ماریہ شبیر (چونڈہ۔ خان ہری)
معصوم سوال۔۔۔۔۔۔!
آج کے اس دور میں جہاں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔امیر طبقوں کے سوال اور جواب بھی امیروں والے اور غریب لوگ آج ان کے مزاق ،ہنسی اور قہقہوں کی وجہ بنے ہوئے ہیں۔
جب کوئی امیر مر بھی جاتا ہے تو وہ اپنے پیچھے چھوڑ کے جانے والوں کو ہر سہولت میسر کرکے جاتا ہے۔
مگر جب ایک غریب مرتا ہے تو ہو سکتا ہےاسی سے گھر کا چولہا جل رہا تھا۔ہو سکتا ہے اس کے مرنے کے بعد اس کے خاندان میں فاقوں کی نوبت آجائے۔
ایک غریب باپ کا غربت کی وجہ سے علاج نہ ہوا۔اور مر گیاتین دن تک گھر میں پڑوسیوں اور عزیزواقارب نے کھانا پہنچایا۔گھرپھر سے فاقے پڑنے شروع ہو گئےاور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بیٹا بیمار پڑ گیا۔یہاں ایک غریب کی بیٹی اور غربت میں زندگی کی امید لگائے بچی ماں سے ایک "معصوم" سا اور دل کو چیڑ کے رکھ دینے والاسوال پوچھتی ہے کہ ماں بھائی کب مرے گا؟
ماں تڑپ گئی اور بیٹی سے پوچھا ایسا کیوں کہ رہی ہو؟
بچی نے جواب دیا:
بھائی مرے گا تو کھانا ملے گا۔
بات کرنے کا مقصد ہے کہ ہمیں مسلمان اور اس سے بڑھ کر ایک انسان کی انسانیت کو زندہ رکھنے کےلیے اس معاشرے میں اپنا چھوٹا سا کردار ادا کرنا ہوگا۔تاکہ ایسا نہ ہو کہ ایک غریب کی موت اس کے گھر والوں کے لیے منہ کے نوالے کا باعث بنے۔ایک غریب اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے موت کی دعا نہ مانگے۔اسے موت کو گلے نہ لگانا پڑے اپنے خاندان کے منہ میں نوالہ ڈالنے کے لیے۔
خدارا اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں اور اپنی اسطاعت کے مطابق انسانیت کا فرض نبھائیں اور قرض اتاریں۔