مہرالنساء انور
مدھر یا والا کالر
ضلع گوجرانوالہ
یہ
بہاولپور میں شدید گرمیوں کی صبح
تھی۔ جب تانیہ کے کانوں میں اسکی ماں کے چییخنے کی آوازیں پڑی۔ تانیہ بلکتی ہوئی سسکتی ہوئی اپنے بستر سے اٹھی
اور دیکھتی ہے کہ اس کے چچا اس کی ماں کے گلے میں رسی ڈالی کھینچ رہے ہیں ۔ تانیہ جو کہ ابھی آٹھ سال کی چھوٹی بچی تھی ڈرتے ہوئے آگے نہ بڑھی ۔ تانیہ ایک معصوم بچی تھی جو
اپنی زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں سے ناواقف تھی ۔ جسے اپنی زندگی کا ہر رنگ خوبصورت و روشن دکھائی دیتا تھا ۔ جسے زندگی کی
مہکتی ہوئی خوشبوں نے اپنا دیوانہ کیا ہوا
تھا ۔ جو اپنی زندگی پریوں کی طرح ہواؤں میں اڑتی اور چڑیوں کی طرح چہچہاتے ہوئے
گزار رہی تھی ۔ جو مسکراتی رہتی تھی جیسے زندگی تو بس مسکرانے کا نام ہو ۔
جیسے زندگی میں چاروں طرف پھول ہی پھول ہوں ۔ کانٹے تو صرف کہنے کی باتیں ہوں۔ جیسے
تمام راستے ہموار ہیں ہوں۔ ان میں رکاوٹیں
بالکل بھی نہ ہو ۔ جس کی رگوں میں خوشیاں
سرایت کر چکی ہوں ۔ جیسے سب اپنے ہی ہو بیگانہ کوئی نہ ہو ۔ جس کی آواز میں
اپنائیت بس چکی ہو۔ جس کے دامن میں زندگی کی تمام مٹھائیوں کی مٹھاس میں نچوڑی جا چکی ہو۔ جس کی ماں اسے چھوٹی چھوٹی نادان
باتوں پر سمجھاتی رہی ہو . لیکن اس نادان کو کیا معلوم کے اس کی زندگی یوں پلٹا
کھائے گی کہ زندگی کے وہ صفحات جہاں صرف خوشیوں کی تحریر تھی اس کے غموں کی نمی سے
بھر جائیں گے ۔ اس کی معصومیت جس میں صرف خوشیاں تھیں وہ دکھوں کی دلدل کی گہرائی
میں پھنس جائے گی۔ جہاں صرف پھول تھے وہاں کانٹے اس کے آنچل کو چبھنے لگے گے ۔ جو
راستے تانیہ کو ہموار لگتے تھے وہاں کنکروں کی رکاوٹیں آ جائیں گی ۔ وہی تانیہ اپنی ماں کو مرتا ہوا دیکھ
کر اپنے آنسو رگوں میں چھپائے اپنے بستر
پر دوبارہ اکر لیٹ گئی ۔
یہ سب اس کی ماں کی تربیت تھی کے تانیہ
بے بسی کی حالت میں بھی کچھ نہ کہہ سکی۔ اس کی ماں کی موت کو ایک حادثے کے
طور پر اس کے سامنے پیش کیا گیا ۔ جب کہ تانیہ سب کچھ دیکھ چکی تھی ۔ وہ بیچاری دکھوں ماری کیا کہتی ۔ بس
زندگی کو نئے سرے سے شروع کیا ۔ یہی ننھی تانیہ اب زندگی سے واقفیت حاصل کرنے لگی۔
حالانکہ وہ بہت چھوٹی تھی لیکن اسے اس کی ماں کی وہ باتیں آج بھی یاد تھیں ۔ اس کی
ماں اسے اکثر کہا کرتی تھی کہ بیٹا زندگی میں ہارنا یا ٹوٹنا ضروری ہے ۔ ہارو گے
نہیں تو کامیاب کیسے ہوگی ۔ ٹوٹو گی نہیں
تو پھر سے مضبوط ڈوری میں کیسے باندھو گی خود کو۔ آج بھی تانیہ اپنی ماں کی باتوں کو سوچ
کر آنسو بہانے لگی ۔ اس کی ماں نے اس سے کہا تھا کہ بیٹا جیتنے کے لیے ہارنا ضروری
ہے ہارو گی نہیں تو جیتو گی کیسے۔ کیوں کہ
ہار ایک ایسی چیز ہے جو تمہیں تمہاری زندگی کے اتار چڑھاؤ بتائے گی ۔ تمہیں تمہاری
خامیاں بتائے گی ۔ ناکام نہیں ہوگی تو کامیاب کیسے ہوگی ۔ نکا میں وہ واحد چیز ہے
جس سے تم کامیابی کی سیڑھی تک پہنچ پاؤں گی ۔ بالکل اسی طرح کے اگر کوئی سیڑھی پر چڑھے اور چڑھتا جائے بغیر کسی مشکل کے تو اسے یہ کیسے پتہ چلے گا کہ وہ کہاں چڑھ رہا ہے جب تک کہ وہ اسی سے ایک دفعہ گر نہ
جائے ۔ جب کوئی ایک دفعہ گر جائے گا تو اسے اگلی دفعہ پتا ہوگا کہ پچھلی دفعہ اس
غلطی کی وجہ سے گرا تھا۔ اب اس سے اندازہ
ہو گا اور اس دفعہ وہ غوروفکر کرے گا ۔ اس کی ماں اسے اکثر کہا کرتی تھی کہ بیٹا کبھی ناکامی کو اپنی زندگی میں جگہ مت دینا ۔
ناکامیاں تو تمہیں کامیاب کرنے کے لئے آئے گی ۔ اس کی ماں اسے اکثر کہا کرتی تھی
کہ اگر تم صبر انتظار بھروسا امید یقین برداشت عاجزی احترام وغیرہ کو اپنی تربیت کا حصہ بنا لوں گی تو زندگی میں
کبھی بھی غم تمہیں رلا نہ سکے گا ۔ خدا کی
شکر گزاری عاجزی تمہیں جینے کا ہنر دے گی ۔
تانیہ کو اپنی ماں کے کہے ہوئے
الفاظ آج بھی گہرائی سے یاد تھے ۔تانیہ ہر اس وقت میں صبر کرتے جب اسے کوئی حقارت
کی نگاہ سے دیکھتا ۔ وہ ہر اس وقت میں انتظار کرتی جب اسے حلات ناممکن اور ناگوار
لگتے ۔ وہ ہر اس وقت میں اپنے خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے جبکہ اس پر کڑی آزمائش
ہوتی ۔ اس نے امید کا لفظ اپنی زندگی کی
ڈکشنری میں کبھی نہ مٹنے والے ہونے والے
مارکر سے لکھ لیا تھا ۔ اس نے خدائے واحد کی ذات پر یقین کو قائم کیا اور اور یہی یقین
اس کی زندگی کو خوشگوار بناتا رہا ۔ اس نے ہر اس بات کو برداشت یہ جو اس پر نہ گریز
گزرے ۔ اپنی ماں کی کہی ہوئی باتوں پر عمل
کرتے ہوئے وہ اپنے لہجے میں مٹھاس لائی
تاکہ کوئی بھی اس کے لفظوں کی وجہ سے غمگین نہ ہو ۔ یا اس کے کہے ہوئے لفظ
کسی پر نہ گریز نہ گزرے ۔ وہ چاہے اپنی زندگی میں ناکام ہوئی یا کامیاب وہ ہر حال میں اپنے رب کے سامنے عاجز
رہی ۔ اس نے ہر اس شخص کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جس نے اس کی زندگی کا
صفحہ غموں سے بھر دیا تھا ۔ اس کی تربیت میں اس کی ماں نے کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ یہی
وجہ ہے کہ آج ہم جہاں بھی چلے جائیں ہمیں ہر کسی کی کامیابی کے پیچھے اس کی ماں کی
ایک گہری گود نظر آتی ہے ۔ تانیہ بھی اسی طرح اپنی ماں کی تربیت کو اپنے دل میں
بسائے ماں کی ہر بات پر خاموشی سے عمل کرتی رہی ۔ اپنا غم ہونٹوں پر لانے کی بجائے
اپنے خدا کو بتایا کرتی ۔ زندگی میں کسی سے شکوہ شکایت کرنے کی بجائے اپنے خدا پر
امید رکھتی ۔ سب کچھ اپنے خدا اور وقت کے سپرد کر کے اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے
کی کوشش میں لگی رہتی ۔ چچی کے ظلم و ستم کو سہتی رہی ۔ لیکن زبان سے کبھی اس کا
اظہار نہ کیا ۔ دل ہی دل میں آہیں بھرتی لیکن اپنا دکھ اپنی آنکھوں میں نہ لاتی ۔
اپنی ماں کی باتوں پر عمل کرتے اور صبر کرتے کرتے وہ اتنی صابر بن گئی کہ اس نے
اپنے چچا کو معاف کردیا ۔ جبکہ اسی چچا نے اس کی زندگی میں کانٹے بچھائے تھے ۔ وہ
پریوں کی طرح ہواؤں میں اڑنے والے تانیہ اب بہت کچھ زندگی میں جھیل کر ایک موڑ پر
آ کھڑی ہوئی ۔ جہاں اسے اس کی زندگی بہت خوشگوار دکھائی دینے لگی ۔ سستی ہوئی تانیہ
کی دعائیں خدا نے قبول کرلی ۔ اس کا دل مطمئن تھا کہ اس نے اپنی ماں کی کہی ہوئی
باتوں پر پوری طرح عمل کیا ۔ وہ اکثر رات
کی چاندنی میں تنہا بیٹھ کر اپنی ماں سے
باتیں کیا کرتی ۔ اور دل ہی دل میں خوش ہوا کرتی تھی ۔
یہ تھی ایک ماں کی تربیت جس نے اس کی
بچی کی زندگی کو ہزاروں مصیبتوں سے بچا لیا تھا ۔
مجھ سے اکثر سوال ہوتا ہے کہ آپ کی
تربیت کس نے کی ۔ یہاں تک کہ مجھ سے زیادہ تجربہ کار لوگ ہیں جو مجھ سے یہ سوال
کرتے ہیں کہ آپ کی تربیت کس نے کی ۔ اور ہر جگہ سوچے سمجھے بغیر میرا ایک ہی جواب
ہوتا ہے کہ میری ماں نے ۔
آئیں ہم سب مل کر اپنی نئی نسلوں کو ایسی
کسی تربیت سے ہم کنار کریں ۔ جس میں وہ بڑوں کا ادب کرنا جانتے ہو چھوٹوں پر شفقت
کرنا جانتے ہو ۔
جن کی کامیابی کے پیچھے ان کی ماں کی
ایک آباد گود نظر آتی ہو ۔ اور جن کی
ناکامیوں میں ان کی ماؤں کی حوصلہ افزائی نظر آتی ہو ۔ جو زندگی میں ہارے تو سہی لیکن کبھی زندگی سے مایوس نہ ہو ۔ جو ایک اسلامی
معاشرے کی اصلاح کریں ۔ جو اپنے دکھوں میں خدا سے شکوہ شکایت کرنے کی بجائے اس سے
مدد طلب کریں ۔ اپنے دکھ ہر ایک پر ظاہر کرنے کی بجائے چپکے سے اپنے خدا کو بتائیں
۔ جن کی زندگی کا مقصد دوسروں کی آبیاری ہو ۔
تانیہ ایک اچھی لڑکی تھی ۔ اس کی تربیت
اس کی ماں نے بہت اچھی کی تھی ۔ وہ بہاولپور میں رہتی تھی ۔ وہ ہمیشہ دل و جان سے دوسروں کے کام آتی اور ان کی
مدد کرتی ۔ وہ ہمیشہ دوسروں کی رہنمائی کرتی تھی اپنی زندگی کی الجھنوں کو چھپاتے
ہوئے اس نے اپنی زندگی کی جدوجہد جاری رکھی اور ہر موڑ پے کامیاب ہوتی رہی ۔
اللہ
پاک اجر کی توفیق عطا فرمائے آمین