مختلف انواع کے جانداروں کا کوئی تعلق نہیں۔

ارنسٹ میئر بیسویں صدی کا معروف و مشہورماہر ارتقاء ہے۔ وہ اپنی کتاب "لمبا استدلال یا دلیل" میں رقم طراز ہے "خصوصا تاریخی گھُنڈیاں جیسا کہ زندگی کی ابتدا اور موجودہ آدمی کا ارتقاء بے حد مشکل چیز ہیں اور فیصلہ مشکل ہے کہ کوئی مناسب جواب دیا جا سکے، یا دلیل قاطع اس کی موافقت میں پیش کی جا سکے۔"

اگر ارتقائی خط مستقیم کھینچا جائے:-

1۔ افریقی ایپ

2. آدمی کی عادات والا

3. آدمی کی طرح سیدھا

4. آج کا آدمی

ماہرین ارتقا نے ان کو ایک دوسرے کا جدِاعلٰی بتایا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ معلومات و تحقیقِ جدید نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ چاروں اقسام ایک دوسرے کےبعد نہیں بلکہ ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں پرپیداہوئیں۔ مزید یہ کہ وہ آدمی جو سیدھا کھڑا ہوا وہ تو عہدِ جدید تک پایا جاتا تھا۔ یہ سب ایک ہی منطقہ میں رہتے تھے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ڈارون اور اس کے پیروکاروں کا دعویٰ باطل ہے۔ ہارورڈ کے ماہرین اسٹین جے گولڈ نےخود ایک ارتقائی ماہرہونے کے باوجود اس کی دھجیاں اڑا دیں۔ ارتقائی سیڑھی کےتین عناصر میں سے کوئی بھی ایک دوسرے سے جڑتا نظر نہیں آتا اور زمین پر ان کے اس قسم کے کوئی شواہد بھی نہیں ملتے جو ایک دوسرے کی مدد کریں۔

قصہ مختصر ارتقاء کے اس نظریے کے لئے چند تصویروں سے مدد لی گئی تھی جو پرانے زمانے میں لوگوں نے بنائی تھی جس میں آدمی کوایپ(یعنی آدھا بندر) اورآدھا انسان دکھایا گیا تھا۔ لاڈلی سولی زکرما نے افریقی نسل پر پندرہ سال تحقیق کی اور آخر یہ نتیجہ نکالا کہ ایسا کوئی شجرہ نسب نہیں ہے جو بندر کو انسان سے جوڑتا ہے۔ ذکرما نے خاصی محنت سے مختلف انواع کےچوڑے سپیکٹرم پر کام کیا۔

 کیمیا و فیزیا اور پھرعلم الحیاتیات اور پھر سوشل سائنس پر۔ سپیکٹرم کے آخری کنارے پر(جو کہ سب سے زیادہ غیر سائنسی حصہ شمار کیا جاتا ہے) اس پر مافوق الفطرت ادراک مثلاً ٹیلی پیتھی اور چھٹی حس اور انسانی ارتقاجیسی معلومات شامل ہیں زکرمااستدلال کرتا ہے کہ ہم اگرسچائی کے داہنے بازو کی طرف غور کریں تو ہمیں حیاتیاتی موضوع اور مافوق الفطرت احساسات، لمسیات اور آدمی کی فوسلی تاریخ ملے تو پھر اہل ایمان یا اہل عتقاد کو ہر چیز ممکن نظر آتی ہے۔ جبکہ ایک بد عقیدہ ارتقائی معتقد کچھ ایسی چیزوں پر یقین کرتا نظر آتا ہے جواصل کی ضد ہوں یا حقیقت کے برخلاف ہوں۔ انسانی ارتقاء کی داستان ابال کے ساتھ گر کر بہہ جاتی ہےکچھ بچتانہیں، لیکن متعصب ارتقائی علماء کچھ فوسلز کا سہارا لے کر اپنے بے بنیادعقیدے پراڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ غلط ہیں۔

ساری فنی شہادتیں جن کو ہم اب تک ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اس کے بعد ہم کو صرف ایک مثال دینی ہےجس کا اپنی سادگی کے سبب بچہ بھی جواب دے سکتا ہے اور سمجھ سکتا ہے۔ 
ارتقاء کی تھیوری یہ ہے کہ زدگی حادثتاًبن گئی۔
اس دعویٰ کی نسبت سے غیر جاندار اشیاء اور لا شعور (مردہ) ایٹم مل بیٹھے اور انہوں نے خلیہ تشکیل دیا اور پھر کسی نہ کسی طرح جاندار چیزیں بھی بن گئیں۔جس میں آدمی بھی شامل ہے۔
اب ہمیں کچھ دیر کے لئے سوچنا چاہیے۔ ہم کچھ عناصر پاس لاتے ہیں اور جوڑتے ہیں۔ جو بلڈنگ بلاک یا عمارتی اینٹیں ہوتی ہیں اوریہ زندگی کی اینٹیں ہیں۔ جیسے کاربن فاسفورس، نائٹروجن، پوٹاشیم تو یہ ایک ڈھیر بن جاتا ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہوا اور کیا طریقہ اختیار کیا گیا اوریہ کہ اس بےربط ڈھیر سے خلیہ بن گیااس مفروضے کو اہلِ ارتقاءنےڈارون کا فارمولہ کہا ہے۔
اگر ارتقا کے علماء کافی مقدار میں ان عناصرکو جمع کریں جو زندگی کی ضرورت ہیں۔ جیسے فاسفورس، نائٹروجن، آکسیجن، لوہا، میگنیشیم وغیرہ او ان کو برامیل میں بھر دیں اور پھر ان کو وہ اجزابھی شامل کر لینے دیں جو عام طور پر اورجو قدرتی حالات موجود نہیں ہوتے اور بہت سی لحمیات بھی پھر بھی ایک میں10950امکان ہوگا اگر وہ پسند کریں اور پھر اس ملغوبہ کوجتنی چاہیں گرمی پہنچائیں اور نمی بھی اور پھر اس کوہلاؤ اور اس کے لئے خواہ کوئی فنی فارمولا استعمال کرو اور ان برامیل کے ساتھ دنیا کے بہترین دماغ والے علماء بھی بٹھا دیں اوران علماء کو ہزاروں، کروڑوں، اربوں سال انتظار کرنے دو اور ان کو اس امر کی بھی اجازت ہو کہ وہ تمام موافق حالات بھی استعمال کریں کہ بنی آدم پیدا ہو جائے۔ خواہ وہ کچھ بھی کریں ایک آدم پیدا نہیں کر سکتے۔ وہ کسی بھی حالت میں زرافہ، شیر، پرندے، گھوڑے، ڈولفن، گلاب، کیلے، مالٹے،کھجوریں، ٹماٹر، خربوزے، تربوز، انجیر، زیتون، انگور، مٹر، تتلیاں اور کسی قسم کے دوسرے جاندار نہیں بنا سکتے۔ یہ تو بڑی دور کی بات ہے وہ صرف اور صرف ایک خلیہ نہیں بنا سکتے۔
مختصراً یہ کہ بے جان ایٹم ایک دوسرے کے پاس آنے سےخلیہ نہیں بنا سکتے وہ کوئی نیا فیصلہ لے سکتے ہیں اور خلیات کو تقسیم کر اور نہ ہی برقی مائیکروسکوپ سے ان خلیات کو دیکھا جا سکتا ہے اور مکمل تفصیل میں۔ مادہ ایک بے حس و بے جان چیز ہے مگر رب العزت کے حکم سے اس میں جان بھی پڑسکتی ہے۔ زندگی شروع ہو سکتی ہے۔ ارتقاء کی تھیوری، جو برعکس ہے بالکل جھوٹ، افتراء اورتُک بندی ہے اور دلیل سے کوسوں دور حقائق پرذرا سوچو تو سچ کا پتہ چل جاتا ہے۔

کتاب کا نام: کائنات کے سربستہ راز
مصنف کا نام:ہارون یحیٰ
مترجم: مسز مہناز عطاء چوہدری

3 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی