کوشش سے کامیابی تک

Image by pixabay



 علی رضا 

شہر چنیوٹ

شہباز ایک غریب گھر کا بچہ تھا۔ باپ محنت مزدوری کر کے خاندان کی کفالت کرتا تھا۔ شہباز کے اندر کچھ بننے کی چاہ تھی۔ شہباز گاؤں کے ایک ہائی سکول میں پڑھتا تھا۔ لائق تھا میٹرک بہت اچھے نمبروں سے پاس کر لی اس وجہ سے شہر کے ایک کالج میں اسے باآسانی داخلہ مل گیا اور اس نے اپنا اگلا سفر شروع کر دیا۔

کالج کی فیس تو معاف تھی لیکن دوسرے اخراجات کے لیے شہباز نے شہر میں ایک چھوٹی سی نوکری ڈھونڈ لی اور کالج سے واپس سیدھا نوکری پہ آتا اور شام کو گھر چلا جاتا۔ اس کی ماں ہر وقت اپنے بیٹے کی کامیابی کے لیے دعا کرتی اور اس کی کوششوں کا ثمر خدا سے مانگتی رہتی۔

شہباز کے کالج کے دو سال بھی مکمل ہو گئے اور اس نے ایف اے بھی پاس کر لیا۔

اب اسے اپنے والدین کا سہارا بننا تھا اس نے پڑھائی وقتی ملتوی کر لے شہر میں ایک نوکری کر لی اور ساتھ مختلف جگہ پہ نوکری کے اشتہارات پہ اپلائی بھی کیا۔لیکن اس کے اندر ایک بڑا آدمی بننے کی جو چاہ تھی اسے تحریک دیتی اور اس کا خود پہ یقین کامل کر دیتی۔

اس نے پرائیوٹ بی اے کا داخلہ بھیجا اور اپنا بی اے پاس کرنے کے بعد سی ایس ایس کی تیاری شروع کر دی۔ اس پہ بہت زیادہ بوجھ پڑ گیا لیکن اس نے اپنے اعصاب پہ قابو رکھا اور اپنی محنت جاری رکھی۔ سی ایس ایس کے پیپرز دئیے لیکن ناکام رہا۔

شہباز کچھ افسردہ ہوا مگر ہمت نہیں ہاری دوسری بار اس نے پھر دوبارہ ان پیپروں کی تیاری مزید اچھے طریقے سے کی۔ اس دفعہ اس نے پیپر اور انٹرویو بھی پاس کر لیا۔ خدا نے اس کی محنت کا صلہ اس کا دیا۔ ایک دن جب وہ اپنے کام میں مشغول تھا اسے فون آیا کہ آپ سی ایس پی آفیسر بن گئے ہیں آپ کی نوکری ہو گئی ہے۔ شہباز کو اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی اس نے سجدہ ریز ہو کر اپنے رب کا شکر ادا کیا اور اپنے والدین کو یہ خوشخبری سنائی۔ شہباز کو اس کی نئی دنیا اور اس کی محنت کا پھل مل چکا تھا۔

سچ کہتے ہیں خدا کسی محنت مشقت ضائع نہیں کرتا ہے۔

آپ کی رائے

جدید تر اس سے پرانی