عرب شاعر نے دم مرگ اپنے بیٹے سے کتے کا خصوصی خیال رکھنے کی وصیت کیوں کی؟

مہمان نوازی، سفر، ریت ، صحرا، دن، رات، کتا، آقا، غلام

عرب کلچر میں مہمان نوازی کو عشق کا درجہ حاصل ہے اس کا اندازہ آپ اس تحریر سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔

عربوں کے ہاں دستور تھا کہ رات کے وقت اونچے اونچے ٹیلوں پر آگ جلا دیا کرتے تھے۔ تا کہ اگر رات کے وقت کوئی مسافر گذرے تو وہ اس آگ کو دیکھ کر مقامی لوگوں کی خیموں تک پہنچ سکے اور جب کوئی بھولا بھٹکا مسافر رات کے وقت ان کے ہاں پہنچ جاتا تھا تو اس کی کی خاطر مدارت میں کوئی کمی نہ رہنے دیتے۔ سید محمود بغدادی نے دو شعر اس سلسلے میں نقل کئے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔

ایک آقا اپنے غلام سے کہتا ہے:

"اے واقد اونچے ٹیلے پر آگ جلا دے۔ رات نہایت سرد ہے، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں۔ ممکن ہے کوئی بھٹکا ہوا راہی تیری آگ کو دیکھ لے۔ اگر تیری جلائی ہوئی آگ نے کسی مہمان کو اپنی طرف کھینچ لیا تو تجھے آزاد کر دیا جائے گا۔"

کبھی کبھی یہ لوگ بجائے آگ جلانے کے عود اور دوسری خوشبودار چیزیں بھی جلاتے تاکہ ہوا کے جھونکے وسیع و عریض صحرا میں دور دور تک مہک پھیلاتےرہیں اورمسافر یہ خوشبوسونگھ کران کےپاس پہنچ جائے، پھر وہ اس کی ضیافت کر کے لطف اندوز ہوں۔

بعض لوگوں نے اس مقصد کے لیے کتے پال رکھے تھے۔ جو رات کے سناٹے میں بھونکتے تھے اور دور دراز تک ان کی پھیلتی ہوئی آوازیں شب کے صحرا نوردوں کو میزبانوں کے خیموں تک پہنچا دیتی تھیں۔ اس طرح وہ ان کی مہربانی کرکے اپنی روح کو سکون بخشتے تھے۔

ایک موقع پر ایک شاعر نے اپنے بیٹے کو اپنے کتے کے بارے میں یہ وصیت کی۔

"میرے بیٹے میں تجھے اپنے کتے کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ اس سے اچھا سلوک کرنا اس میں بعض خوبیاں ایسی ہیں جو مجھے بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ جب فضا رات کی سیاہ چادر اوڑھ لیتی ہے تو یہ میرے مہمان کو رات کی تاریکی ہی میں میرے پاس کھینچ لاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت آگ جلانے والے سو جایا کرتے ہیں۔"



کتاب کا نام:سنہرے نقوش

مصنف:جناب عبدالمالک مجاہد صاحب 


1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی