”ہیں تو انسان مگر انسانیت نہیں“

 سنبل شھزادی

(سیالکوٹ)

”ہیں تو انسان مگر انسانیت نہیں“

 

انسانیت ہے کیا؟ اللہ تعالیٰ نے بہت سی مخلوقات کو پیدا کیا جیسے نباتات، جنات، انسان،حیوان وغیرہ۔ان میں سے ہر کسی کی تخلیق کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔لیکن ان سب میں سے فقط انسان کو ہی اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا۔کیونکہ انسان کی پہچان اس کی انسانیت سے ہوتی ہے۔ اس کے اچھے اخلاق اور بہترین طرزِ عمل سے ہوتی ہے۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسانیت کا تعلق حسّیات سے ہے۔یعنی آنکھ،کان، منہ ہاتھ، پاؤں وغیرہ۔ کیونکہ ان کے ذریعے ہی انسان اپنے جذبات کو اپنے احساسات کو دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔انہیں کے ذریعے وہ انسانیت کا حق ادا کر سکتا ہے۔بلندیوں کی انتہا کو چھو سکتا ہے۔ انہی کے ذریعے وہ دوسروں سے ربط قائم کر سکتا ہے۔ یہی وہ حسّیات ہیں جو انسان کو انسانیت کہ اعلیٰ درجے پر فائز کرتی ہیں۔ لیکن یہ حسّیات اللہ کی دوسری مخلوق کے پاس بھی تو ہیں جیسے جانوروں یا پرندوں کے پاس۔ تو پھر ان کو کیوں نہیں انسانیت کے درجے پر فائز کیا جاتا ۔ہمیشہ انسان کو ہی کیوں انسانیت سے جوڑا جاتا ہے؟

 میرے نزدیک انسان کو انسانیت سے عقل اور جستجو کی وجہ سے جوڑا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ وہ خوبیاں ہیں جو دوسری کسی مخلوق کے پاس نہیں۔ یہ اللہ کی خاص نعمت ہے۔ جو صرف انسان کو عطا کی گئی ہے۔ کیونکہ عقل اور جستجو ہی انسان کو سوچنے کی صلاحیت دیتی ہیں۔اپنے اردگرد لوگوں اور چیزوں کے بارے میں جاننے میں مدد دیتی ہیں۔ انہی دونوں کی بدولت آج انسان اپنی تخلیق کا مقصد جان پایا ہے۔ انہی کی وجہ سے انسان بابِ ثریا کے زینوں پر چل پایا ہے۔ رشتوں اور ان کے تقاضوں کو سمجھ پایا ہے۔ اسی عقل اور جستجو کی وجہ سے وہ اپنے حقوق و فرائض جان پایا ہے۔ زندگی اور موت کی حقیقت سے آشنائی حاصل کر پایا ہے۔ گویا کہ انسان کے پاس وہ سب کچھ ہے۔ جس سے وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی انسان آج تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ آخر کیوں آج ہم انسان تو  ہیں۔ لیکن ہم میں انسانیت نہیں؟ کیونکہ ہم نے اپنی عقل کا استعمال چھوڑ دیا ہے۔  صرف جو سنتے ہیں، دیکھتے ہیں۔ اسے سچ مان لیتے ہیں۔ ہمارے اندر سوچنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے ۔ ہم صرف ایک روبوٹ بن چکے ہیں۔ اسی وجہ سے تو آج انسانیت کا جنازہ نکل رہا ہے۔ کیونکہ ساری مخلوقات میں سے صرف انسان کو ہی حکم ملا تھا۔ کہ زمین و آسمان میں غوروفکر کرو۔ بے شک اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔لیکن ہم لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ہمارے گردونواح میں ظلم اپنے عروج پر پہنچا ہوا ہے۔قتل و غارت،ریپ، چوری، غرض کہ ہر برائی عام ہے۔ بوڑھے والدین کو گھروں سے نکال دینا۔بیٹی کو پیدائش کے بعد پھینک دینا، کسی پر بھی بہتان لگا دینا، کسی کی عزتِ نفس کو مجروح کر دینا۔ دولت کے نشے میں رشتوں سے قطع تعلق کر دینا۔ خود غرضی اور خود نفسی کی خاطر ہر حدود پار کر جانا۔ یہاں تک کہ انسان انسانیت اور اخلاقیات کے ہر درجے سے گرتا جا رہا ہے۔ بد قسمتی سے آج کے دور کا انسان تو دور کی بات ہے۔ آج تو جانور بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کہنے کو انسان تو زندہ ہیں۔ لیکن انسانیت مٹی میں دفن ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے کہ انسان اپنے حواس پر قابو نہیں کر پا رہا ۔ اپنی عقل کو موقوف کر بیٹھا ہے۔اس کی سوچ مفلوج ہو چکی ہے۔ تبھی تو وہ مستقبل کے چکر میں حال کھوتا جا رہا ہے۔لوگوں کے احساس،ان کے صبر، ان کی امیدوں کو اپنے پیروں تلے کچلتا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب تک انسان اپنے حواس پر قابو پا کہ عقل سے کام لیتا تھا۔تو وہ کامیاب تھا۔کیونکہ اس کی عقل اس کے ضمیر کو سوال کرنے پہ مجبور کرتی تھی۔ صحیح اور غلط، حق اور باطل کی پہچان کرواتی تھی۔ انسان کی عقل اسے یہ بھولنے نہیں دیتی تھی۔ کہ ایک ذات موجود ہے۔جو انسان سے اس کے ہر کیے کا حساب لے گی۔ اسے اس کے اعمال کی جزا اور سزا دے گی۔ یہ احساس انسان کے ضمیر کو زندہ رکھتا تھا ۔کہ ہر چیز فانی ہے۔ ہر چیز اپنے وقت پر مکمل ہو جانی ہے۔ لیکن آج یہ دنیا عجب نفسا نفسی کے عالم میں ہے۔ ہر کسی کو آگے آنے کے لیے اپنے اندر کی انسانیت کو قتل کرنا پڑتا ہے۔اپنے ضمیر کو خاموش کروانا پڑتا ہے۔ لیکن انسان کی یہ غلط فہمی جلد ہی  دور ہو جائے گی۔اور وہ وقت قریب ہے۔ جب انسان کو دی گئی ہر نعمت چھین لی جائے گی۔ اور اس کے ہر عمل کا حساب لیا جائے گا۔ کیونکہ اس روز کسی پر ظلم نہیں ہوگا۔ کسی کی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔ ہر کسی کو وہی ملے گا۔ جو اس نے بویا ہو گا۔کیونکہ دنیا انسانوں سے ہے۔اور انسان انسانیت سے ۔اگر انسانیت ہی نہ رہی تو دنیا صرف ایک مکان ہے گھر نہیں۔

10 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی