والد نے دریافت کیا:بتاؤ جھگڑا کیا ہے؟
بیٹے نے تفصیل بتائی۔ قاضی شریح فرمانے لگے تم پہلی فرصت میں مقدمہ میری عدالت میں پیش کرو۔
اگلے دن مقدمہ پیش ہوا۔ فریقین حاضر ہوئے، دونوں نے دلائل دیے، بعد ازاں قاضی شریح نے اپنے بیٹے کے خلاف فیصلہ سنا دیا۔
عدالت سے فارغ ہوکرباپ بیٹاگھر آئے، تو بیٹے نے کہا ابا جان آپ نے تو میرے مخالفین کے حق میں فیصلہ کردیا یہ کیا بات ہوئی!
باپ نے کہا: ہاں میرے بیٹے میں نے ان کے حق میں اس لیے فیصلہ کیا ہے کہ وہ لوگ حق پر تھے۔ بیٹا کہنے لگا ابا جان مجھے فیصلے پر اعتراض نہیں۔ ملال یہ ہے کہ میں نے آپ سے مشورہ کیا تھااورآپ ہی کے ارشاد پر مقدمہ دائر کیا تھا۔ آپ مجھے مقدمہ دائر کرنے کے لئے نہ فرماتے تو میں ان سے صلح کر لیتا اور آج سرعام سب کے سامنےجو میری ذلت اور رسوائی ہوئی ہے، اس کی نوبت نہ آتی۔ آپ نے اسی وقت کیوں نہیں مجھےفرما دیا کہ میں جا کر ان سے صلح کر لوں۔ آپ نے تو مجھے بھری عدالت میں ذلیل کر دیا۔
قاضی شریح نے فرمایا:
" بیٹے اللہ کی قسم تو مجھے دنیا جہان سے زیادہ عزیز ہو مگر اللہ تعالی تم سے کہیں زیادہ عزیز تر اور محبوب ہے میرے لیے ہر گز جائز نہیں کہ میں اپنے رب کو ناراض کروں اگر میں تمہیں بتا دیں تاکہ حق تمہارے مخالفین کے ساتھ ہے تو تمام کر لیتے صورت میں ان کا حق مارا جاتا مجھے ان کی حق تلفی گوارا نہیں ہوئی اسی لیے میں نے حق بحقدار رسد کا اہتمام کر دیا"
کتاب کا نام: سنہرے نقوش
مصنف: جناب عبدالمالک مجاہد صاحب