"آزادی بہت بڑی نعمت ہے"

 



فریحہ شبیر (ببرال)

               آزادی

مشہور معقولہ ہے"آزادی بہت بڑی نعمت ہے" یہ الفاظ میں نے 5 کلاس میں پڑھے تھے. یہ ایک کہانی کا عنوان تھا. جس میں فہد نام کا ایک لڑکا تھا اور اس کے پاس ایک چڑیا تھی جو قید میں تھی. فہد نے چڑیا کے سامنے دانہ اور پانی رکھا مگر اس نے کچھ بھی نہ کھایا.

 14 اگست کی صبح جب فہد کی آنکھ کھلی تو ہر طرف سبز رنگ کی جھنڈیاں نظر آئیں. سب بہت خوش تھے اور آزادی کا جشن منا رہے تھے. لیکن جب کونے میں پڑے پنجرے پر اس کی نظر  پڑی تو اسے اداس چڑیا کی طرف دیکھ کراحساس ہوا کہ چڑیا قید میں ہےاور اداسی کی وجہ سے  وہ دانہ دنکا نہیں کھا رہی. 

فہد نے جلدی سے پنجرہ کھولا اور چڑیا کو آزاد کر دیا.آزاد ہوتے ہی چڑیا زور سے پھڑ پھڑائی اور درخت پر جا بیٹھی. چڑیا خوشی سے چہچہا رہی تھی اور اپنی آزادی کا جشن منانے لگی. 

یہ کہانی شامل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آزادی کے معنی سمجھ میں آسکیں. آزادی کوئی عام سی چیز نہیں کہ اس کو چند لفظوں یا پیراگراف میں واضع کر دیا جائے بلکہ یہ ایک طویل داستان ہے جس آغاز محمد بن قاسم نے سندھ کو فتح کر کے کیا.

 برصغیر میں انگریزوں کی آمد سے لیکر پاکستان بننے تک، آزادی حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کا جو کردار وہ بہت اہمیت کا  حامل ہے. جس کو قطعاً فراموش نہیں کیا جاسکتا.ان کی جدوجہد، کوشش اور قربانیوں کی مرہون منت آج ہم آزاد ملک میں اپنی روایات کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں. 

پاکستان کو آزاد کروانے کا جو خواب علامہ اقبال نے دیکھا اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں بہت سے لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا. علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کے علاوہ چوہدری رحمت علی، سر سید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر، چوہدری لیاقت علی خان، ابوالکلام آزاد، سردار عبد الرب نشتر، راجہ غضنفر علی خان قابل ذکر ہیں. ان رہنماؤں کی سر پرستی میں مسلمانوں کی قیادت  اور رہنمائی کرنے والی واحد قومی پارٹی "مسلم لیگ" سر گرم عمل رہی اور  برصغیر کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا. 

ان سب رہنما اور لیڈروں کی آزادی کے لیے کی گئی محنت اس وقت ثمر آور ہوئی جب کانگریسی مخالفتوں کے باوجود "قرارداد لاہور"1940 میں متفقہ طور پر منظور ہوئی. اس قرارداد کو گانگریسی رہنماؤں نے طنزاً قرارداد پاکستان کہنا شروع کیا اور آخر کار ٹھیک سات سال بعد 14 اگست 1947 کو مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی اور پاکستان آزاد ہو گیا.

لیکن اگر موجودہ دور میں  پاکستان کے حالات کو دیکھا جائے تو ہمیں اس کا وہ مقصد فوت ہوتا دکھائی دیتا ہے جس کی بنیاد پر اسے آزاد کروایا گیا.

آزادی کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم جھنڈیاں لہرائیں اور آزادی کی آڑ میں اپنی مذہبی روایات اورمعاشرتی قدروں کو روندتے چلیں جائیں. 

تو یہ آزادی نہیں بلکہ مغربی تقلید اور ذہنی غلامی ہے.

آج اگر ہم اپنے بچوں سے آزادی کا مطلب پوچھ لیں تو ان کو اس سے زیادہ کچھ نہیں معلوم کہ اس دن نئے کپڑے پہن کر جھنڈے لہرانے کا نام آزادی ہے. یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر آزاد کروایا گیا آج وہی تنزلی اور پستی کا شکار ہے. 

اصل آزادی تو یہ ہے کہ ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کی بقا، استحکام اور ترقی و خوشحالی کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں اور حقیقی معنوں میں اسے قائد کا پاکستان بنائیں . دین اسلام کی اشاعت کے لیے کام کریں، پیارے ملک کی محبت اپنی نوجوان نسل کے دلوں میں پیدا کریں. ان کو اس بات کا احساس دلائیں کہ آزادی ساری رات موبائل چلانا اور دن بھر سونے کا نام نہیں ہے. بلکہ آزادی ایک قوت ہے جو کسی قوم کی کامیابی اور کامرانی کی ضمانت ہے.انہیں خواب غفلت سے بیدار کیا جائے اور احساس دلایا جائے کہ آزادی حق کے ذریعے ہر انسان پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے.

چونکہ چند دن بعد آزادی کا  مبارک دن آ رہا ہے تمام پاکستانیوں کے لیےیہ کامیابی اور خوشی کا دن ہے جسے  بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جائے گا اور  قیامت تک یہ قوم  اپنی آزادی کا دن مناتی رہے گی. انشاءاللہ! 

میری دعا ہے کی اللہ تعالٰی پیارے ملک کوہمیشہ شادوآباد رکھے اور اسے اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ فرمائے.... (آمین)

شکریہ! 

اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو.

آپ کی رائے

جدید تر اس سے پرانی