ڈائجسٹ روشن ستارہ | اگست 2021| سیریز2

 


 


 1۔حافظہ کوثر خورشید ساس اور بہو

2.کومل ناز دریا ننگل ہم اور ہماری محبتیں

3.سنبل شہزادی پاکستان آزاد ہے

4.عشرت صدیق ملتان ہم ایک ہیں

5.حمنا افضل سیالکوٹ۔تھوڑا سا پیار کےلئے

6۔فاطمہ کنیز  بہاولنگر۔جو چلے گئے جاں سے گزر گے7.قرات العین اسلام آباد  غزل

8 ۔ فرخندہ سلیم کشمیر نظم

9.زینب امجد عوان  دوستی

10

عائشہ کنول سیالکوٹ مراکیوال

11.نورین یوسف نو شہرہ اندھیری رات کے مسافر

12.عائشہ سلیم اسلام آباد  تلاش

13. مہرالنساء بکھرا آشیانہ

14.ملیحہ محبوب   کہانی

15.ماہ نور  پچھتاوہ

16انعم شہزادی راولپنڈی دوستی

17۔شمع انوار سیالکوٹ  میٹھی کسٹرڈ

18۔فرزانہ کوثر بیوٹی ٹپس

19ستارہ منیر بہترین دوست

20۔ چوہدری زاہد جٹ مستقبل

21۔ملک مصور نواز سمیجہ   کاش

22. آمنہ منیر کبیروالہ الله کے رنگ

ساس اور بہو

حافظہ کوثر خورشید (رحیم یار خان)

 

ساس اور بہو کے جھگڑے آجکل عام ہوگئے ہیں روز کوئی نہ کوئی نیا واقعہ نٸی بات سننے کو ملتی ہے ساس اور بہو کی  شادی کی تیاریاں چل رہی ہوتی ہے تو ساس کہتی ہے میں اپنی بہو کو بہو نہیں بیٹی بنا کے رکھوں گی اور بہو بھی یہی کہتی ہے کہ میں بھی اپنی ساس کو ماں کا درجہ دو گی پر ایسا کچھ نہیں ہوتا یہ تو صرف باتیں ہی ہوتی ہیں اور یہ باتیں ہی رہ جاتی ہے نہ ساس ویسی  رہتی ہے نہ بہو رہتی ہیں آے دن کسی نہ کسی بات کو لے کر کسی نہ کسی کام کو لے کر روز   جھگڑے ہوتے رہتے ہیں پہلے تو بہو کو کوئی حکم نہیں ہوتا کہ وہ شادی کے بعد اپنے ساس اور سسر کی خدمت کر رہی ہے تو  غنیمت سمجھیں ہو آپ کا سارا کام کرتی ہے دنیاوی کام کے ساتھ ساتھ وہ دین کے کام بھی کرتی ہے نماز پڑھتی ہے قرآن پڑھتی  ہےآپ لوگوں کو سب کچھ بتاتی ہے میری بہو نماز پڑھتی ہے قرآن پڑھنے سب کچھ کرتی ہے لیکن گھر کے کام نہیں ٹھیک سے کرتی برتن ایسے دھو دیے کپڑے ایسے دھو دیے گھر کے کام اچھے نہیں کرتی اگر وہ سب کچھ کر رہی ہے تو گھر کے کاموں میں آپ کا بھی تو حق بنتا ہے نہ کہ آپ اس کا ساتھ دیں اگر ساس بہو کو بیٹی بنا لیں تو یقین مانے یہ جو دنیا میں جھگڑے  فساد سب ختم ہو جاے سب ایک جیسے نہیں ہوتے ہیںں اگر ایک اچھا نہیں ہے تو دوسرے کو صبر کرنا چاہیے ایک بول رہا ہے تو دوسرے کو چپ کر کے سننا چاہیے جہاں ساس بہو اپنے گھر کا ماحول سیٹ کرنے میں لگے ہوتے ہیںوہاں دوسرے لوگ آکر ان کو ایک دوسرے کے خلاف کی باتیں کر دیتے ہیں ہر وقت ایک دوسرے سے پھر جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں پتا نہیں کیوں لوگ  دوسروں کو ان کی زندگی میں خوش نہیں رہنے دیتے اپنی جلن حسد میں بسا بسایا گھر دوسروں کا برباد کر دیتے ہیں دیکھے جو ایسا کرتے ہیں خود بھی کبھی خوش نہیں رہتے بہو کا گھر اس کا سسرال  ہے ساس بہو کو بیٹی بنا کر رکھے اس کو کبھی یہ  محسوس نا ہونے دیں کے وہ اپنا گھر چھوڑ کر آٸی ہے پھر بہو کو بھی ایسا کرنا چاہے وہ بھی ساس کو اپنی ماں سمجھے  ان کی خدمت کرے اور ان کی ہر خواہشات کو پورا کریں یہ بھی  بہو کی اپنی مرضی ہوتی ہے   خیال رکھیں یا نہ رکھیں لیکن اگر کوئی رکھ رہا ہے آپ کا خیال تو اس کو غنیمت سمجھے  بہوسے پہلے ایک بیٹی ہوتی ہے کیا بیٹی اپنے ماں باپ کی خدمت نہیں کرتی ان کی خواہشات  کو پورا نہیں کرتی  بالکل اسی طرح بیٹی بن کر ساس اور سسر کی خدمت کرے تو وہ گھر جنت سے کم نہیں ہوگا  ہم دنیا میں ایسا کام کرے کے ہمارے والدین کو ہم پر  فخر کرے اکثر لڑکیاں کہتی ہے ہم گھر کے کام کیوں کرے  میری تو اتنی تعلیم ہے یہ ہے وہ ہے میں گھر کے کام کیوں کرو جہاںسب ٹھیک ہوتا نظر آرہا ہوتا ہے اس بات پر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اس سے بہتر ہے بہو بیٹے کو شادی کے بعد الگ کر دینا چاہے  بیٹے اگر چاہے تو روز ماں مل آیا کرے اور ہفتے میں ایک بار بیوی بچوں کو بھی ملوا آیا کرے  ایسے ایک دوسرے کے لے محبت بھی بڑھے گی اور عزت پیار احترام بھی بڑھے گا


ہم اور ہماری محبتیں

 

کومل ناز(دریا ننگل)

 

یہ دور ہی ایسا جدید ہے ہر دوسرے بندے کو محبت ہو جاتی ہے ہر کوئی محبت کا روگ لیے بیٹھا ہے۔ محبت کے ماتم میں کئی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں اور کئی خاندانوں کی عزتیں پامال ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسا بے معنی اور فضول نشہ ہے یہ جس کا بربادی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس لفظ کا استعمال کر کے ہزاروں معصوموں کو بے وقوفوں کی طرح زندگی سے بیزار کر دیا جاتا ہے۔ اور کئی دوسروں کو جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے اس محبت کی وجہ سے!!!!!!!

محبت کرتے کیوں ہیں؟ محبت ہوتی کیوں ہے؟ کیا تمہارے جذبات، احساسات اتنے کمزور ہیں کہ تم انہیں قابو نہیں کر سکتے؟ کیا تمہارے ماں باپ نے تمہیں کسی کی محبت کی خاطر ان کی نافرمانی کے لیے پیدا کیا ہے؟ کیا تمہیں ماں باپ کی عزت سے زیادہ محبت کی پرواہ ہے؟ کیا اوقات کیا ہے تمہاری اس محبت کی تمہارے ماں باپ کے سامنے وہ ماں باپ جنہوں نے اپنا اب کچھ تمہارے لیے لگا دیا تم آج اسی کو دھتکارتے ہو اس محبت کے لیے؟ ہاں ٹھیک ہے تمہیں محبت ہے تم کسی کو پسند کرتے ہو تو اپنے ماں باپ کو بتاؤ وہ جو فیصلہ کریں اسے دل و جان سے قبول کرو ان کے حکم پر عمل کرو وہ تمہارا برا نہیں سوچیں گے۔ وہ تمہاری بربادی میں خوش نہیں ہوں گے۔ یہ محبت تمہارے ماں باپ کی عزت سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ اپنی محبت اپنے ماں باپ پر نچھاور کرو وہ جنہوں نے اپنی ساری محبتیں تم پر نچھاور کی ہیں۔ ماں باپ کا ہر فیصلہ اولاد کے لیے غلط نہیں ہوتا۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہماری سوچ اس حد تک محدود رہ گئی ہے کہ ہم اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں نہیں کیسے کر سکتے ہو تم اپنے فیصلے خود؟ نہیں کر سکتے۔ یہ دو دن کی محبت کا جو بھوت سوار ہوتا ہے نا جب دو دن کے بعد اترتا ہے تو عقل ہوش میں آتی ہے پھر ساری محبتیں سارے احساسات، جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔ تم اپنی محبت کو اتنا سستا کیوں کرتے ہو کہ تمہیں کسی سے بھی محبت ہو جائے اپنے جذبات پر قابو رکھنا سیکھو گے تو محبت نہیں ہو گی۔ اور زندگی بھی خوش گوار ہو گی۔ کسی قسم کا کوئی خوف مسلط نہیں ہو گا۔ آزاد زندگی گزار سکو گے تم۔

میں نے اکثر سنا ہے کہ جب محبت ہوتی ہے تو انسان کے بس میں کچھ نہیں رہتا انسان مدہوش ہوتا ہے اور بس پاگل سا ہو جاتا ہے۔ ارے کیوں؟؟ تم اپنے ہوش و حواس کو برقرار نہیں رکھ سکتے کیا؟ کیا تمہیں اپنے آپ پر یقین نہیں ہے۔ یہ آج کل ہر دوسرے بندے کو یہ معاملہ پیش آرہا ہے۔ ہر کوئی اس مرض کا شکار ہے۔ آپ کے ماں باپ نے آپ کو اپنی زندگی میں کامیاب بنانے کے لیے بہت محنت کی ہے ان کی محنت کو یوں ہی رائیگاں جانے دو گے؟؟؟ ان کے خوابوں کو ک دو گے؟؟ ان کی امیدوں پر پانی پھیر دو گے؟؟ ان کے ساتھ اس طرح زیادتی کرو گے؟؟ انہوں نے اپنا سکھ تم پر لٹایا ہے اپنی خوشیاں تم پر نچھاور کی ہیں اب تمہیں ان کی ان قربانیوں کی لاج تو رکھنی ہو گی نا اپنی محبتوں کو اپنے ماں باپ کا پابند بناؤ صرف تاکہ تم قلبی سکون اور عزت پا سکو۔

 

پاکستان آزاد ہے

(سنبل شہزادی)

 

آج صبح جب آمنہ کی  آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ ہر گلی محلے کو سجایا جا رہا ہے۔ ہر گھر میں روشنی چمچما رہی تھی۔بچے اپنے پیشانی پہ سبز ہلالی پرچم لپیٹے ہوئے تھے۔ ہر جگہ سے خوبصورت نغموں کی آوازیں آرہی تھیں۔ گلی میں بچے نعرے لگاتے گزر رہے تھے کہ پاکستان ہمارا ہے۔ پاکستان آزاد ہے۔آمنہ نے امی سے پوچھا کہ امی یہ سب کیا ہے اور کیوں ہر جگہ کو سجایا جا رہا ہے۔ امی نے بتایا کہ بیٹا کل چودہ اگست ہے۔وہ دن جس میں حق کی جیت ہوئی تھی۔جس دن مسلمانوں کو آزادی حاصل ہوئی تھی۔ اس دن ظلمت کے اندھیروں نے دم توڑا تھا۔اور بہار کی آمد کا ڈنکا بجا تھا۔ اس دن صرف ایک وطن نہیں آزاد ہوا تھا بلکہ اس دن انصاف کا بول بالا ہوا تھا۔حقدار کو اس کا حق ملا تھا۔ آمنہ نے امی سے فوراً پوچھا کہ امی آپ سب کہتے ہو کہ پاکستان آزاد ہوا تھا اور مسلمانوں کو آزادی ملی تھی تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھی غلام رہ چکے ہیں۔کیونکہ آزادی تو غلام کو ملتی ہے۔ امی آمنہ کے اس سوال پر مسکرائی اور بولی ارے نہیں بیٹا! اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان کسی کہ غلام تھے یا ان کو کسی کی غلامی میں رہنا پڑا تھا۔ بیٹا مسلمان کہتے ہی اس کو ہے جو حق پر ڈٹ جانے والا ہو۔ جو شکست کو کامیابی میں بدل دے ۔  مسلمان اسلام لانے والے کو کہتے ہیں۔ اور اسلام ہمیشہ غالب رہا ہے۔ثابت قدم رہا ہے۔ جو مر سکتا ہے لیکن جھک نہیں سکتا۔ اسلام ہمیشہ سربلند رہا ہے۔بلکل اسی طرح مسلمان کبھی جھکتا نہیں ہے اور نہ ہی کبھی جھکا ہے۔ اور جہاں تک بات آزادی کی ہے تو وہ صرف اسی کو ملتی ہے جو اس کا حقدار ہوتا ہے۔ اور اس کا حقدار صرف پاکستان تھا۔ کیونکہ غلام کو جو ملتی ہے وہ آزادی نہیں ہوتی وہ رہائی ہوتی ہے۔ جو اسے  سزا کاٹنے کے بعد ملتی ہے۔لیکن اس سے اس کی پہچان نہیں بدلتی۔ پھر چاہے وہ غلام ایک فرد ہو، یا ایک ملک، یا پھر ایک ملت۔ وہ چاہے شخصی طور پر تو رہا ہو جائے لیکن اس کی ذہنیت میں وہی غلامی ہوتی ہے۔جبکہ پاکستان کو اسلام نے آزادی بخشی ہے جو ذہنی اور شخصی دونوں طرح سے آزاد ہے۔ جو جانتا ہے کہ آزادی تلوار یا جنگ سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ آزادی خود اور دوسروں کو بھی آزاد رکھنے سے ملتی ہے۔ بیٹا آزادی ایک ایسا منصب ہے جو نہ تو ہر کسی کو ملتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی چھین سکتا ہے۔

بیٹا کبھی آپ نے غور کیا کہ سب لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان 14 اگست کو وجود میں آیا۔ کیونکہ وجود میں وہی چیز آتی ہے جسکی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ جس کا اپنا وجود اپنا مقام ہوتا ہے۔اور ہم سب پاکستان کا وجود ہیں۔ اور ہم اپنی صلاحیتوں سے اس کا مقام اور عزت بڑھاتے ہیں۔ہمارے ادارے چاہے وہ سول ہو یا فیڈرل صرف اسی جذبے سے کام کرتے ہیں کہ پاکستان کا نام روشن ہو۔ہمارے جوان ہر وقت سرحدوں پر کفن باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔کہ کوئی انکے وطن کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔یہ وہ آزادی ہے جو کسی کی خیرات میں دی ہوئی نہیں ہوتی۔ بلکہ اللہ کی طرف سے انعام ہو۔اور اللہ صرف حقدار کو اس کا حق دیتا ہے۔

بیٹا!  یار رکھنا آزادی صرف ایک بار ملتی ہے اور جو بار بار ملے وہ رہائی ہوتی ہے۔رہا وہ ہوتا ہے جو قید میں ہو اور آزاد وہ ہوتا ہے جو حقدار ہو۔


ہم ایک ہیں .....!!!!!

عشرت صدیق ( ملتان )

 

ارحم اور شاہ زین باتیں کرتے ہوٸے اسکول گیٹ سے باہر آ  رہے تھے ۔۔یار اس بار بھی اعلیٰ ترین فنکشن ہونا چاہیے ۔ارحم نے شاہ زین سے کہا

تم بالکل بھی فکر نا کرو سب کچھ بہترین ہو گا ہرسال کی طرح اس سال بھی ہماری دھوم مچے ۔۔گی شاہ زین نے ارحم کی بات کا جواب دیا ۔

اچھا چلو پھر کل سے آغاز کرتے ہیں تاکہ تیاری وقت پر ہو سکے اور کوٸی مسٸلہ بھی نا ہو ۔ارحم نے شاہ زین کو کہا ۔

اتنی دیر میں دونوں ک چمچماتی ہوٸی کار ان کے سامنے آکر رکی اور دونوں اپنی گاڑی میں سوار ہو کر منزل کی جانب روانہ ہو گٸے ۔ارحم اور شاہ زین دونوں اچھے دوست اور اچھے ہمساٸے تھے ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے اور ہفتم جماعت میں تھے جس وجہ سے دونوں میں اچھی دوستی ہو گٸی دونوں اچھے اور پوش علاقے میں رہاٸش پذیر تھے اچھے کھاتے پیتے گھرانے کے چشم و چراغ تھے جس وجہ سے ارحم میں کافی غرور تھا وہ اپنے علاوہ کسی کو کچھ نا سمجھتا تھا غریبوں سے تو اسے عجیب سے چڑ اور خدا واسطے کا بیر تھا ۔اس کے برعکس شاہ زین نرم دل اور خدا ترس انسان تھا ۔

چودہ اگست قریب آ رہی تھی جس وجہ سے ان کی کالونی کے اور بھی بچے ان کے ساتھ ہر سال فنکشن کرتے تھے اور اس کی تیاری کے لیے ایک مہینہ پہلے ہی ساری پلاننگ کرتے تاکہ پوری کالونی میں ان کے فنکشن کا چرچا ہو جاٸے ۔

اسی کالونی کے باہر کوارٹر بنے ہوٸے تھے جہاں مڈل کلاس لوگ اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوٸے زندگی گزار رہے تھے ان گھروں میں ایک گھر علی کا بھی تھا جہاں غربت نے ڈیرے ڈالے ہوٸے تھے اور علی کی ماں بہت مشکلوں سے اپنا اور علی کا پیٹ پال رہی تھی ۔علی بہت ذہین اور ہونہار بچہ تھا اس  نے پانچ جماعت ہی پڑھی تھی کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا اور علی کی  تعلیم ادھوری رہ گٸی جس کی حسرت روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی اور وہ ہر روز کالون کے کارنر پر کھڑے ہو کر ان امیر بچوں کو دیکھتا جوروز نٸی گاڑیوں میں سکول جاتے تھے علی ان کو دیکھ کر آہ بھرکر رہ جاتا ۔اس بار علی کا دل شدت سے چاہ رہا تھا کہ وہ بھی ان بچوں کے ساتھ چودہ اگست کی تیاریوں میں حصہ لے جھنڈیوں سے پوری کالونی کو سجاٸے لیکن ایسا ممکن نا تھا۔

دوسری طرف شاہ زین اور ارحم نے اپنے گھروں مں فنکشن کی بات کی دونوں کے والدین نے اجازت دے دی

یار لسٹ بنالی تم نے ۔۔؟؟؟؟؟؟ارحم نے شاہ زین سے پوچھا

ہاں تقریباً سارا کام ہو گیا ہے ریحان کمپیٸرنگ کرے گا

سیان تلاوت کرے گا ۔

مواحب کو نعت پڑھنے کا کہا ہے ۔۔۔

آیان ریان سفیان مزمل فاٸق اور باقی سب کو ٹیبلو کے لیے میں نے کال کر دی ہے ۔۔شاہ زین نے ارحم کو تفصیلی جواب دیا۔

اچھا تمہارا کام تو ہوگیا اب یہ بتاو کہ 14 اگست کےحوالے سے تقریر کون کرے گا ۔۔؟؟؟ ارحم نے بیزاریت سے پوچھا ۔

کیا مطلب کون کرے گا ارحم ہر سال کی طرح اس بار بھی تم ہی کرو گے ۔۔شاہ زین نے حیرت سے ارحم کی شکل دیکھتے ہوٸے کہا ۔

نہیں میں نہیں کروں گا تمہیں پتہ ہے شاہ زین مجھے اردو سے کتنی نفرت ہے مجھے یہ تقریر  وغیرہ کرنا بالکل بھی پسند نہیں ہر بار تو جیسے تیسے کر لیتا ہوں لیکن اس بار مجھ سے امید نا رکھنا کہ میں یہ کام کروں گا ۔ارحم نے نفرت سے کہا ۔

ارحم تو پھر کون کرے گا ؟؟؟ شاہ زین نے پریشانی سے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوٸے کہا ۔

مجھے نہیں پتہ ۔۔ارحم نے لاپرواہی سےکندھے اچکاتے ہوٸے کہا ۔

اچھا ۔۔۔۔شاہ زین نے کچھ سوچتے ہوٸےکہا اور پھر جواد کا کال کی۔

ہیلو جواد کیسے ہو ۔۔؟؟؟ تم سے ایک کام تھا یار شاہ زین نے فون کان سے لگاتے ہوٸے کہا۔

مں ٹھیک ہوں شاہ زین بتاو کیا کام تھا اگر مجھ سے ہو سکا تو میں ضرور کروں گا جواد نے جواب دیا۔

یار تمہیں تو پتہ ہےنا 14 اگست کے لیے ہم کتنی محنت کرتے ہیں اس فنکشن کےلیے اب تمہیں تقریر کرنی ہے کیونکہ ارحم نےمنع کر دیا اس بار اب بتاو کرو گے نا ورنہ ہماری بہت سبکی ہوگی ۔۔شاہ زین نے جواد کو بتایا ۔

چلو ٹھیک ہے تم مجھے بتا دینا کیسے تقریر کرنی ہے میں کوشش کروں گا تم پریشان نا ہو ۔۔۔جواد نے مسکرا کر کہا ۔

جواد میری آدھی پرشانی تم نے ختم کر دی شکریہ دوست ۔۔یہ کہ کر شاہ زین نےفون بند کر دیا ۔

سب مل کر تیاریوں میں مصروف ہو گٸے علی یہ سب کچھ دیکھ کر بہت اداس تھا اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بھی 14 اگست کی تیاری کرے رنگ برنگے کپڑے بیج جھنڈیاں سب کچھ خرید لے لیکن سواٸے دکھ کے وہ کچھ نا خرید سکتا تھا آنکھوں میں آنسو لے کر وہ گھر میں داخل ہوا ۔

علٕی میرا بچہ میری جان تم رو کیوں رہےہو ۔۔؟؟؟علی کی امی نے تڑپ کر علی سے پوچھا ۔

کچھ نہیں ماں : کالونی میں 14 اگست کی تیاریاں دیکھکر دل بھر آیا ۔کیا ان سب پر ہمارا کوٸی حق نہیں ہے ؟غریب کی بھی کیا زندگیہوتی ہے ہر چھوٹی چھوٹی چیزوں اور خوشیوں کےبلیے سسکنا پڑتا ہے ۔علی نے بے دردی سے آنکھیں رگڑ ڈالی ۔

نا میرا بیٹا ایسے نہیں کہتے اللہ بہت بڑا ہے وہ بہت رحیم ہے کیوں پریشان ہو رہے ہو میں لاوں گی اپنے بچے کے لیے جھنڈیاں پھر اپنے گھر کو اچھی طرح سجا لینا اچھا ۔۔علی کی ماں نے پیار سے ماتےپر بوسہ دیکر کہا لیکن علی جانتا تھا کہ ماں کےپاس اتنے پیسے  کہاں کہ وہ یہ سب کچھ خرید سکے ایک ٹھنڈی آہ دل سے خارج ہوٸی اور وہ سونے کےلیے لیٹ گیا ۔دن گزرتے جا رہے تھے فنکشن کی تیاریاں اپنے عروج پر تھی پوری کالونی کو برقی قمقموں جھنڈے جھنڈیوں سے سجایا گیا ماٸیک ڈیک اور بوفر کا انتظام کیا گیا تاکہ کالونی سے باہر بھی فنکشن کی دھوم ہو سکے ۔ارحم اور شاہ زین نے اپنی کالونی میں گلی کے اندر فنکشن کا انتظام کروایا اسٹیج میز کرسیاں  اور کھانے کا بہترین مینیو تیار کروایا اور شہرکے سب بڑے معزز مہمانوں کو مدعو کیا تاکہ وہ بھی اس فنکشن سے لطف اندوز ہو سکیں۔آخر 14 اگست کےدن کا آفتاب طلوع ہو ہر طرف گہما گہمی تھی شاہ زین اور ارحم نے  انتظامات کا جاٸزہ لیا اور فنکشن شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ریحان نے کمپیٸرنگ سروع کی تلاوتِ قرآان کے بعد نعت پڑھی گٸی اور پھر ٹیبلو شروع ہوا تو ش زین نے دیکھا کہ جواد ابھی تک نہیں آیا شاہ زین نے جواد کو کال ملاٸی تو اس کا نمبر بند جا رہا تھا پریشانی سے شاہ زین کےماتھے پر پسینہ نمودار ہوا کیا ہوا شاہ ۔۔۔؟؟؟سب ٹھیک تو ہے کوٸی پریشانی تو نہیں ۔۔؟؟ارحم نے شاہ زین سے پوچھا۔

یار جواد کا نمبر بند جا رہا ہےتقریر اسی نے کرنی تھی اگر وہ نا آیا تو ہم کیا کریں گے۔۔۔؟؟؟شاہ زین نے پریشانی س ٹہلتے ہوٸےکہا ۔۔

اوہ اب کیا ہو گا ۔۔؟؟ ہمارے پاس تو کوٸی اور بھی نہیں جو تقریر کر سکے۔۔۔ارحم نے کہا ۔

اتنی دیر میں ٹیبلو ختم ہو گیا اور ماٸیک میں جواد کو پکارا جانے لگا کہ وہ آٸے اور تقریر کرے لیکن جواد ہوتا تو وہ آتا نا ۔۔یہی سوچ سوچ کر دونوں کا برا حال تھا کہ اب ہماری بے عزت ہو کر رےگی ۔۔

اتنے میں ماٸیک سے ایک نرم دل کو چھو لینے والی آواز گونجی ۔۔

السلام علیکم ۔۔۔

میرے مکتب ساتھیو ! دوستو اور معزز مہمانانِِ گرامی ۔۔۔

مجھے آج جس موضوع پر لب کشاٸی کا موقع ملا ہے وہ ہے " آزادیِ پاکستان "

میں اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کرنا چاہوں گا ۔۔

 

پرچم وطن کا ہم کو ہے جان سے بھی پیارا

آنکھوں کا اجالا یہ چاند اور ستارا

 

پیارے ساتھیوں 14 اگست کا دن ہماری آزادی کا دن ہےیہ وہ دن ہے جب ہمیں غلامی کی زندگی سے نجات ملی تھی یہ دن ہمارے بڑے بزرگوں نے اپنے خون کی قربانی سے ہمیں عطا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریر ابھی جاری تھی کہ سب دم سادھے اس جوش و ولولہ سے لبریز محبِ وطن بچےکو یک ٹک دیکھ رہے تھے جس کی سانسیں بھی اپنے وطن سے محبت کا عملی نمونہ پیش کر رہی تھیں تقریر کے دوران بھی اس بچےکا جذبہ دیکھنے لاٸق تھا جسے دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ اپنے وطن سے محبت کی خاطر اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرے گا ۔ایسا انداز بیاں ایسی محبت ایسا جوش اس کالونی میں کبھی دیکھا نا گیا تھا ۔۔

آخر یہ ہے کون ۔۔؟؟

شاہ زین اور ارحم مبہوت ہو کر اس بچے کی تقریر سن رہے تھے اور شاٸد آج پہلی بار ان کے دل میں وطن کی سچی محبت جاگی تھی ۔۔تقریر اپنے اختتام کی جانب گامزن تھی

جب اس بچے نے یہ شعر پڑھ کر اپنی تقریر کو ختم کیا ۔۔

 

اے میرے محبوب وطن تجھ پر اگر ہو جاں نثار

میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہِ تن

 

تالیوں کی گونج  سے شاہ زین اور ارحم ہوش میں واپس آٸے اور انہوں نے دیکھا کہ سب اس بچے کو بہت مبارکباد دے رہے ہیں اس کی تعریف کر رہے ہیں تب وہ دونوں بھی اس بچے کے پاس گٸے اور گلےمل کر اس سے خوشی کا اظہار کیا ۔۔

تمہارا نام کیا ہے۔۔؟؟ ارحم نے پوچھا

علی ۔۔۔دوسرے بچے نے جواب دیا ۔۔

جی میں علی ہوں اس کالونی سے باہر بنے کوارٹر میں رہاٸش پزیر ہوں میں روزانہ دیکھتا تھا کہ چودہ اگست کی تیاریاں ہو رہی ہیں لیکن غریب ہوں اس لیے میں اس تیاریوں میں اس فنکشن میں حصہ نہیں لے سکتا تھا آج بھی جب تقریر کے لیے جواد کا نام لیا گیا اور وہ نا آیا تو مجھ سے رہا نا گیا اور میں آپ لوگوں کی اجازت کے بغیر تقریر کے لیے پہنچ گیا جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں ۔۔علی نے شرمندگی سے کہا ۔

نہیں نہیں ۔۔۔دونوں یک زبان ہو کر بولے ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ ہم تمہارے شکر گزار ہیں اگر تم نا آتے تو ہماری بہت سبکی ہوتی اور آج کی اس تقریر نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں کہ کوٸی امیر غریب نہیں ہوتا اللہ کی نظر میں سب لوگ برابر ہیں ۔۔اب ہمیں پتہ چلا کہ اصل محبت کیا ہوتی ہے ہم تو ہر سال سواٸے دکھاوا کے کچھ نہیں کرتے ہماری بس یہی سوچ ہوتی تھی کہ سب ہماری واہ واہ کریں لیکن ہم غلط تھے دیکھاوا کرنے سے زیادہ ہمارے عمل میں اخلاص ہونا چاہیے ہمارے دل میں اپنے وطن کی سچی اور پکی محبت ہونی چاہیے تاکہ ہم اپنے ملک کی حفاظت کر سکیں اس کا حق ادا کرسیکں!!!

شاہ زین نے علی سے کہا ۔

آج سے ہم دوست ہیں ٹھیک ہے ۔۔؟؟ارحم نے علی کی طرف ہاتھ بڑھایا جسے علی نے کشمکش میں تھام لیا اور ان کا شکریہ ادا کیا ۔۔

تینوں باتیں کر رہے تھے جب ارحام نے کہا علی اپنے بارے میں کچھ بتاو علی نے آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ مختصراً اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا جسے سن کر ان دونوں کو بہت افسوس ہوا اور دونوں نے اک فیصلہ کیا کہ وہ علی کی پڑھاٸی کا خرچا اٹھاٸیں گے تاکہ علی پڑھ لکھ کر اپنے لے کچھ کر سکے اپنے خوابوں کو پورا کرسکے ۔دونوں نے علٕی کو اپنے فیصلے سے آگاہ کیا علی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے جنہیں ارحم اور شاہ زین نے صاف کیا اور اسے گلے لگایا  اور کہا علی رو مت ہم سب ایک جیسے ہیں ہم ایک وطن کے سپاہی ہیں ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے ۔اور کسی کو کیا پتہ کہ غریب کی کٹیا میں بھی ہیرا پیدا ہوتا ہے تم جیسا جو اپنے وطن سے  اتنی عقیدت اور محبت رکھتا ہے ۔



عنوان :  تھوڑا سا پیارکے لئے

نام: حمنا افضل(سیالکوٹ)

ہرانسان ایک سا نہیں۔ ہر ایک انسان کی زندگی میں مختلف موڑ آتے ہیں۔ کچھ انسان بہت لکی ہوتے ہیں۔کی انہیں ہر طرف سےمحبت ملتی ہے۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں۔جن کو کہی سے محبت اور کہی سے نفرت۔اور کچھ ایسے ہوتے ہیں۔ جن کو کہی سے محبت مل تو رہی ہوتی ہے۔لیکن ان کے مطابق نہیں۔وہ انسان ایسے پیار کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ جیسا وہ خود کرتے ہیں۔ اج ایسی ہی یہ کہانی ہے۔ جس میں ایک لڑکی جو بہت معصوم بہت سادی۔جس کا نام نورولحیاء تھا۔جو زندگی کی ایسی تلخیاں برداشت کر چکی تھی۔ کہ زندگی اگے جینا نہیں چاہتی تھی۔ پراک اچھی لڑکی ہونے کی وجہ سے وہ الله کا صبروشکر کر کے زندگی گزار رہی تھی۔نور انٹر کی طلبہ تھی۔ اور اچھی طلبہ تھی۔جو ہر کسی کے ساتھ اچھےتعلقات رکھتی۔اورسب سے اچھی طرح پیش آتی۔اسی دوران نورکی دوستی کچھ ایسی لڑکیوں سے ہوئی۔جو غلط راستے پر تھی۔لیکن نوراس سب سےبےخبرتھی۔جب نور آہستہ آہستہ ان میں گھل مل گی۔تو ان لڑکیوں کی حقیقت نورپر ظاہر ہونا شروع ہوئی۔لیکن نوراب ان لڑکیوں سے اتنا کھل مل گی تھی۔کہ ان کو چھوڑ نہ سکی۔تو اپنی سوچ کے مطابق اس نے فیصلہ کیا۔کہ وہ جیسی بھی ہیں۔ ہے تو اس کی دوستے۔تو نور نے ان کی باتے سنانا۔اور ان کو کبھی کبھی سمجاتی بھی۔ کہ یہ لڑکوں سے دوستی ان کے لیے بہتر نہیں۔ لیکن وہ اس  کی باتوں کو مزاق میں اڑا دیتی۔اور اپنی باتے جاری رکھتی۔ اب اک ایسا وقت ا گیا۔کہ نور کو بھی عادت ہو گئی۔ان کی پیار بھری داستانیں سنےکی۔اور نور کبھی گھر میں بھی ان کے بارے میں سوچتی۔ تو اک دن اچانک اس ک ذہین میں ایا۔ کہ وہ یہ سب کرتی ہے۔ اتنا پیار ملتا ہے ان کو ایک دوسرے سے ایک دوسرے کا اتنا خیال کرتے ہیں۔تو شاید جسا پیار میں  چاہتی ہو مجھے  بھی اس سب سے مل جائے ۔نورہمشہ ایسا پیار چاہتی جسا وہ خود کرنے کی خواہش رکھتی تھی۔تو اس نے سوچا۔میرے بھی ساتھ کسی کو ہونا چاہئے۔جو مجھے پسند کرے۔میرا خیال رکھے۔میں بھی اس کی باتے کروں۔یہ سب سوچ ہی رہی ہوتی ہے۔تو اذان کی آواز نور کے کانوں میں آتی ہے۔اور نور فورا ان خیالات کی دنیا سے نکل کر وضو کی طرف لپکتی ہے۔اور پھر نماز ادا کرتی ہے۔اور نماز کے بعدنور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے ۔کچھ یوں کہتی ہے۔" اے میرے رب تیرا شکر ہے.تونے مجھے ان برے وسوسوں سے باہر نکالا.اور اپنی محبت یاد دلائی. ورنہ میں بھی دنیاوی محبت کے دریا میں ڈوب جاتی. یا اللہ تیرا شکر ہے. تو نے مجھے اپنی محبت عطا کی. جس کے مقابل کوئی محبت نہیں.اور میرے لیے تیری محبت ہی بہتر ہے. اور یوں نورنے پھر آہستہ آہستہ ان لڑکیوں سے کنارہ کشی کرنا شروع کی. اور رب سے اپنے لیے دعا کرتی رہی.اور پھر انٹر کے بعد نور کے گھر والوں  نے اس کی شادی  کر دی. جہاں اس اتنا پیار ملا. جو سب نور کے یقین کی وجہ سے تھا جو اس نے اپنے رب پر کیا تھا۔اور وہ ہی پیارومحبت والی زندگی ملی۔جس کی وہ اپنے رب سے دعا کیا کرتی تھی۔:


افسانہ

عالیہ رحمان

آج وہ کافی عرصے بعد خود کو بہت ہلکا ہلکا محسوس کر رہی تھی وجہ بہت خوبصورت تھی اور وہ یہ کہ اس نے اپنے رب کے آگے سرنڈر کر دیا تھا افسانہ نام تھا اس کا اور وہ بی اے کی طالبہ تھی اسے بچپن سے ہی پاکستان ایر فورس میں جانے کا شوق تھا اسی وجہ سے وہ ہمیشہ خود کو ایکتو رکھنے کی کوشش میں لگی رہتی اس نے بہت محنت کے جدوجہد کی.................. اسے لگتا تھا وہ سب کر سکتی ہے لیکن ایسا نہیں تھا...... عین ٹیسٹ کے دن اس کا ایکسیڈنٹ ہوتا ہے اور اسکا بازو ٹوٹ جاتا ہے.............

 

تب اسے بے اختیار رب یاد آتا ہے. پہلے جب وہ زندگی کا مقصد لیے ہوئے تھی تب اس نے رب کو یاد کیا اس سے دعائیں مانگی لیکن آج کچھ منفرد تھا آج اس نے رب کے حضور حاضر ہو کر صرف اتنا کہا اے میرے رب میں کمزور ہوں تو تو نہیں... میں بے بس ہوں تو تو نہیں....... پھر اس نے بستر پر لیٹے ہی رب کے آگے سر نڈر کیا..... اور کوئ مقبولیت کا وقت تھا کہ دعا سن لی گئی اور اسے اس کے ایکسیڈنٹ کی مصلحت بھی سمجھ آگئی کہ جس بیس میں ٹیسٹ ہونا تھا وہاں 

: وہا ں پہ ٹیسٹ کی ڈیٹ ایکسٹند کر دی گئی........

وہ بہت جلد ہی ریکور کر گئی اور ٹیسٹ بھی پاس کر لیا.... لیکن اس ایکسیڈنٹ نے اسے وہ عطا کیا جو شاید وہ اس دن کے ٹیسٹ دے حاصل نہ کر پاتی............

 

 

ایک خوبصورت احساس.. رب کے ہونے کا..... کیونکہ ہم ااسے مانتے تو ہیں پر اس کی نہیں مانتے................

حاصل کلام :

جہاں ہیں جیسے ہیں اس سب کو قبول کریں اس میں ہی سکون ہے اس کے علاوہ رب کے آگے سرنڈر کرنے میں کبھی دیر نہ کریں (اللہ مجھ پر بھی کرم رکھے آمین)

اس کو بتاین ہر بات اور سب سے بڑھ کر اپنے کمزور ہونے کو بھی تسلیم کریں کیونکہ انسان بہت کمزور ہے.... ارتغفل ڈرامے میں ایک بہت خوبصورت بات کہ اے اللہ ہمیں لگتا ہم سب کر سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے آپ کے بس میں سب کچھ ہے.. ہم نے صرف کوشش کرنی باقی تو جان اور تیرا کام........ تو چلیں سب مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیشہ ہمیں ہدایت دے اور اپنا کرم کرے... خاص طور پر استاد محترم کے لیے اور میڈم کے لیے دل سے دعا ہے کہ اللہ ان کو بہت سی خوشیاں دے.... اور ان پہ کرم کرے..... کسی جے صدقے مجھے بھی اور میرے معاملات کو بھی سنوار دے...... آمین..



کہانی کا عنوان : " جو چلے تو جاں سے گزر گئے"

                    

فاطمہ کنیز (بہاولنگر)

کیپٹن معاذ کو جیسے ہی کال آئی وہ اٹھے یونیفارم پہنا اور جانے کی تیاری شروع کردی۔تیاری کے ساتھ ساتھ وہ ماں سے باتیں بھی کررہے تھے۔

ماں میرے ہم وطنوں کو میری ضرورت ہے۔دُشمن کی طرف سے مسلسل فائرنگ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جان کو خطرہ ہے۔ماں اطمینان سے اپنے لختِ جگر کی باتیں سُن رہی تھی۔ ماں  نےاپنے بیٹے کو ماتھا چوم کر رخصت کیا۔

اپنے وطن کی حفاظت کے لیے پرعزم کیپٹن معاذ لوگوں کو حفاظتی مقامات تک پہنچانے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک گولی ان کے بازو سے ٹکرائی لیکن درد کی شدّت بھی کیپٹن صاحب کا حوصلہ پست نہ کرسکی۔وہ اسی طرح اپنے وطن کے لوگوں کی حفاظت میں مصروف رہے۔ان کے تمام ساتھی انہیں آرام کا مشورہ دے رہے تھے لیکن وہ یہ کہہ رہے تھے کہ میری ایک جان ان لاکھوں لوگوں کی جان سے  زیادہ  قیمتی نہیں ہے۔وہ اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے۔اچانک کیپٹن معاذ کی نظر ایک معصوم بچی پر پڑی جو اتنی چھوٹی تھی کہ اپنے پاوُں پر چل بھی نہیں سکتی تھی۔اس کے پاؤں کے پاس پڑا بم دیکھ کر وہ اس کی طرف لپکے ۔بم اٹھاتے ہی وہ  جنگل کی طرف دوڑ پڑے تاکہ اس بم کے پھٹنے سے پہلے وہ اسے لوگوں سے دور لے جائیں۔سب لوگ حیرانی کے عالم میں انہیں دیکھ رہے تھے لیکن وہ اپنی جیپ پر سوار ہو کر وہاں سے نکل گئے لوگ ان کے اس رویے پر ناراض ہونے کی بجائے پریشان تھے کہ اچانک ایسا کیا ہوا جو کیپٹن معاذ یہاں سے اتنی جلدی میں چلے گئے ۔اتنے میں کہیں دور سے کسی دھماکے کی آواز سنائی دی  لوگ اس آواز کی سمت دوڑے ۔ فوجی جوان لوگوں کو وہاں جانے سے روک رہے تھے لیکن لوگ کیپٹن معاذ کانام  لے رہے تھے فوجی افسران نے لوگوں کو سمجھایا کہ ہم خود وہاں پہنچتے ہیں ۔ لوگوں کو وہاں سے دوسرے مقامات تک منتقل کیا۔ جنگل میں فوجی جوان ہر طرف کیپٹن معاذ کو آوازیں دے رہے تھے لیکن اس دھماکے کہ بعد جنگل میں سناٹا چھا گیا تھا نہ کسی پرندے کی آواز آرہی تھی نہ ہی کسی جانور کی ۔ کیپٹن معاذ کا دوست بشیر  چلایا  گاڑی مل گئی۔ کیپٹن صاحب کو  گاڑی میں سے باہر نکالا گیا ۔ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ آسمان کی سمت دیکھ رہے تھے جیسے اپنے مالک کا شکر ادا کررہے ہوں۔ اس شجاعت مند نوجوان کے جسدِ خاکی کو فوجی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا ۔اور انہیں نشانِ حیدر سے نوازا گیا۔ماں کی آنکھیں نم تھیں لیکن وہ اس بہادر کی ماں ہونے پر اپنے رب کا شکریہ ادا کررہی تھی۔ماں کو آج اپنا آپ عظیم لگ رہا تھا کہ جس کا بیٹا اپنے وطن کی خاطر جان قربان کر کے اپنی وفا کا ثبوت دے گیا تھا۔


میں ہوں تیرا خیال ہے اور چاند رات ہے

قراةالعین (اسلام آباد)

میں ہوں تیرا خیال ہے اور چاند رات ہے

دل درد سے نڈھال ہے اور چاند رات ہے

 

آنکھوں میں چبھ گئیں تری یادوں کی کرچیاں

کاندھوں پے غم کی شال ہے اور چاند رات ہے

 

ان جگنووں کی روشنی مدھم سی کیوں ہوئی؟

شبنم کا یہ سوال ہے اور چاند رات ہے

 

پھر تتلیاں سی اڑنے لگی دشت خواب میں

پھر خواہش وصال ہے اور چاند رات ہے

 

میرےخیال نے ہے تجھے روبرو کیا

موسم بھی لا زوال ہے اور چاند رات ہے

 

ہر اک کلی نےاُوڑھ لیا ماتمی لباس

ہر پھول کو ملال ہے اور چاند رات ہے

 

میرے وجود میں تری خوشبو سی بس گئی

اس پر تیرا خیال ہے اور چاند رات ہے

 

چھلکا سا پڑ رہا ہے قراةؔ وحشتوں کا رنگ

ہر چیز پے زوال ہے اور چاند رات ہے


نظم

فرخندہ بنت سلیم (چکار آزاد کشمیر)

 

خدا کرے محبت ملے تجھے۔

اور بے انتہا توں چاہے اسے

کہ دن رات مانگے اسے

بن دیکھے توں سو نہ پائے

صبح اٹھے تو دیدار کرے

لڑ پڑے دنیا سے بھی

کوئی اس کے خلاف جو بات کرے

رب سے مانگے اس کی خوشیاں

اپنی خوشیاں اس پہ قربان کرے

مخلص ہو توں اتنا اس سے

جھوٹ پہ بھی توں تڑپ پڑے

پھر ہو یوں ساتھ تیرے

وہ تجھ سے دور ہو

تیری ہر بات پہ اختلاف ہو

تیری خوشیاں بھی اسے قبول نہ ہوں

تیری منزلیں اسے راس نہ ہوں

تیری ہو جب کوئی آرزو پوری

وہ تیری آرزو کو بدعا دے

تیری محبت پہ وہ شک کرے

تیرے کام اسے سب حرام لگیں

توں گناہ گار لگے توں بے کار لگے

تم جو اسے آواز دے کے

کچھ کہنا چاہو

وہ تم پہ زبان کا ایسا زہر اگلے

کہ تم زمین بوس ہو

سانس رکے اور بولنا چاہو

آنسو گلے میں اٹکیں اور تم یاد کرو

بہت پہلے کسی کو لفظوں سے ایسے ہی قتل کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"دوستی"

زینب امجد آعوان

شہر سیالکوٹ (گاؤں بھگوال آعوان)

 

"دوستی دنیا کا سب سے    انمول اور خوبصورت لفظ ہے"

"خوبصورت اخساس ہے"

خوبصورت اور انمول رشتہ ہے

دوستی بلند مقام رکھتی ہے

دوستی پر خلوص ،پر اعتماد اور سچی ہو تو وہ بھی جینے کی وجہ اور امید کے بہت سے چراغ روشن کر دیتی ہے۔

دوستی بے لوث محبت کا  وہ رشتہ ہے جس میں کوئی غرض شامل نہیں ہوتی۔

دوستی کا رشتہ بیچ چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔

دوستی بہت یقین کا رشتہ ہے جسے کبھی توڑنا نہیں چاہیئے۔

 

دوستی خیسا رشتہ نہ ہو تو دلوں میں امنگیں ختم ہو جائیں۔

دوستی دنیا کا سب سے انمول اور بے مول رشتہ ہے یہ رشتہ  بے خد خاص اور  بے لوث ہے

یہ رشتہ ہے انمول ہے۔۔


آخر کیوں سو گئے مقدر ہمارے

عائشہ کنول

سیالکوٹ (مراکیوال)

آخر کیوں سو گئے مقدر ہمارے

 

سنا تھا  میں نے کسی سے یہ پیارے

کہ رشتے تو  ہوتے ہیں سب ہی نیارے

مہکتے ہیں آنگن میں پھول یہ سارے

ہواؤں سے کرتے ہیں باتیں یہ تارے

بڑوں کو تھی شفقت بچوں سے ہمارے

تھے بچے ہمارے ادب کے گہوارے

علم کی عظمت کو پاتے تھے سارے

نکلتے تھے جگ میں روشن ستارے

مگر اب نہ رہے وہ معیار ہمارے

نہ رشتوں میں اب وہ نکھار پیارے

جو علم سکھاتے تھے اسلاف ہمارے

نہ جگ میں ہیں اب ایسے روشن ستارے

جو لہو گرم رکھے  اور جوش ابھارے

نہیں ایسا خون اب رگوں میں ہمارے

کنول بھی  سن کے یہ سوز پکارے

آخر کیوں سو گئے مقدر ہمارے


اندھیری رات کے مسافر

نورین یوسف

نوشہرہ کینٹ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات اپنی سیاہ زلفیں کھولے انگڑائیاں لے رہی تھیں۔

اسد اور سمیرا چھت پر بیٹھے  تھے ان کی نظریں ستاروں کا تعاقب کر رہی تھیں۔

اگلے لمحے سمیرا اسد سے مخاطب ہوئی۔

"اسد وہ دیکھو آسمان پہ سب سے روشن دو ستارے وصل کے مزے لوٹ رہے ہیں۔"

" اسد شرارت بھرے لہجے میں ان کا ساتھ بھی ہماری طرح عمر بھر کا لگتا ہے"

سمیرا گم صم ان کی جانب تک رہی تھی۔

اسد کو الجھن سی محسوس ہوئی تو اس نے سمیرا کی کلائی کو دبایا۔

سمیرا کے منہ سے ننھی سی چیخ نکلی۔

ایک خاص اداۓ دلبرانہ سے سمیرا نے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا۔مگر اسد کی گرفت اس کی کلائی پر مضبوط تھی۔

"سمیرا کیا تم نہیں چاہتی کہ میں یہ ہاتھ عمر بھر کے لیے تھام لوں؟"

سمیرا  لاپرواہی سے"تھام سکتے ہیں مگر میری ایک شرط ہے۔"

اسد کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑھ گئی۔"تو اب ساتھ دینے والے شرائط پر محبت نبھائیں گے۔"

"اسد محبتیں خراج مانگتی ہیں تمہارے لیے میری جان بھی حاضر مگر اس بار تمہاری باری ہے۔"

اسد کو سمیرا کی بات زہر لگی۔

"تو تم سمجھتی ہو میں نے تمہارے لیے کچھ نہیں کیا؟"

"بہت کچھ کیا ہے مگر میں تمہارے ساتھ بیرونِ ملک جانے پر راضی نہیں اب کی بار تم قربانی دو یہاں اپنے ملک میں رہ کر ہنسی خوشی رہ لیں گے آخر تم اتنے تعلیم یافتہ ہو تمہیں عزت کی نوکری مل جاۓ گی"

"میں کسی صورت بھی پاکستان نہیں رہ سکتا"

سمیرا کے چہرے پر افسردگی چھا گئی۔بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔

"اسد میرے لیے بھی نہیں رہ سکتے؟"

اسد اس کی پرواہ کیے بغیر بولا۔

"باکل بھی نہیں"

"کیا میری محبت کی اتنی ہی اہمیت ہے؟"

" اس میں محبت کہاں سے آگئی ہے؟رہنے کا فیصلہ صرف میں ہی کر سکتا ہوں اور تمہاری شرط پر میں اپنا کیریئر برباد نہیں کرسکتا"

سمیرا کے ذہن میں اسد کی بارہ برس کی محبت کی فلم چلنے لگی۔

اسد نے سمیرا کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا وہ انتہائی کرب محسوس کر رہی تھی۔

اسد جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو

سمیرا اسے تکتی رہ گئی۔

سمیرا نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تو ان دو ستاروں میں سے ایک ٹمٹما رہا تھا دوسرا اسد کی طرح آنکھوں سے اجھل ہوگیا تھا۔


نظم:تلاش

عائشہ سلیم (اسلام آباد)

بند مکاں کے اندر کھڑکی کے پاس کھڑے

میں باہر کی رونقیں دیکھتے

نا جانے کس یاد میں کھو جاتی ہو

گلی میں گزرتے ہر انسان کے چہرے کو دیکھ

میں ایک لمبی سانس خود میں کھینچتی ہوں

اور ایک سوچ میں گر سی جاتی ہوں

کیا یہ سب انسان اپنی زندگی سے

اتنے ہی مطمئن ہیں

جتنے وہ نظر آ رہے ہیں یا پھر

انہوں نے بھی چہروں پہ

خوشی کاخول چڑھا رکھا ہے۔

کیا میرے علاوہ دنیا کا ہر انسان خوش ہے

یا پھر ان کے اندر بھی کہیں

دکھوں کا اک جہاں بستا ہے

یہی سوچتے ہوئے

میں گھنٹوں باہر سے گزرنے والے

ہر انسان کے چہرے کو پرکھنے لگتی ہوں

لوگوں کے قہقہوں کو محسوس کرنے لگتی ہوں

اور پتا ہے

یہ جانچ لینے کے بعد میرے اندر

درد کی اک لہر سی دوڑ جاتی ہے

میرے وجود میں اک اضطراب سا پیدا ہو جاتا ہے

کیونکہ یہاں موجود ہر انسان نے

اپنے چہرے پہ اطمینان کا ایک خول چڑھا رکھا ہے

ہر انسان میری طرح اندر سے ویران جنگل کی مانند

 کھالی اور اجڑا ہوا ہے

ہر شخص اپنے اندر اک قبرستان لیے ہوئے ہے

جس میں اس نے اپنی خوشیوں کو دفن کر رکھاہے

لیکن دنیا کے سامنے اپنی انا کا بھرم رکھنے کو

اپنی ذات کا غرور قائم رکھنے کو

ہر شخص بے جان قہقہے لگاتا نظر آتا ہے

 حقیقت تو یہی ہے کہ ہم خود سے

تھک ہار کر خود کو کہیں

اس جہاں میں کھو چکے ہیں

جسے ڈھونڈتے ہم صدیوں کا سفر بھی تہ کر لیں

لیکن اپنی ذات کو نا پا سکیں گے

کیونکہ

دکھوں کی اس بھیڑ میں

ہم جان ہی نہیں پاتے کہ

کب کہاں کس جگہ ہم نے اپنی ذات کو کھویا ہے

اور یہ اپنی ذات کی تلاش

آخری سانسوں تک جاری و ساری رہتی ہے

گمنام، ہزاروں دکھوں کو سینے میں لیے ہی

انسان اس تلاش میں منوں مٹی تلے سو جاتا ہے

ہاں وہ کہیں بہہت دور کھو جاتا ہے

مہرونساء

مدھریا نوالہ کالر

تحصیل کامونکی ضلع گوجرانوالہ

 


بکھرا آشیاں

مہرونساء

مدھریا نوالہ کالر

تحصیل کامونکی ضلع گوجرانوالہ

وہ بچپن کی یادیں وہ مہکتےہوئےدن                 

کہیں کھو گئ ہماری ہسی اور چھوڑ گئ روتا ہوا 

   

وہ چڑیوں کا اِک جو آشیانہ تھا چہچہاتا ہوا            

اب اُڑ گئ سبھی چڑیاں کر گئ تنکا تنکا

                  

وہ جہاں دیے جلتے تھے خوشیوں کے                 

  اب کر گئے ہیں غموں کی انتہا    

          

خدا سے دعا گو ہوں اے مہر                          

خدا پھر بھی سلامت رکھے اس آشیاں کو


مجھے فخر ہے بیٹی ہونے پر

ملیحہ محبوب(سرگودھا)

 آبروآج چچی کو بابانےزبردست جواب دیاـ "آ پ کہتی ہیں میری  بیٹی کتنی بے شرم، بدلحاظ اورمنہ پھٹ ہے جو اُس نے  مجھ سے اپنی پسند کا اظہار کر لیا ـ اس دنیا میں خدا کے بعد ایک بیٹی اپنے باپ کے زیادہ قریب ہوتی ہے ـ  جب بیٹی اپنی ہر چھوٹی خوشی کے بارے میں  اپنے باپ کو بتاتی ہے تو اپنی زندگی کی اتنی بڑی خوشی کے بارے میں کیوں نہ بتائے ـ ایک اچھا باپ ہونے کے ناتے میں  اپنی بیٹی کےہر فیصلے میں اُس کے ساتھ کھڑا ہوں "ـ قسم سے، مجھے فخر ہے بیٹی ہونے پرـ


"پچھتاوا" (افسانہ)

از قلم: ماہ نور حسین، حیدرآباد

 

      بیٹا اٹھو! دروازہ بند کر لو۔ رضیہ جلدی جلدی چیزیں سمیٹتے ہوئے اپنے بیٹے کو جگا رہی تھی۔ جو ابھی صرف دس سال کا تھا۔ اور بےخبر مزے سے سو رہا تھا۔ جب رضیہ نے اسے زور سے جھنجوڑ کے جگایا۔ جی اماں! سونے دے نا۔ کاشف نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔ لیکن اماں کو تیار دیکھ کر جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ اماں توُ اتنی صبح کہاں جا رہی ہے؟  بیٹا آج صاحب کے ہاں مہمان آرہے ہیں۔ بڑی بیگم صاحبہ نے آج جلدی بلایا تھا۔ وہیں جا رہی ہوں۔ اب تو بھی جلدی سے اٹھ کے ہاتھ منہ دھو لے۔ میں نے ناشتہ بنا دیا ہے۔ کھا کے تم بھی کام پہ چلے جانا۔ اماں منا اب کیسا ہے؟  کاشف نے اپنے چھوٹے بھائی کے بارے ميں پوچھا۔ ارے تو کیا پوچھتا ہے۔ ساری رات بخار میں تپتا رہا ہے۔ آج باجی سے بات کرتی ہوں کچھ پیسوں کی۔ تاکہ منے کو ڈاکٹر کے پاس لے جا سکوں۔ ٹھیک ہے اماں تو جا فکر مت کر، میں آج زیادہ غبارے بیچنے کی کوشش کروں گا۔ تاکہ منے کی دوائی آجائے۔ اماں بیٹے کو دیکھ کر نم آنکھوں سے باہر نکل گئیں۔

                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاشف آج بھی پارک کے باہر اپنی مخصوص جگہ پہ بیٹھا سوچوں میں گم تھا کہ کوئی اللہ کا بندہ آئے گا جو اس کے غبارے خرید کر اسے مشکل سے نکال لے گا۔ ایسے میں ایک مرسڈیز پارک کے سامنے رکی۔ گاڑی کا ہارن سنتے ہی کاشف کے چہرے پہ رونق آگئی۔ گاڑی سے ایک آدمی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ اترا۔ کاشف بےساختہ بھاگ کر گاڑی کے پاس چلا گیا۔ "بیگم صاحبہ بیگم صاحبہ یہ غبارے خرید لو۔ منا کھیلے گا" پہلے تو آدمی نے بچے کو ڈانٹ کے دور کر دیا۔ مگر کاشف کے دماغ میں تو اپنے منے کی دوائی سوار تھی۔ سو وہ دوبارہ ضد کرنے لگا۔ "بیگم صاحبہ خرید لو مجھے پیسوں کی ضرورت ہے"۔ ذریعہ معاش کی خاطر ایک دس سال کا بچہ اپنے کھیلنے کی عمر میں کھیلونے بیچ رہا تھا۔ اسی دوران عاطف گاڑی پارک کر کے واپس آگیا۔ اور اس نے کاشف کو ڈانٹ کے بھگا دیا۔ کاشف مایوسی کے عالم میں اپنی آستین سے نم آنکھیں پوچھتا واپس جا بیٹھا۔ جب وہ اپنے بھائی کی دوائی کے لیے اپنے دماغ میں جوڑ توڑ کر رہا تھا۔ بائیک پہ ایک آدمی نے کاشف کو ہلایا۔ بیٹا کتنے کا ہے؟  کاشف نے چونک کر دیکھا جی، جی صاحب جی 30 کا ہے۔ اچھا دو دے دو۔ کاشف کی خوشی کا تو ٹھکانہ ہی نہ تھا۔ اس نے پھرتی سے دو غبارے بچوں کے ہاتھ میں تھما دیئے۔ اور جیسے ہی آدمی نے اسے 60 روپے دئیے اس کا چہرہ مارے خوشی کے دمکنے لگا۔ وہ مطمئن تھا کہ کم از کم منے کی ڈاکٹر کی فیس ادا ہو جائے گی۔ سورج ڈھلتے ہی اس نے گھر کا رخ کر لیا۔ گھر پہنچا تو دیکھا ماں بھائی کے سر پہ پانی کی پٹیاں رکھ رہی تھی لپک کر ماں کے پاس گیا۔ اماں کیا ہوا منا زیادہ بیمار ہے؟  کاشف میں بس تمھارا انتظار کر رہی تھی۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے کے چلتے ہیں۔ ٹھیک ہے اماں میرے پاس ساٹھ 60 روپے ہیں۔ ہم جلدی چلتے ہیں۔ ہاں مجھے بھی بیگم صاحبہ نے پانچ سو روپے دیئے ہیں۔ رضیہ منے کو گود میں لے کر جلدی سے باہر نکل گئی اور کاشف ماں کے پیچھے چل دیا۔

             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر واپس آکر رضیہ بے انتہا پریشان تھی۔ منے کے علاج کے لیے کم از کم ایک ہزار روپے درکار تھے۔ اس نے کاشف کو بلا کر کہا کہ اگر یہ دوائی منے کو نہ دی تو اس کی طبیعت زیادہ خراب ہو جائے گی۔ اور اب تو باجی نے بھی پیسے دینے سے منع کر دیا ہے۔ اور اگر میں نے ان سے ایک بھی روپیہ مانگا تو وہ مجھے نوکری سے نکال دیں گی۔ یہ سن کر کاشف فکر مند ہوا۔ مگر اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے ماں کے آنسوں صاف کر کے بولا!  "تو فکر کیوں کرتی ہے اماں کاشف ہے نہ، دیکھنا میں کل سارے غبارے بیچ کر آؤں گا۔ تو ہم دوا خرید لیں گے۔ پھر منا ٹھیک ہو جائے گا"۔

          صبح کاشف سویرے ہی جاگ گیا۔ اور روز کی نسبت زیادہ غبارے پھلانے میں مصروف تھا۔ جب رضیہ ناشتہ لے آئی۔ بیٹا پہلے ناشتہ کر لو۔ ہاں اماں کرتا ہوں۔ اماں دیکھو آج میں نے کتنے سارے غبارے پھلائے ہیں۔ کاشف خوش ہو رہا تھا۔ بس اماں دعا کرنا کہ سارے بکِ جائیں۔ آمین بیٹا۔ کاشف ناشتا کر کے آج خلافِ معمول جلدی گھر سے نکل گیا۔

              ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کاشف آج پھر پارک کے سامنے ایک نئی امید کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک اسے کل والی مرسڈیز نظر آئی۔ اس نے بے ساختہ دوڑ لگا دی۔ گاڑی سے صنوبر اپنے بیٹے کے ساتھ اتری۔ کاشف ان کے پاس پہنچ کر بہت التجائیہ انداز میں کہا: "باجی غبارہ خرید لو۔ میرا بھائی بیمار ہے۔ اس کی دوا لینی ہے۔ اتنے میں عاطف قریب آتے ہوئے دکھائی دیا۔ اس نے کاشف کو پرے دھکیلتے ہوئے کہا دور ہو جاؤ۔ آئندہ قریب مت آنا۔ جب لینا ہوگا تو خود آؤں گا۔ اور صنوبر کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ کاشف آواز لگاتا رہا۔ صاحب خرید لو۔ اگر منے کو دوا نہ ملی تو وہ مر جائے گا۔ مگر کاشف کو ذرا فرق نہ پڑا۔ صنوبر نے عاطف سے کہا۔ ہو سکتا ہے سچ میں اس کا بھائی بیمار ہو، تو عاطف نے کہا کچھ نہیں ہوگا، یہ لوگ ایسے ہی جھوٹ بولتے ہیں۔ 

         کاشف کسی معجزے کے انتظار میں سارا دن گزار کر مکمل نہ میدی کے عالم میں گھر کی طرف بڑھ گیا۔ ابھی گلی میں داخل ہی ہوا تھا کہ اچانک ٹھٹک گیا۔ اس کے گھر کا دروازہ کھلا تھا اور رش لگا ہوا تھا۔ ماں  زور زور سے رو رہی تھی۔ کاشف کے ہاتھ سے غبارے کا ڈنڈا گر گیا۔ بھاگ کر گھر گیا تو دیکھا بھائی کا انتقال ہو چکا تھا۔ کاشف کو گہرا صدمہ پہنچا۔

             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تین دن بعد آج کاشف ایک بار پھر اسی پارک کے سامنے بیٹھا تھا۔ جب صنوبر گاڑی سے اتری تو عاطف سے باتوں میں مصروف تھی۔ اور اس بےدھیانی  میں اس کا بیٹا بھاگ کر سڑک کی طرف چلا گیا۔ جہاں بے تحاشہ ٹریفک رواں دواں تھا۔ کاشف نے اسے سڑک کی طرف بھاگتے دیکھ لیا تھا اس لیے اس نے بچے کے پیچھے دوڑ لگا دی۔سڑک پہ زور سے بریک لگنے کی آواز نے صنوبر اور عاطف کو چونکا دیا۔ جو اب پریشانی کے عالم میں اپنے بیٹے کو تلاش کر رہی تھی۔ اور پھر بدحواس ہو کے سڑک پہ بھاگی۔ مگر ان کا بیٹا کاشف کی بدولت محفوظ رہا تھا۔ صنوبر نے لپک کر بچے کو سینے سے لگا لیا۔ اور کاشف وہاں سے جانے کے لیے کھڑا ہوا تو ایسے میں عاطف نے کاشف کو روک کر خوشی سے اس کے سامنے پانچ ہزار روپے بڑھا دیئے۔  کاشف ان پیسوں کو حیرانی سے دیکھ رہا تھا تو عاطف نے کہا: رکھ لو تم نے ہمارے بیٹے کی جان بچائی ہے۔ یہ تمھارا انعام ہے۔ کاشف نے کہا ہم کسی کی جان بچانے کے پیسے نہیں لیتے۔ تو صنوبر آگے آئی اور کاشف سے شفقت سے کہا بیٹا رکھ لو۔ تمھارے بھائی کی دوائی آجائے گی۔ تو کاشف نے بےساختہ آنسوں روکتے ہوئے کہا: میرا بھائی اللہ میاں کے پاس چلا گیا۔ اب ان پیسوں کی ضرورت نہیں وہ آستینوں سے آنسوں صاف کرتا آگے نکل گیا۔ صنوبر اور عاطف پچھتاوے کے عالم میں گنگ رہ گئے۔ کہ انہوں نے بچے پہ یقین نہ کر کے ایک معصوم جان گنوا دی۔ اور اب دونوں بری طرح پچھتا رہے تھے۔


میٹھی کسٹرڈ سویاں

شمع أنور

سیالکوٹ (مراکیوال)

اجزاء

 

 ایک کپ رنگین سویاں

 ایک کپ چینی

دو الاچی

پچیس عدد بادام

 ناریل ایک ٹکرا

 کسٹرڈ دو چمچ

  ڑیرھ کلو رورھ

ترکیب

سب سے پہلے ہم دودھ کو ابالیں گے جب دودھ ابل جاے اس میں ایک کپ چینی ڑال دے گے اور ساتھ ہی اس میں الاچی بھی ڈال دیں گے ایک منٹ بعد سویاں  ڈال دیں گے اس کو ہم تین َسے چار منٹ تک پکائیں گے سویاں گل جائیے تو اس میں ہم دس عدد بادام ڈالیں گے  کاٹ کر تھوڑا سا ناریل ڈالیں گے اس کے بعد ہم نے کسٹرڈ ڈالنا ہے کسٹرڈ کو ہم نے پانی میں مکس کر کے دودھ میں ڈالنا ہے آہستہ آہستہ کسٹرڈ کو گاڑھا ہونے تک پکائیں گے چمچ کو لگاتار چلانا ہے ورنہ دودھ میں گٹھلیاں  بن جاے گی تین سے چاد منٹ تک  پکائیں گے زیادہ گاڑھا کسٹرڈ نہیں کرنا اب اسکو ڈش آوٹ کرے گے ایک شیشے کا بأول لیں گے اس میں کسٹرڈ ڈالیں گے اس کے اوپر ہم بادام گارنش کرے گے ساتھ میں ناریل ڑالیں گے اچھا سا ڈش آوٹ کر کے ٹھنڑا کر ے گے پھر مزے سے کھائیے

..

                                              

       چہرے کو سفید اور چمکدار بنائیں

                                                                         فرزانہ کوثر (لاہور)

چہرےکو سفیداور چمکدار بنانےکےلے انڈےکی سفیدی لیں اور اس کو چہرے پر لگانا ہے اور دس منٹ بعد چہرے کو دھونا ہے۔

ناخن ٹوٹ جاتے ہیں تو لہسن لیں اور ناخن پر لگانا ہے اور اس کو دس منٹ بعد دھونا ہے ایک ہفتے میں ناخن لمبے اور مضبوط ہو جائیں گے۔


بہترین دوست

ستارہ منیر(کبیروالہ )

 

دوست بناؤ لیکن کم بنائیں اور معیاری بنائیں۔ایسے دوست جو برے وقت میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوں۔ایسے مت بنائیں جن کی وجہ سے آپ کا سر جھکے بلکہ فخر سے بلند ہو۔ہمیشہ سچا دوست وہ ہوتا ہے جو آپکی عزت کرتا بھی ہے اور عزت کا خیال بھی رکھتا ہے۔اگر چند لوگ بیٹھے ہوں اور وہ وہاں موجود ہو آپ سے کوئی غلطی ہوجائے تو وہ آپکو سب لوگوں میں نہیں بلکہ اکیلے میں سمجھائے۔لوگوں میں آپکی پیٹھ پچھے آپکی خوبیاں بیان کرے اور خامیاں اکیلے میں بتائے۔سچا دوست ہمیشہ کندھے سے کندھا ملا کر چلتا ہے۔دکھ سکھ میں ساتھی بنتا ہے۔دوست کے درد کو اپنا درد سمجھتا ہے۔اور وہ دوست جو آپکی عزت کا خیال بھی نا کرے اور خود کو دوسر جتلائے تو وہ دوست دوست نہیں ہوتا۔یہ انسانی فطرت ہے۔ہر انسان جو کوئی نا کوئی ایسا انسان ملتا ہے جن کے خیالات ایک جیسے مل ملاپ رہن سہن طورطریقہ ایک جیسا ہوتا ہے یا ملتا جلتا ہے۔ان کے خیالات بھی ایک دوسرے کی طرف جاتے ہیں جس سے وہ ایک دوسرے کی عزت آبرو کا خیال رکھتے ہیں۔ کچھ دوست صرف دوست ہوتے ہیں اور کچھ دوست بہترین ہوتے ہیں۔جو بہترین دوست ہوتا ہے وہ ہر قربانی کےکئے تیار ہوتا ہے۔مخلص اور نیک دوست اپنے دوست کو سیدھے راہ پر چلانے کی کوشش کرتا ہے۔دکھ درد سکھ غمی خوشی کو ایک دوسرے میں محسوس کرتے ہیں۔ویسے تو ہر دکھ میں ہمارے کئ رشتے موجود ہوتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ لیکن بہترین دوست ایک ہستی ہوتا ہے جو دکھ میں رونے نہیں دیتا خوشی کے لمحات میں ان لمحات کو اور حسین بنا دیتا ہے۔ زندگی کے مقاصد کو خاص بنادیتا ہے۔بہترین دوست کی زندگی میں بہت قدر ہوتی ہے اک رونق ہوتی ہے۔


مستقبل

چوہدری زاہد جٹ (کبیروالہ)

ہم اور ہمارہ مستقبل۔ ہم اپنی ترقی کی سوچ بیچار میں رہتے ہیں۔یا اکثر اوقات تو ہم وقتی جو وقت گزر رہا ہوتا ہے صرف اسی کی پلاننگ کررہے ہوتے ہیں۔ نہیں ہمیں اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا چاہیے اور مستقبل کی پلاننگ کرنی چاہئے۔ جو ہم وقت گزر جانے کے بعد پلاننگ کررہے ہوتے ہیں یا وہ کام کار رہے ہوتے ہیں تو وہ ہمیں پلاننگ کرکے کے پہلے سے شروع کردینا تاکہ جب ہم نے بغیر پلاننگ کے شروع کرنا تھا وہ تب تک مکمل ہوجائے۔ مستقبل سنوارنے کےلئے اچھی سوچ اچھی فکر اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تیزی سے نہیں ہر کام آرام اور مکمل تحمل کے ساتھ کرنا چاہئے۔ آج کا کام کل پر چھوڑ دیں یا سست روی اختیار کی جائے لاپرواہی کی جائے تو ہم اس طرح کامیاب نہیں ہوسکتے جس کام کا ارادہ کیا جائے اس کو راستے میں چھوڑ کر پھر کسی دوسرے راستہ پر لگ جانے سے ہمیں ناکامی کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہی انسان کامیاب ہوتا ہے جس کے ارادے مضبوط ہوں۔


کاش

ملک مصور نواز ( کبیروالہ)

آج کل ہم سب اپنے منزل مقصود کی طرف جانے کی کوشش کرتے ہیں جلد پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جو بھی شارٹ کٹ راستہ اختیار کرکے جلد از جلد منزل تک پہنچنے کی کرتے ہیں چاہے اس میں ہمارہ نقصان ہی کیوں نا ہوجائے۔ہم سوچتے کیوں نہیں ہیں؟ جلدی بازی میں گرم کھانا کھا کر منہ جلا لیتے ہیں اسی طرح جلدی بازی میں ہم اپنے نقصان کرلیتے ہیں۔ کاش ہم ہر بات کو سمجھ سکے کاش ہم ہر اچھے برے کو سمجھ سکیں۔ اکثر اوقات ہم سمجھ کر اچھا برا پھر بھی اگنور کردیتے ہیں۔ اور بعد میں پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔ پچھتانے سے بہتر ہے کہ ہم جلد بازی سے بہتر ہے کہ ہر کام تحمل کے ساتھ کریں اچھے برے کا سوچ سمجھ کر کریں تاکہ ہم کچھ سیکھ سکیں۔


الله کے رنگ

آمنہ منیر (کبیروالہ)

ہم اللہ پاک سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ جب ہمیں ڈرایا جاتا ہے قبر سے عذاب سے تو ہم اللہ کی طرف جاتے ہیں۔ ہمیں اللہ کے ڈر سے نہیں الله کی محبت میں خود کو ڈھالنا چاہئے کہ اس کے ایک بلاوے پر ہم اس کی طرف دوڑتے جائیں۔ اس کے بےپناہ رنگ ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں الله کا شکر ادا کرنا چاہئے ہمیں اللہ پاک نے امت محمد میں پیدا کیا اور دوسرا قرآن پاک جیسی مقدس کتاب عطا کی۔ اللہ کے بے پناہ رنگ ہیں جس کو بیان کرنے سے ہمارے قلم قاصر ہیں۔ یہ سورج کا آنا جانا یہ چاند  تاروں کا آنا رات دن کا بدلنا یہ سب اس کے رنگ ہیں۔یہ بارش خالی آسمان سے آتی ہے یہ کیا ہے الله کے رنگ ہیں۔ جب ایک بیج لگایا جاتا ہے اس میں کونپل نکلتی ہے پھر پھول بنتا ہے یہ کیا یے یہ سب الله کے رنگ ہیں۔ ہمیں قدر کرنی چاہئے

 

5 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی