Image
by pixabay
ازقلم:
عمارہ آرزو
ڈسکہ
صنف:
کہانی
عنوان: "ازقلم: عمارہ آرزو
ڈسکہ
قسط
نمبر# 1
"مس کیا آپ ہمیں بتائیں گی لفظ secret یعنی راز یا بھید کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے"۔۔۔ دسویں
جماعت کی طالبہ آیت نے مس انشال سے کلاس کے دوران پوچھا۔
انشال
ان دنوں اپنی زندگی کے مشکل ترین دن گزار رہی تھی۔ وہ تکالیف کو برداشت کرتے کرتے
تھک سی گئی تھی جو اسے اپنے والدین سے بچھڑنے کے بعد ملیں۔ مگر وہ ہمت نہ ہاری اور
ڈٹ کر برے حالات اور رشتہ داروں کے تلخ رویوں کا سامنا کیا۔
انشال
کی عمرلگ بھگ40سال کے قریب تھی۔بھائیوں کے پاس رہتے ہوئے بھی وہ خود کو تنہا محسوس
کرتی۔اس نے ایک پل بھی اپنے والدین کے بغیر نہ گزارا۔ لوگوں کی باتیں، رشتہ داروں
کے طعنہ و تشنیع کو چپ چاپ برداشت کرتی۔۔ آج بھی آتے ہوئے بھابھی کی طنزیہ باتیں
اسے پریشان کر رہی تھیں۔ ان کے کہے الفاظ ہتھوڑے کی طرح اس کے سر پر برس رہے تھے۔
مگر وہ ایک معلم تھی ۔ اسے سکھانے سے پہلے یہ خود سیکھنا ہوگا کہ زندگی کے پیچیدہ
معاملات کو کیسے حل کیا جائے۔
اچانک
انشال کے زہن میں جھماکا ہوا۔ اسے حضرت ابوذرغفاری کی مشکلات یاد آئیں اور الّلہ
پر اسکا توکل مزید پختہ ہوگیا۔
"آج ہم راز کے اصل معنی ایسی شخصیت کی زندگی سے جانیں گے جو
صحابیء رسولؐ بھی ہیں۔
تمام
طلبہ متوجہ ہوں"۔انشال نے کہا۔
تمام
طالب علم ہمہ تن گوش تھے۔ انشال نےبتانا شروع کیا۔
لفظ
راز فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی بھید اور پوشیدہ امر کے ہیں۔ لیکن
"تصوّف" کے مطابق "راز" کے اصل معنی "الّلہ تعالیٰ کی
معرفت حاصل کرنا کے ہیں۔"
لفظ
راز کی سب سے بڑی حقیقت کو میں نے حضرت ابوذرغفاری کی زندگی کے حالات و واقعات میں
پڑھا۔ حضرت ابوذرغفاری نے جب اس کائنات کی حقیقت اور اس کو بنانے والے یعنی وحدہ
لا شریک لہُ کے بارے میں جاننا چاہا تو بے شمار آزمائشوں سے گزرے۔ ایک وقت ایسا
تھا،جب آپ سورج کو دیکھتے تو سوچتے کہ شاید یہ میرا خدا ہے مگر اس کے ڈھلتے ہی وہ
سمجھ گئے کہ سورج ان کا رب ہو ہی نہیں سکتا جو ایک مقررہ وقت پر طلوع ہو اور شام
ہوتے ہی غائب ہو جائے۔ کبھی انہوں نے چاند کو خدا مان کر جھٹلایا تو کبھی ستاروں
کو، کبھی آگ کو تو کبھی سمندر کو۔ آخرکار وہ جان گئے کہ ان کا رب، خدا اور وحدہ لا
شریک لہ کو ئ اور ہی ہے جو اکیلا اس نظامِ کائنات کو چلا رہا ہے۔ لا محدود سوچوں
نے ان کے انرر کے تجسس کو مزید بڑھا دیا۔ انہی دنوں انہوں نے سنا کہ مکہ میں ایک
شخص نبی ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔وہ بہت متجسس ہوئے۔ انہیں اس شخص سے ملنے کا اشتیاق
ہوا۔ مگر حضرت ابو ذر غفاری کے رشتہ دار اس بات کو لیکر بہت ناراض ہوئے۔ وہ بتوں
کو پوجتے تھے جبکہ آپ اس چیز سے انکار کرتے ۔
انشال
آج بہت گہری بات بتا رہی تھی جسے تمام طلباء بڑے انہماک سے سن رہے تھے۔
(دوسری اور آخری قسط)
انشال
کے بتانے کا انداز طلباء کو اسکی طرف متوجہ کر چکا تھا۔ اس نے بات جاری رکھی۔
جیسا
کہ ہمیں پتا ہے کہ وہ لوگ بتوں کو پوجتے تھے جبکہ آپ رضی اللہ عنہا اس چیز کا
انکار کرتے۔ آپ کی والدہ جن کا نام "رملہ" تھا انہوں نے اپنے بیٹے کے
تجسس کو اول روز سے ہی دیکھ لیا تھا، انہوں نے اپنے بیٹے حضرت ابوذرغفاری کو مکہ
بھیجنے کیلئے بہت سی اذیتوں کا سامنا کیا۔ آپ اپنے رشتہ داروں کی دی گئ صعوبتوں کو
جھیلتے ہوئے مکہ جا پہنچے۔ یہاں تک کہ آپ کو حضرت محمد(صلی الّلہ علیہ وسلم) کا دیدار
نصیب ہوا لیکن آپ نہیں جانتے تھے کہ یہ وہی ہستی ہیں جن سے ملنے کے لیے آپ نے اتنی
دشواریاں برداشت کیں۔ الّلہ تعالٰی کے پیارے نبی نے آپ کے ساتھ رات بسر کی۔ آپ پیارے
نبی صلی الّلہ علیہ وسلم کے اخلاق سے بہت متاثر ہوئے۔ جب انہوں پیارے پیغمبر کو
نماز اور تلاوتِ قرآن میں مشغول پایا تو سمجھ گئے کہ آپ صلی الّلہ علیہ وسلم اسی
وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کر رہے ہیں جن کی ان کو برسوں سے تلاش تھی۔ یہ وہی دین
اسلام ہے جو انہیں اس کائنات کے حقیقی مالک سے ملوائے گا۔ آپ نے فوراً اسلام قبول
کر لیا اور معرفت الٰہی تک جا پہنچے۔ آپ الّلہ اور اس کے نبی سے بے انتہا محبت
کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی اور اس کائنات کے حقیقی راز کو جان لیا۔ قرآن کریم
میں ارشاد ہوتا ہے:
ان
الّلہ مع سعیٰ۔
پس
حضرت ابو ذر غفاری نے لا متناہی کوششوں اور اپنے تجسس سے الّلہ تعالیٰ کی معرفت
حاصل کی۔
میرا
خیال ہے آپ سب راز کے حقیقی معنی جان چکے ہیں۔ انشال نے پوچھا۔
جی
مس! سب نے ایک آواز میں جواب دیا۔
انشال
نے بھی جان لیا کہ مشکلات جتنی بھی بڑی ہوں مگر اللہ سب سے بڑا ہے اور اللہ تعالٰی
کی معرفت ہر درد ، ہر ژولیدگی اور ہر غم کو بھلا دیتی ہے۔ اس نے زندگی کو نئے عزم
کے ساتھ جینے کا فیصلہ کیا۔
اگلے
پریڈ کی گھنٹی بجی تو انشال چونکی اور کلاس سے باہر آگئی۔
ختم
شُد"