![]() |
image by pixabay |
حضورنبی کریمﷺ کا منبر مبارک
نبی اکرم ﷺ کے منبر نبوی کی تین سیڑھیاں یا درجے تھے۔رسولِ اکرمﷺ منبر کے سب سے اوپری حصے پر تشریف فرما ہوکر خطبہ فرمایا کرتے تھے اور دونوں پائے مبارک درمیانی سیڑھی پر رکھتے تھے۔
آپﷺ کی رحلت مبارکہ کے بعد حضرت ابو بکرصدیق کا دور خلافت آیا تو آپ منبرِ نبویﷺکی درمیانی سیڑھی پر بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے اور آخری درجہ یا سیڑھی پر پیر۔رکھتے تھے۔
اس کے بعد جب حضرت عمرؓاپنے عہدہ خلافت پر فائز ہوئےتو آپ تیسرے درجہ یا سیڑھی پر بیٹھتے اور پاؤں زمین پر رکھتے تھے۔بعد ازاں حضرت عثمان غنی۠ؓ نے اپنی خلافت کے شروع کے دنوں میں حضرت عمرؓ کے طریقہ کے مطابق عمل کیا اور پھر اوپر کے درجے پر بیٹھنے لگے۔
جب امیر معاویہؑ کا عہد خلافت آیا تو انہوں نے منبر نبویﷺکو شام لےجانے کا ارادہ بنا لیا۔
اس پر عوام الناس نے احتجاج کرنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ساتھ نہائت تیز آندھی اور طوفان کے جھکڑ چلنے لگے۔
ایسا سورج گرہن لگا کہ دن کے وقت تارے صاف نظر آنے لگے اور زمین پر اس قدر اندھیرا چھا گیا کہ لوگ ایکدوسرے میں ٹکرا رہے تھے اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔
جب امیر معاویہؓ نے یہ صورتحال دیکھی تو اپنے ارادہ سے باز آگئے۔ لیکن منبر نبویﷺ میں مزید چھے درجے اصل تین درجوں کے نیچے اضافہ کر دیے اور اسطرح کل نو درجات ہوگئے۔
اگر یہ تحریر آپ کو پسند آئی ہے تو براہ کرم تھوڑا سا تردد فرمائیں اور اسے اپنے چاہنے والوں کے ساتھ نیچے دیے گئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ضرور شیئر کریں۔ اس سے ہمیں مزید حوصلہ ملےگا اور اسی پیج پر تھوڑا نیچے جاکر اپنی رائے سے ضرور آگاہ فرمائیں تاکہ آئندہ ہم آپ کی رائے کے مد نظر پوسٹ لگانے کی کوشش کریں۔
مختلف کتب تاریخ میں یہ واقعہ درج ہے۔ تاہم ہم نے جس کتاب سے رہنمائی لی ہے۔
کتاب کا نام: سفر نامہ ابن بطوطہ
مصنف: ابن بطوطہ