ایک بزرگ نے نابینا حکیم کے دل پر توجہ کی اور پھر روح پر۔ تو جواباً حکیم صاحب نے کیا معرفت کی بات کی؟

image by pixabay

آنکھ کی روشنی اور دلِ روشن کا فرق

حکیم انصاری دہلی کے بڑے ہی مشہور اورحاذق حکیم تھے.اللہ تعالیٰ نے طب میں کمال درجے کا مقام عطا کیا ہوا تھا۔ لیکن آنکھوں کی روشنائی سے محروم تھے۔ نبض پر ہاتھ رکھتے اور بیماری کا کل حال معلوم کرلیتے۔ جو مریض کئی اطباء سے مایوس ہوچکا ہوتا وہ آپ کے پاس آتا اور اللہ کے کرم سے شفا یاب ہوتا۔

ایک بزرگ خواجہ محمد عبدالمالک صدیقیؒ کو شوق پیدا ہوا کہ کیوں نا حکیم صاحب سے ملاقات کی جائے اور حال احوال جانا جائے۔چنانچہ وہ حکیم صاحب کے مطب پر گئےاوربنا کوئی بات کئے چپ چاپ بیٹھ گئے تاکہ حکیم صاحب کو کچھ پتہ نہ چلے۔

وہ چونکہ صاحب حال تھے تو انہوں نے حکیم صاحب کے دل پر توجہ ڈالنا شروع کی، کچھ دیر تک یہی کرتے رہے اور پھر انہوں نے حکیم صاحب کی روح پر توجہ ڈالنا چاہی۔

جس پر حکیم صاحب فوراً بول پڑے اور کہا:

"حضرت آپ توجہ صرف میرے دل پر ہی کرتے رہیں، اگر یہی(دل) معرفت الہیٰ سے منورہوگیا تو گویاسب ہوگیا۔"

بزرگ فرماتے ہیں کہ "یہ اگر نابینا ہیں تو پھر بینا کون ہے۔"

بے شک آنکھ کی روشنی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اگر دل معرفت الہیٰ کے نور سے منور ہوجائے تو پھر آنکھوں کی کسے پڑی ہے۔


اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو براہ کرم تھوڑا سا تردد فرمائیں اور اسے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ نیچے دیے گئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ضرور شیئر کریں۔ اس سے ہمیں مزید حوصلہ ملےگا اور اسی پیج پر تھوڑا نیچے جاکر اپنی رائے سے ضرور آگاہ فرمائیں تاکہ آئندہ ہم آپ کی رائے کے مد نظر پوسٹ لگانے کی کوشش کریں۔

جس کتاب سے رہنمائی لی گئی ہے ۔

کتاب:اہل دل کے تڑپا دینے والے واقعات

مصنف: پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب

2 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی