ستارہ منیر (کبیروالہ بارہ میل)
رات کا وقت تھا۔پر سکون رات تھی ہلکی ہلکی پنکھے کے چلنے کی آواز
تھی۔باقی سب پرسکون نیند کی چادر اوڑھ چکے تھے۔آسمان پر چاند تاروں نے رونق لگائی
ہوئی تھی۔ہر طرف سکون ہی سکون تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی کھڑکی کا ایک پٹ کھلا تھا
جس سے کچھ لمحے بعد ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا آتا تھا۔ تازگی محسوس کرواتا تھا۔اسی
کھڑکی کے عقب میں بیٹھی ایک لڑکی جس نے سرخ رنگ کی فراک اور نیلی جینز پہن رکھی
تھی۔سب سے بےخبر اپنے بستر پر کتابوں کا ڈھیر لئے بیٹھی تھی۔جس کا نام صاحبہ
تھا۔اس ڈھیر سے اکتا گئ۔ اف ف ف ف ابھی تین اسائنمنٹس اور رہتی ہیں بڑبڑاتے ہوئے
کہا۔ اور کتابوں کو سائیڈ پر رکھ دیا۔وہ یونیورسٹی کی سٹوڈینٹ تھی۔ جن کے
اسائنمنٹس کی آخری تاریخ قریب تھی تو وہ دن کو دوسرے کاموں میں مصروف اور رات کو
اپنا کام کرتی تھی مسلسل 15دن سے وہ آنلائن اسائنمنٹس لکھنے کی وجہ سے جاگ جاگ کر
اکتاہٹ اور تھکن محسوس کر رہی تھی۔کہ چائے پینے کی غرض سے اٹھ گئ۔اس کی تمام
دوست بھی اسی کام پر لگی ہوئی تھیں۔اور مسلسل ہر اسائنمنٹ کے بعد ایک دوسرے کو آپ
ڈیٹ کر رہی تھی۔ صاحبہ چائے بنا کر واپس کمرے کی طرف آئی کپ کو اک پاس پڑے
لکڑی کے بنے ہوئے سٹول پر رکھ دیا اور کام سٹارٹ کردیا۔اور ساتھ ساتھ چائے کے سپ
لے رہی تھی۔کہ اچانک ہوا کا ٹھنڈا جھونکا آیا۔اور اس کی کتابوں کے ورک ادھر ادھر
الٹ پلٹ ہوئے تو اس نے نظریں اٹھا کر ایک نظر کھڑکی کی طرف اور پھر کتابوں کی طرف
دیکھا اور کتابوں کو بند کیا کپ اٹھایا اور کھڑکی کے پاس آگئ۔ سر کو کھڑکی کے ساتھ
ٹیک دیا۔ آسمان پرسکون تھا۔تاروں میں خوش نظر آرہا تھا۔ہوا رقص کر رہی تھی سامنے
لان میں کھلے پھول بھی ہوا کے ساتھ رقص میں مصروف تھے۔تیز ہوا کی وجہ سے ادھر ادھرایک
دوسرے پر گر رہے تھے جیسے اٹکھیلیاں کر رہے ہوں۔ صاحبہ ان کو غور سے دیکھ رہی تھی
اور چائے کا آخری سپ لیا تو ذہن کچھ پرانی یادوں میں کھو گیا جیسے وہ کسی کے ساتھ
اٹکھیلیاں کیاکرتی تھی۔ جیسے وہ کسی کے ساتھ خوشیاں منایا کرتی تھی۔ اندر کچھ
ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔اسائنمنٹس جو کچھ لکھی تھی اور آگے لکھنی تھی وہ وہی پر سٹاپ
کردی تھی۔ ابھی وہ کچھ سوچوں کے محور میں تھی کہ موبائل پر بپ ٹیون بجی چونک کر
سوچوں سے باہر آئی۔اور سوچا کہ ضرور اقرا کا میسج ہوگا اسائنمنٹ کا پوچھتی
ہوگی۔ہاتھ میں پکڑا کپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور موبائل کی طرف بڑھ گئ۔جیسے ہی
موبائل اٹھایا تو سکرین پر جو میسج تھا دیکھ کر حیران ہوئی اور بڑبڑائی انوار الحق
کا میسج آج اس نے کیسے کرلیا ہممممم اچھا پوچھتی ہوں۔
انوار زندہ ہو؟؟؟
صاحبہ جی الحمداللہ۔
انوار گڈ
ہمممم صاحبہ نے جواب دیا۔۔
یہ ڈی پی پر تصویر کس کی لگی ہے۔
صاحبہ کونسی میسنجر پر
؟؟ انوار۔۔جی۔۔۔
بھائی لگتا ہے کیا کزن ہے بوائے فرینڈ ہے کیا؟اچانک اتنے سوال کرلئے۔
نہیں کوئی بھی نہیں صاحبہ نے کہا۔
اچھا واٹس ایپ پر وہی نمبر ہے کیا میسج کیا ذرا چیک کرو ۔انوار نے
کہا۔۔
جی وہی ہے کیوں کسی کو دینا ہے کیا؟؟صاحبہ نے پوچھا
ارےے یاررر اتنا بھی گھٹیا نہ سمجھو۔برا ہوسکتا ہوں پر گھٹیا
نہیں۔انوار نے جواب دیا۔
سب ایسے کہتے ہیں شروع شروع میں بعد میں سب اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ملک
جی صاحبہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ملک جی نے قہقہ لگایا کیونکہ اس کو بھی کچھ یاد
آگیا تھا۔کیا کرتی ہو آجکل انوار نے پوچھا؟کچھ خاص نہیں کالم نگاری افسانہ نویسی
تقاریر وغیرہ وغیرہ صاحبہ نے جواب دیا۔
اوکے خوش رہو۔
امین۔
؟؟؟ واٹس ایپ پر
صاحبہ۔۔ جی...
کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے کیا انوار نے پوچھا
نہیں۔۔۔
دیکھیں جھوٹ بولنے کا کیا فائدہ۔نا تو میں تم سے شادی کرنی ہے۔نا
مجھے تمہارے فرینڈز بنانے پر کوئی اعتراض ہے۔انوار نے کہا
صاحبہ نے جب اس کے یہ الفاظ پڑھے تو اس کو بہت دکھ ہوا کہ میں نے کب
کہا آپ کو ایسی ویسی بات بوائے فرینڈ ہو کوئی ضروری تو نہیں صاحبہ نے کہا تو
انوار نے قہقہ لگایا۔
انوار ایک پڑھا لکھا لڑکا خوبرو سمجھدار اور عزت دار خاندان سے تعلق
رکھتا تھا۔اس کی کیا مشغلے کیا ایکٹیویٹیس ہیں صاحبہ نہیں جانتی تھی۔لیکن اس کو یہ
اندازہ تھا اس کی گفتگو سے کہ یہ باشعور اور عزت دار خاندان سے تھا۔لیکن کبھی کبھی
غلطی ہر انسان کرلیتا ہے۔انوار خوشاب اور صاحبہ ملتان کی رہنے والی تھی دونوں ملک
فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔صاحبہ کی ایک کلوز دوست کی وجہ سے اس کی ایک چھوٹی سی
شرارت سے ان کے درمیان کچھ پل کا دوستی کا ریلیشن بنا تھا اور پھر ٹوٹ گیا۔انوار
نے صاحبہ کو ایک بلیک میلنگ کیس سے بچایا تھا۔جس سے صاحبہ کو بلیک میل کیا جاتا
اور خواہشات دھمکی کی بیس پر گھر والوں کو کال کردونگا۔نیٹ پر تصویریں ڈال رہا
ہوں۔میری یہ بات مانو وغیرہ اس قسم کے مسائل سے بچایا اور انوار کی وجہ سے صاحبہ
کی عزت محفوظ ہوگئ۔صاحبہ انوار کا احسان مانتی تھی۔ ور اس کی بہت عزت دل سے کرتی
تھی۔اور ہمیشہ اس کو دعاؤں میں یاد رکھتی تھی۔تو وہ پل ختم ہونے کے کافی
عرصے بعد انوار کا میسج آیا تھا۔تو اسکو خوشی بھی ہوئی اور حیرانگی بھی۔۔لیکن ہوا
کیا وہی مفاد پرستی وہی خود غرضی۔ کچھ دن تک بات ہوتی رہی بہت مختصر پلوں میں پھر
سے جذبات بیدار ہوئے پھر صاحبہ اس کو بہت عزت احترام دینے لگی لیکن بہت جلد ہی
بغیر بتائے آیا تھا اور بغیر بتائے چلا گیا۔ صاحبہ صرف سوچتی ہے اور انتظار کرتی
ہے کہ شاید کچھ پل کےلئے ہی سہی پھر کبھی لوٹ کر آئے گا