افسانہ نگار۔۔۔عامر سُہیل
حنیف اور عروج کی ازدواجی زندگی بہت اچھے طریقے سے گزر رہی تھی، دونوں بہت شاداں تھے،ہمہ وقت ساتھ ساتھ رہتے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی تھے، لوگ ان کے ساتھ اور محبت کی مثالیں دیا کرتے تھے، بس ایک ہی فکر تھی کہ دونوں کی اولاد نہیں تھی،اور یہ بات ان کے من کو بہت کھٹکتی تھی، کیونکہ ان کا کافی مال اور زمین و زیور تھے جن کا کوئی وارث ہی نہیں تھا، بس یہی وجہ تھی کہ وہ اولاد کے نہ ہونے سے بہت متفکر رہتے، اِس بات پر دونوں میں اکثر تکرار ہو جاتی، آخرکار ایک دن عروج نے اپنے چھوٹے بھائی شعیب کو گود لے لیا اور یوں ان دونوں کی پریشانی کا تھوڑی دیر واسطے ازالہ ہوا،دونوں کا دل شعیب کی وجہ سے بہل جاتا تھا، دونوں کیلئے ایک قسم کے کھلونے کا انتظام ہو گیا جس سے ان کا دل بہل جاتا، شعیب کے آنے سے ان کی ادھوری زندگی جیسے پوری ہو گئی تھی،حنیف کے ابا جان پہلے ہی وفات پا چکے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنا گھر چھوڑ کر عروج کے بھائیوں سے زمین خرید کر وہی رہنے لگا تھا، اس کے چاچو سے اس کی اتنی نہیں بنتی تھی مگر اپنے چچا زاد بھائی اقبال سے اس کا کافی یارانہ تھا، اور دونوں ایک دوسرے پر بہت زیادہ اعتماد بھی کرتے تھے، ایک دن حنیف کا چچا زاد بھائی حنیف سے ملنے آیا، اس نے حنیف کی آسائش بھری زندگی دیکھی تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، اس کے من میں فوراً ہی لالچ آ گیا، کیونکہ وہ شروع دن سے ہی لالچی اور حرص کا مارا ہوا انسان تھا، وہ کسی کو بھی مالدار دیکھتا تو تو اس کے اندر اس سے وہ مال و غنیمت چھین لینے کی خواہش جاگ جاتی اور وہ اس واسطے ہر حد تک جانے کی سعی کرتا، وہ تو صرف دولت کا غلام تھا اور اس واسطے کتنے لوگوں کی غلامی بھی کر چکا تھا مگر کچھ نہ بن سکا، کیونکہ اس کی نیت کا فتور عیاں ہو گیا اور لوگوں نے اسے اس غلامی اور نوکری سے بھی چلتا کیا، اس لیے اپنے علاقے میں اسے کوئی اچھا نہیں جانتا تھا،اس کی نظریں اب حنیف کی متاع کی سمت لگ گئیں، حنیف کے چچا زاد بھائی اقبال نے حنیف سے اس کامیابی کی وجہ دریافت کی۔۔۔
اقبال۔۔۔حنیف بھیا یہاں پر آپ کی کتنی زمین ہے؟کتنے جانور رکھے ہوئے ہیں؟ اور کتنا زیور ہے آپ کے پاس؟ (اقبال جانتا تھا کہ حنیف ایک سیدھا سادھا انسان ہے اور اس کی سبھی باتوں کا وہ جواب دے دے گا اور فوری دے دے گا، اس لیے اس نے آتے ہی یہی سوالات کیے تا کہ حنیف کی دولت کا اندازہ لگا کر اس کے مطابق کوئی ترکیب لگائے، کیونکہ اس گورھ دھندے میں وہ ہر حال میں کامیابی چاہتا تھا )
حنیف۔۔۔۔اقبال بھائی، یہاں میرے پاس سات ایکڑ زمین ہے، اور ساری زمین چوٹی کی ہے، فصل اس میں بہت بہترین اور اچھی ہوتی ہے، پھر ہم کھانے والے بھی کم ہیں تو اس طرح خوشحالی کی زیست بسر ہو رہی ہے،میرے پاس 20 جانور ہیں اور سبھی اچھے اور موٹے تازے ہیں، اور ہمارے پاس 10 تولہ سونا ہے
اقبال ۔۔۔۔میں بھی یہاں پر زمین خریدنے کی سوچ رہا ہوں، آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ ہم نے زندگی جبرِ مسلسل کی مثل کاٹی ہے، مگر اب یہاں پر جو پانچ ایکڑ زمین کب کی بنجر پڑی ہے وہ بیچ کر یہی پہ کوئی ایک دو ایکڑ زمین لوں گا اور پھر کسی کے ہاں کام کر کے پیٹ کی آگ بجھاؤں گا، یقین مانو وہاں پر گزارہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہو گیا ہے، آپ کے سامنے وہاں لوگوں کی غلامی بھی کی مگر کوئی بات نہیں بن پائی، لوگ اب غریب کے جذبات سے کھیلتے ہیں، اس کی آرزوؤں اور حسرتوں کا خون کر دیتے ہیں، اب وہاں رہنا بہت ہی مشکل ہو گیا تھا، تبھی سوچا اب آپ کے پاس آ کر رہا جائے
حنیف۔۔۔اقبال یار اس طرح غلامی کی زندگی گزارنے کا کیا فائدہ؟ میں بھی تو تمہارا اپنا ہوں، میری زمین بھی تو تمہاری ہے، میں اب ویسے بھی کام کرنے کے قابل نہیں، اور شعیب ابھی چھوٹا ہے، کیوں نا میری زمین بھی تم کاشت کیا کرو، مل کر کام کریں گے اور فصل اٹھایا کریں گے
اقبال دل ہی دل میں بڑا خوش ہوا اور اس نے یہ بات کی ہی تبھی تھی کیونکہ وہ حنیف کے ذہن کو جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ حنیف جذبات کی رو میں بہہ جانے والا انسان ہے، اس لیے اقبال نے بلا کسی تا خیر کے حامی بھر لی، یوں اقبال اور حنیف اکٹھے فصل کاشت کرنے لگے، حنیف کو اقبال پر اس قدر بھروسا تھا کہ تمام معاملاتِ زندگی اسی کے سپرد کر دیے، اقبال سودا سلف لاتا، وہی گھر کے اخراجات کرتا، اور حنیف کے پیسوں سے ہی اپنی بیوی کو پیسے بھیج دیتا یوں خرچہ حنیف کا ہو رہا تھا اور مزے اقبال کر رہا تھا،
اقبال جس قبیح مقصد واسطے حنیف کے پاس آیا تھا وہ اسے اب پورا ہوتے دکھائی دینے لگا تھا، اس نے ایک بار جان بوجھ کر فصل پر سپرے غلط کی اور کھاد بھی غلط ڈالی یوں فصل خشک ہو گئی اور ایک بھی روپیہ ہاتھ نہ آیا، فصل تباہ کرنے کے بعد اقبال نے عروج کے کان بھر کے اسے اس کے بھائیوں سے بھڑوا دیا اور عروج بھی غلامانہ سوچ کی بھینٹ چڑھ گئی، اس نے شعیب کو بھی واپس کر دیا اور بھائیوں سے بہت بڑی لڑائی کر کے چلی گئی، عروج کی امی کی وفات ہوئی تو بھی وہ صرف ان کا آخری دیدار کرنے گئی، بولی کسی سے نہیں، کسی سے تعزیت نہیں کی اور واپس لوٹ آئی۔۔۔
اب اقبال نے اپنا آخری پتہ کھیلنے کا سوچا اور حنیف سے ایک دن کہا کہ یار یہاں پہ زمین بالکل خراب ہو گئی ہے، میری زمین بھی بنجر تھی اور اب تمہاری زمین بھی بنجر ہو گئی ہے، کیوں نا ہم اپنی دونوں کی زمین بیچ دیں اور پھر میرے گھر کے پاس جا کر زمین لے لیں، کیونکہ وہ زمین بہت اچھی اور زرخیز ہے اور پھر وہاں پانی کا نظام بھی بہت زبردست ہے، یہاں بھی تو ہم اکٹھی زمین کاشت کرتے ہیں وہاں بھی اکٹھی کاشت کریں گے۔۔۔
حنیف کی سوچ چونکہ ایک غلامانہ سوچ تھی اس واسطے اس نے اس مشورے کو اپنے لیے غنیمت تسلیم کیا اور فوری حامی بھر لی، ادھر اقبال نے اپنے ایک دوست کو پیسے دے کر کہا کہ تم نے کہنا ہے زمین میں لے رہا ہوں، اور حنیف کو بھی ذرا سی بھنک نہیں پڑنے دینی۔۔۔
اقبال نے ایک دن حنیف سے کہا کہ میرا ایک دوست ہے جو ہماری زمین بہت اچھے داموں خریدنا چاہتا ہے اگر آپ چاہیں تو میں بات کروں؟ غلامی زہن کے مارے حنیف نے کہا کہ جیسے اور جسے چاہیں دیں، کیونکہ آپ میر برا نہیں سوچ سکتے، یوں اقبال نے ساری زمین ہتھیا کر اپنے نام کر لی اور حنیف کو لے کر اپنے گھر چلا گیا، وہاں حنیف کو یہ جھانسہ دیا کہ کچھ دن عروج اور آپ ہمارے ساتھ رہو پھر زمین نام ہو جانے پر تمہیں تمہارا گھر بنوا دوں گا، حنیف نے ہاں کر دی۔۔۔
اقبال نے چالاکی سے ساری زمین اپنے نام کرا لی اور سال بھر حنیف کو جھانسے میں رکھنے کے بعد کہنے لگا کہ آپ کی زمین پٹواری نے غلطی سے میرے ہی نام کر دی، اب دوبارہ آپ کے نام کروانے واسطے پیسوں کی ضرورت ہے جو میرے پاس نہیں، آپ میرے ایک دوست کے پاس کچھ دن نوکر بن کر رہیں ،ان کا کام کروائیں پھر دیکھتے ہیں، یوں حنیف اس آدمی کی غلامی پر مامور ہو گیا، وہ آدمی حنیف کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کرتا، عروج بھی ایک گھر میں نوکری کرتی، پھر حنیف کو اس آدمی نے بتایا کہ اقبال بہت بڑا دھوکے باز ہے یہ سب جانور ،یہ گھر یہ زمین اسی کی ہے میں تو خود یہاں نوکر ہوں، حنیف کو پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی معلوم ہوئی، اس نے جا کر اقبال کا گریبان پکڑا مگر اقبال نے اسے بہت مارا اور کہا کہ غلامانہ سوچ کے حامل آدمی، پہلے سوچ لیتے، مگر تم تو تن آسانی چاہتے تھے جس کا فائدہ میں نے اٹھایا۔۔۔
اب اقبال حنیف اور عروج کو روزانہ صبح کام پر لگاتا، کھیتوں پر ہی کھانا بھیجتا، شام کو اور صبح کو صرف دو وقت کی روٹی دیتا، ان سے شبانہ روز غلامی کرواتا اور ان کو بیٹھنے بھی نہ دیتا،ان کی زندگی موت سے بھی بھیانک بن گئی، اقبال نے پل پل کیلئے ان کی زندگی اجیرن کر دی، وہ دونوں اپنے آپ کو بیٹھے بیٹھے کوستے رہتے کہ کاش ہماری سوچ اس قدر غلامی بھری نہ ہوتی، کاش حنیف اقبال کی چکنی باتوں میں نہ آتا اور آج وہ دونوں شعیب کے ساتھ ایک ہنسی خوشی کی زندگی گزار رہے ہوتے، مگر اب یہ سب سوچنا ایک فضول امر تھا، کیونکہ اب اس سب کا سوچنا فضول تھا اور بے سود تھا، کیونکہ اب ان کا نصیباں یہی غلامی تھی جو انہوں نے تا دمِ مرگ کرنی تھی۔۔۔