چھوڑ گیا وہ تو دل اداس کر گیا

Image by pixabay



 ستارہ منیر کبیروالہ

چھوڑ  گیا وہ تو دل اداس کر گیا

اپنی امیدوں کے دیپ بجھا کر نا گیا

مجھے ایسے کرگیا جیسا ویران کھنڈر

پھر بھی اہنی خوشبو اپنی مہک لے کر نا گیا

مجھے اب بھی انتظار سا رہتا ہے اس کے لوٹ کر آنے کا

وہ میری امیدوں کے جگنو جلا کر نا گیا

کیسے بچھڑا کس ادا سے بچھڑا آج تک سمجھ نا سکی اور وہ سمجھا کر نا گیا

کیسے بتاؤں اس کو بچھڑنے کے درد تھے 

جو سارے وہ میرے لئے بچا کر گیا

روٹھ گئ خوشیاں مجھ سے اس کے ساتھ ہی

وہ غم تو دے گیا  لیکن خوشیاں منا کر نا گیا

وہ نا آشنا نہیں تھا میرے درد سے

پھر بھی اپنی یادیں چھوڑ کر میری جھولی میں گیا

انہیں دفنا نا کر نا گیا

وہ اپنی امیدوں کے دیپ بجھا کر نہیں گیا

آپ کی رائے

جدید تر اس سے پرانی