ہم جب نیند کی حالت میں چلے جاتے ہیں تو ہمارا شعور بظاہر ریسٹ کی حالت میں ہوتا ہے۔ شعور چونکہ دن بھر متواتر کام کرتا رہتا ہے۔ لہذٰاآرام کی چند گولیاں اس کی زندگی کے لیے ضروری ہیں۔تاکہ دوبارہ کام کے لئے وہ پھر سے تازہ دم اور تیار ہو جائے۔
لیکن بعض اوقات نیند کی حالت میں بھی شعور کو آرام نہیں کرنے دیا جاتا اور وہ بدستور کام کرتا رہتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب حواس ظاہری طور پرحالت سکون میں ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں یوں ہوتاہے کہ انسانی ذہن کے مانیٹر کی سکرین یعنی شعور پر کسی اجنبی دنیا سے خواہشات حسرتیں اور دیرینہ آرزوئیں نکل نکل کر مبہم اور مہمل ترتیب کے ساتھ پردہ ذہن پر نمودار ہونے لگتی ہیں۔
ہمارے حواس خمسہ میں سے چونکہ سب سے زیادہ حساس قوت باصرہ (دیکھنے کی قوت)ہے۔ لہذا ہم خواب کو سب سے زیادہ آنکھ کے پردے پر محسوس کرتے ہیں۔جب ہم حالت خواب میں ہوتے ہیں تو ہمارا شعور نظر آنے والی چیزوں کو اپنی ہمت کے مطابق معنی بھی پہنا رہا ہوتا ہے۔ لیکن جب ہماری آنکھ کھلتی ہے تو ہمیں نہ صرف ان اجنبی معلومات پر حیرت ہوتی ہے بلکہ ان معنی پر بھی جو شعورنےخواب کی حالت میں معلومات کو پہنائے۔
خواب پیدا ہونے کی وجہ
ماہرین نفسیات کے نتائج میں خواب پیدا ہونے کی وجہ اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ جب ہم عام جاگتی ہوتی زندگی سے کسی ایسی چیز کی تمنا کرتے ہیں جس کا حصول قواعد و ضوابط کی پابند دنیا میں ناممکن ہوتا ہے۔تو ہمارا خیال تصور اور تمنا کچھ وقت کے بعد ہمارے ذہن سے محو ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ وقت تحت الشعورمیں قیام پذیر رہنے کے بعد لاشعور کے اندھے کنویں میں جاگرتی ہیں۔
لیکن وہ خیال، تصور یا خواہش اتنی شدید تھی کہ گہرے کنویں کی تہہ سے آپ تڑپتے ہوئے قیدی کی طرح باربار اوپر کی طرف اٹھتی اور لپکتی ہے۔ لیکن لاشعور سے کسی چیزکا حالت بیداری میں واپس آ جانا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم محو خواب ہوتے ہیں تو ہمارے لاشعور میں آدھمکتی ہے۔
گویا ہم جاگتے ہوئے جو نہ کر سکے اسے خواب کی حالت میں کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ زندگی کو اپنی تکمیل کا احساس ہوسکے۔ لیکن یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض خواہشات تمنائیں تصورات اور خیالات اخلاقی تہذیبی اور روایتی لحاظ سے ناممکن العمل اور باعث شرم ہوتے ہیں کہ ہمارا شعور نیند کی حالت میں بھی اپنے دامن میں ان کا وجودبرداشت نہیں کر سکتا اور ان کو قبول نہیں کرتا ایسی صورت میں خواب سے ہماری آنکھ کھل جاتی ہے۔
خواب میں ڈرنا
اس طرح کی بعض خواہشات لاشعورکے اندھے کنویں میں سے نکلتے وقت یہ چالاکی کرتی ہیں کہ اپنا بھیس بدل لیتی ہیں اور درمیان میں موجود محتسب یعنی تحت الشعورکے کمرے سے دبے پاؤں گزرتی اورشعورمیں عجیب وغریب تصویروں اورہیولوں کی صورت میں نمودار ہوتی ہیں۔ اس طرح کی خواہشات چونکہ عالم بیداری کے عالم میں نہایت ناجائز تھیں لہذا کچھ وقت کے بعد محتسب بیدار ہوجاتا ہے او انسان ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے جسے ہم خواب میں ڈرنا کہتے ہیں۔
کتاب کا نام: عورت، ابلیس اور خدا
مصنف: جناب ادریس آزاد صاحب