"باپ اور بیٹی"(افسانہ )

 


مہرالنساء انور چندھڑ 

مدہریا والا کالر 

ضلع گوجرانوالہ 

        

3 جنوری کی ایک سرد شام جب عمل کے بابا ہاتھوں میں سوٹ کیس لیے گھر داخل ہو رہے تھے اس حال میں کہ وہ ماسٹری سے ریٹائرمنٹ حاصل کر چکے تھے ۔بابا سردی کی وجہ سے ٹھر ٹھرا رہے تھے اور آتے ہی آگ کے پاس بیٹھ گئے۔بابا کی گھر میں آمد ہوتے ہیں سب بچوں نے بابا کے اردگرد ہجوم بنا لیا اور سارے دن کے موضوع پرگفتگو   کرنے لگے  ۔باتیں کرتے کرتے رات گہری ہوتی گئی بابا نے سب کو شب بخیر کہا اور سب اپنے  اپنے بستر پر لیٹ گئے ۔رات آرام کرنے کے بعد بابا تہجد کے لئے اٹھے ۔تہجد ادا کرکے جب بابا بستر پر واپس جانے  لگے تو ان کے کانوں میں ایک ننھی پری کے رونے کی آوازیں پڑیں۔ یہ 4 جنوری کی سحری کا وقت تھا جب اللہ تعالی نے انہیں ایک ننھی پری سے نوازا ۔عمل کے بابا کی آنکھوں میں نمی ٹھہری ۔ہلکا سا مسکرا ئے اور آسمان کی طرف دیکھا  ہاتھ اوپر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی اس رحمت کا شکر ادا کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ آسمان پر صبح کی سرخی پھیلنے لگی ۔ رات کا گھپ اندھیرا صبح  کی ٹھنڈی روشنی میں بدلنے لگا ۔خوش قسمتی کا یہ عالم کے بابا نے خود اس ننھی پری کے کانوں میں آذان دی ۔عمل آہستہ آہستہ بڑی ہوتی گئی اور اس کے بابا اسے بڑا ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہوا کرتے تھے ۔اپنی اس خوشی کا اظہار کبھی ہلکی مسکراہٹ سے کرتے اور کبھی آنکھوں میں آنسو لیے ۔ عمل  اور اس کے بابا کے درمیان محبت کا رشتہ گہرائی پکڑتا گیا ۔نہ بیٹی باپ کے بغیر رہ سکتی اور نہ باپ بیٹی کے ۔بیٹی سارا دن اپنی شرارتیں بابا کو دکھاتی اور بابا اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ۔بابا کہیں چلے جاتے تو عمل بابا کی واپسی تک ان کی راہ تکتی ۔ عمل  اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے بابا کا جی بہلاتی رہتی اور بابا اس سے خوش ہوتے رہتے ۔دن بہت خوبصورت جا رہے تھے عمل کی اپنے بابا سے بے پناہ محبت اس کی زندگی کو خوشگوار بناتی رہی ۔ عمل اب بڑی ہو گئی تھی ۔ اسے اپنی پڑھائی کے لئے گھر سے جانا پڑا ۔ عمل اپنے بابا کے کہنے پر چلی تو گی لیکن وہاں دن رات  اپنے بابا کی یاد میں روتی رہتی ۔ادھر اپنی دعاؤں میں رخصت کرنے والے بابا  بھی عمل کے لیے بےچین رہتے ۔عمل  دن رات محنت کرتی تاکہ اپنی پڑھائی مکمل کرکے اپنے بابا کے پاس واپس  چلی جائے۔ عمل جب چھٹیوں میں گھر آتی تو اپنے بابا کے ساتھ کھیلتی ۔بے شک عمل بہت بڑی ہو چکی تھی لیکن اس کے بابا کے لیے وہی ننھی بچی تھی جس سے وہ اپنی گود میں اٹھایا کرتے تھے ۔ عمل جب واپس  چلی جاتی  تو وہاں سب سے اپنے بابا کی باتیں کرتی ۔ ایک دن عمل اپنی دوستوں کے ساتھ پڑھائی کے لیے بیٹھی تھی ۔ عمل کا  دل بہت بے چین تھا ۔  دل میں طرح طرح کے خیال اٹھ  رہے تھے ۔ عمل نے اپنی  دوستوں کو وہیں چھوڑا اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ اپنے رب کے آگے گڑگڑا کر دعائیں کرنے لگی ۔  چونکہ عمل نے اس ہفتے ہر ایک سے گھر جانے کو کہا لیکن کسی نے بھی اپنی مصروفیات کی وجہ سے اس کی بات پر توجہ نہ دی۔ دسمبر کی دوپہر عمل  اپنے بابا کے خیالات میں مصروف بیٹھی تھی۔وہ بھی انہی خیالوں میں گم تھی کےاچانک  اس کے فون کی گھنٹی بجی  ۔عمل  نے نہ چاہتے ہوئے فون اٹھایا اور اپنی پریشانی کو چھپاتے ہوئے اپنے بھائی سے باتیں کرنے لگی ۔ عمل کے بھائی نے اسے بتایا کہ اس کے بابا اب نہیں رہے ۔عمل کے ہاتھوں سے فون گرا اور عمل رونے لگی ۔ جیسے سکتے کی حالت میں ہو ۔ اس کی دوستیں اس سے پوچھنے لگیں لیکن عمل اپنے ہوش گنوا بیٹھی تھی ۔ یہ اس کی زندگی کی اندھیری شام تھی اس کی زندگی میں روشنی کا دیا بجھ گیا تھا ۔ عمل اپنے بابا کی یاد میں تڑپ اٹھی ۔  عمل دکھوں کی گہری گہرائی میں ڈوب گئی ۔ وہ بکھر کر  ریزہ ریزہ ہو گئی۔

اس کی زندگی کہ تمام اجالے  کالی اندھیری راتوں میں بدل گئے ۔لیکن پھر بھی اس نے اپنے بابا کے خوابوں کی تکمیل کے لیے دن رات محنت کی ۔ اکثر دل ہی دل میں بابا سے باتیں کیا کرتی تھی ۔ اور اپنی زندگی میں آگے بڑھتی رہی ۔ ایک بیٹی جو اپنے بابا سے بے انتہا محبت کرتی تھی ان کی جدائی کے بعد اپنے بابا کا عکس رو برو  رکھتے ہوئے ان  سے ہم کلام ہوتی ۔   

اللہ تعالی ہمیں بھی اپنے بڑوں کے نیک خوابوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے( آمین)۔

”میری روشنی میری  ٹھنڈک میرے بابا 

میری زندگی  میرا سکون میرے بابا 

میری کامیابی کے ہر قدم کی سیڑھی میرے بابا 

میرے دل کی ہر آرزو ہر تمنا  میرے بابا "

13 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی