ایک دن ہوگا ہم بڑے ہوجائیں گے۔

image by pixabay


ستارہ منیر کبیروالہ

بڑا یاد آئے گا بچپن کا یہ زمانہ

صبح اٹھ کر جاتے تھے سکول راستے میں کھیل مستانہ

وہ کمر پر بستہ وہ ہاتھوں میں تختی اٹھانا

جاتے ہوئے راستے میں پکڑی تختی کو گول گھمانا۔

وہ کچے صحن سکول کے اور ان پر بالٹی سے پانی گرانا

وہ بستہ جس میں لکیروں واال دستہ ایک تراش کچھ کتابیں ربڑ اور لکڑی کا بنا پیمانہ ۔

وہ ہاتھوں میں چورن عام سی چپل اور بیٹھ کر زمین پر لکیریں لگانا میرا خانہ اچھا بنا ہے میرا خانہ اچھا بنا ہے پھر خود ہی ہاتھ پر ہاتھ مار کر کھلکھلانا۔

وہ کانچ کی گولیاں اور سکوں سے کھیلنا

جیت جیت پر وہ خرچ بنانا۔

بارشوں کا برسنا وہ کاغذ کی کشتی بناکر پانی میں چلانا۔

وہ جب گرجے بادل تو بھاگ کر ڈر کے مارے ماں کے پچھے چھپ جانا۔

وہ دوپٹے کے پلوں میں باندھے پیسے چھوڑ کر بھاگ جانا دور کھڑے ہو کر ماں کو بتانا اور خود سے کھلکھلانا۔

وہ کہیں آتے جاتے ہوئے راستے میں پیڑوں پر چڑھ جانا۔

وہ ٹیوب ویل چلتے تھے تو سب کا اکٹھا ہوجانا۔

وہ چھوٹی چھوٹی دو پونیاں باندھ کر ساتھ کھیلتی شہزادیاں

انکی پونی کو کھینچ کر انہیں چڑچڑانا۔

وہ سائیکل کے ٹیر کو پکڑ کر چھوٹی سے ڈنڈے سے ریس لگانا بڑا یاد آئے گا بچپن کا زمانہ۔

وہ ترو تازہ سرسبز کھیت واری کا بنا پانی جس کو وہ کسانوں کا اگانا۔

وہ کئ دیر تک رات کی محفلیں 

وہ ہر رت کی یاد جگانا

وہ بوڑھے بزرگ جوان بچے کسی کی ایک جگت پر کھلکھلانا مسکرانا

5 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی