.حمد
محمد جریر اسعد،لاہور
وہ جس کا نام بھی حمد و ثنا ہے
وہ جس نے یہ جہاں پیدا کیا ہے
وہ مالک جس کی ملکیت ہے دائم
وہ باقی جس کا حق لفظِ بقا ہے
وہ خالق جس کی خلقت سب خلائق
وہ رازق جو سبھی کو دے رہا ہے
وہ رحمٰں جس کی رحمت کی نظر سے
گنہگاروں کو بھی جیون عطا ہے
وہی جس کی کریمیت کے صدقے
کرم کا پھل زمانے میں پھلا ہے
معافی کی امیدیں ہیں اسی سے
وہی غفار بھی بے انتہا ہے
کہاں اسعد؟ کہاں اس کی بلندی؟
مگر رحمت سے امیدِ سخا ہے
عنوان : زندگی
محمد عمیر جٹ
چکی کے دو پاٹ آپس میں مل کے جب گھومتے ہیں تو ٹھوس اجزاء
اپنی ایک حالت سے دوسری حالت میں ڈھل جاتے ہیں۔ لیکن ان اجسام کو ایک حالت سے دوسری
حالت میں ڈھلنے کے دوران، چکی کے پاٹوں کے درمیان پسنا پڑتا ہے۔
اس تبدیلی کے عمل میں چکی کی حالت ظاہری ہوتی ہے جو سب کے
سامنے موجود ہے، اور چکی گھمانے والے کا پسینہ بھی اس کی محنت کی دلیل ہوتا ہے.
لیکن ان اجسام پہ کیا بیتی ہو گی؟
یہ صرف وہی ذرہ جانتا ہے جو اس چکی میں پستا ہے۔
زندگی بھی چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پستے ہوئے اجزاء کی ایک
شکل ہے۔
چکی کے نیچے والا حصہ عموماً ٹھہرا ہوتا ہے، زندگی کا پہلا
حصہ بھی سات سے نو ماہ تک ٹھہرا رہتا ہے۔
پھر زندگی وجود میں آتی ہے، جو ساکن پاٹ پہ ٹھہر جاتی ہے۔
ادھر سانسوں کی دھونی، خواہشات، لوازمات، خوشیاں، غمیاں،
خوبیاں، خامیاں، جنت و دوزخ، غرض کے بیش بہا عوامل مل کے چکی کے اوپری پاٹ کو بھی
آہستہ آہستہ گھمانے لگتے ہیں۔
شروع میں سمجھ نہیں آتی کہ ہو کیا رہا ہے، گندم کے دانوں کو
پستے دیکھیں تو شروع میں پہلا زور تیز لگانا پڑتا ہے، یوں ہی زندگی بھی چکی کے
پہلے گیڑے میں تیز گردش کرتی نظر آتی ہے۔
جب ہوش سنبھل جائے، تو پاٹ گھمانے میں آسانی و روانی آ جاتی
ہے، جیسے ہی روانی در آئے ایک مٹھی گندم چکی میں اور ڈال دی جاتی ہے، زندگی بھی جب
چکی کے دونوں پاٹوں میں روانی پہ دوڑنے لگتی ہے اسی وقت کہیں سے غم و خوشی، خواہش،
خامی و خوبی، مٹھی بھر، کبھی زیادہ کبھی
کم، پستی ہوئی زندگی میں مزید شامل ہو جاتی ہے۔
چکی کے پاٹ یوں ہی چلتے آ رہے ہیں۔
ازل سے زندگیوں کی دھونیاں انہی پاٹوں کے درمیان رگڑے کھاتے
کھاتے اپنی حالت بدل کے کسی اور سفر کی مسافت پہ نکل پڑتی ہے۔
ہر زندگی جو چکی کے دو پاٹوں کے درمیان ہے، وہی جانتی ہے کہ
اس پہ کیا بیتی ہے، کیوں کہ سب زندگیاں ایک ہی چکی کے پاٹ میں برابر پستی ہیں، اب یہ
مقدر کے کھیل ہیں کہ کوئی زندگی کم اور کوئی زندگی زیادہ عرصہ پاٹوں کے درمیان پستی
رہے۔
ظاہر میں چکی گھمانے والا کچھ نہیں جانتا۔
باطن میں چکی کو ازلی گھمن گھیری پہ ڈالنے والا اس میں مقدر
کی دھونی شامل کر کے، خوب جانتا ہے کہ کس زندگی نے کب چکی کے پاٹوں سے نکل کے نئے
سفر پہ جانا ہے۔
زندگی، یوں ہی رواں دواں ہے۔
نظم
علی رضا
شہر چنیوٹ
اب موسم بہاروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
دَور گزرے ستاروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
اے وطن تری مٹی اب ترسے گی خون کو
کنبہ ترے جانثاروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
جن کو تم نے سپردِ خاک کیا میرے ہمنواں
عہد ان سب یاروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
تیری زبوں حالی پہ روئے گا کون جزوِ جان
سلسلہ ترے سوگواروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
جو تیری ایک آواز پر کہتے تھے لبیک تجھے
خزینہ اب ان پیاروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
اپنا لہو بیچ کر تجھے خریدتے رہے تجھ سے
اب خریدار ترے چاروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
تری صفوں کے منافق ہم نے چاک کر دئیے سب
کوئی وار ترے غداروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
تم نے تو رہنا ہے آخرِ دنیا تک اے میرے وطن
گو وقت اب وفاداروں کا لوٹ کر نہیں آئے گا
رویے مار دیتے ہیں۔۔۔۔۔!!!
عشرت صدیق غوری
ملتان
انسان وہ واحد مخلوق ہے جسے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا
۔ہر چرند پرند پر فضیلیت دی گٸی جس کی پیداٸش
کے ساتھ ہی اسے مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔یہ انسان ہی ہے جسے
عزت احترام عاجزی انکساری رحم دلی اعلی اخلاق جسی صفات سے نوازا گیا تاکہ وہ اپنی
ان تمام صفات کو بروٸے کار لا کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکے ۔اپنے رب سے
مظبوط رشتہ استوار کر سکے اپنی زبان کا صحیح
استعمال کر کےوہ رشتوں کو جوڑے رکھے ۔جو رحم دلی کا مظاہرہ کرے اعلی ظرف بن کر
دوسروں کی غلطیوں کوتاہیوں بدتمیزیوں کو درگزر کرے ۔اسے عقل و فہم عطا کیا گیا
تاکہ وہ اپنی سوچ کے داٸرے کو وسیع کر ے ہر
دماغی سوچ دو پہلووں پر مشتمل ہوتی ہے مثبت یا منفی یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ
اپنی سوچ کو کس زاویے سے لے کر چلتا ہے کسی بھی انسان کو عزت دینے والی دو چیزیں ہیں
ایک زبان دوسری سوچ آپ جو سوچتے ہیں وہی زبان سے ادا کرتے ہیں زبان آپ کی مثبت یا
منفی سوچ کا عکس ہوتی ہے اور یہ زبان کے ہی جوہر ہوتے ہیں جو چاہے تو بادشاہی کے
مسند پر بیٹھا دے چاہے تو ذلت کی اتھا گہراٸیوں
میں اٹھا کر پھینک دے۔زبان کے گھاٶ بھرنے میں عمریں بیت
جاتی ہے آپ کی زبان سے نکلے ہوٸے الفاظ کسی بھی
انسان کی حیات کو زنگ لگا کر اسے مفلوج کر دیتے ہیں۔لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کی
زبان سے جن الفاظ کی اداٸیگی ہوتی ہے وہ کسی جیتے جاگتے ہنستے بستے زندہ دل انسان کو
ذہنی مریض بنا دیتے ہیں۔آپ اپنے اندر کی گندگی کو کیوں دوسروں پر مسلط کرنے کی
کوشش کرتے ہیں کیوں اس زبان سے دوسروں پر الزام لگا کر اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں کیا
آپ کو نہیں پتہ کہ بروز آخرت ان تمام چھوٹی
چھوٹی چیزوں کا حساب لیا جاٸے گا آپ اپنے خود ساختہ خول میں سمٹ کر خود کو دوسروں سے
دور کر لیتے ہیں اور پھر شاٸد آپ کو لگتا ہے کہ ہر بندہ آپ سے بیزار ہے آپ کو عزت نہیں
دے رہا آپ کو مسلسل ڈی گریڈ کر رہا ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوتا ہے یہ آپ کی منفی سوچ ہوتی ہے جو آپ کو شرمندہ کرواتی ہے۔آپ
اپنی منفی سوچ کے زیر اثر دوسروں کو پندرہ لوگوں کے سامنے ذلیل کرتے ہیں اس پر
الزام تراشی کرتے ہیں خود سے باتیں تخلیق
کر کے اپنے اندر ہی احساس کمتری کو فروغ دے کر نام نہاد بدلہ لیتے ہیں صرف اس لیے
کہ آپ کی منفی سوچ کو سکون مل سکے شاٸد
آپ کے اندر کا انسان یہی چاہتا ہے کہ دوسروں کو مسلسل ذہنی اذیت میں رکھا جاٸے
اسے بے عزت کیا جاٸے کہ شاٸد ایسے ہی کچھ لمحوں
کے لیے آپ کو خود پر فخر ہو گا ۔آخر کیوں
آپ اپنے رویوں پر غور نہیں کرتے ہمیشہ دوسروں کے رویے ہی کیوں غلط نظر آتے ہیں کہیں
نا کہیں زندگی کے کسی موڑ پر آپ 'آپ کی سوچ آپ کے رویے بھی غلط ہو سکتے ہیں آپ بھی
جانے انجانے میں کسی کی زندگی کو تباہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔آپ کو پتہ
ہے آپ کی ایک جھوٹی بات دوسرے کو کس قدر اذیت دے سکتی ہے کیوں آپ کسی کو خوش نہیں
دیکھ سکتے کیوں آپ کی نام نہاد انا آپکو آگے بڑھنے سے روکتی ہے آپ کو دوسروں کے
ساتھ گھلنے ملنے سے منع کرتی ہے کیوں آپ ایک اچھی زندگی نہیں گزار سکتے ۔۔؟ خدارا
اپنی سوچ کو بدلیے اپنی زبان کا درست استعمال کریں کسی پر بھی الزام تراشی سے پہلے
حقاٸق کا طاٸرانہ جاٸزہ
لیں آیا کہ یہ بات دوسرے کے بارے میں سچ ہے کہ نہیں کیا واقعی جو بات میں نے کہی
ہے یا کہنے جا رہا / رہی ہوں وہ اس انسان میں اتم موجود ہے یا پھر کہیں انجانے میں
"میں کسی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں بن رہا ۔میں اپنی محرومیوں کا بدلہ
دوسروں سے کیسے لے سکتا ہوں کیونکہ اللہ نے ہر انسان کو ایک سی زندگی دی ہے اسے
گزارنے کے طریقے مختلف ہیں کوٸی تو اپنی کم تر زندگی کو بھی شکر گزاری کے ساتھ بسر کر رہا
ہے تو کوٸی اپنی اعلی زندگی کو بھی بیکار سمجھتا ہے ۔زندگی میں رشک کی
گنجاٸش ہے حسد کی نہیں زندگی سے ان ناسور کر نکال دیں جب تک آپ کی
زندگی میں حسد غیبت چغلی شک اور احساس کمتری رہے گا آپ ایک اچھی زندگی نہیں گزار
سکتے جو آپ کے پاس ہے وہ دوسروں کے پاس نہیں اس لیے شکر ادا کرنا سیکھیے اچھے
لوگوں سے رابطے کو پروان چڑھاٸیں جو آپ کو اچھے برے کی تمیز بتاٸیں
ایسے لوگ جو آپ سے آپ کو چھین لیں آپکی اچھی عادات ختم کروا دیں اپ کو حسد کی آگ میں
اکیلا جلنے کے لیے چھوڑ دیں کیا وہ آپ کے ساتھ مخلص ہیں ہرگز نہیں ۔چھوڑ دیں ایسے
لوگوں کا ساتھ اکیلے رہ لیں مگر اپنی عاقبت خراب نا کریں ۔آپ کے منھ سے ادا ہونے
والے تمام وہ الفاظ جو آپ دوسروں کے بارے میں کہتے ہیں وہ سب خدا کے دربار میں
محفوظ ہو رہا ہے ۔دوسروں کے ساتھ برا کر کے شاٸد
آپ بھول جاٸیں لیکن وہ ذات اقدس کبھی بھولنے والی نہیں ہے ۔زندگی بسر
کرنے کے لیے صرف خود کی ذات ضروری نہیں ہے لوگوں سے میل جول اور اچھا اخلاق ہی آپ
کو ہمیشہ دلوں میں زندہ رکھے گا ۔کوشش کریں کہ ایک سچے انسان بن سکیں یا اپنے اندر
اتنی ہمت پیدا کر لیں کہ سچ اور حق کا ساتھ دے سکیں جو آپ کے دل میں ہو وہی آپ کی
زبان پر بھی ہونا چاہیے کسی کو نیچا دیکھانے کے لیے یا اس کی عزت خراب کروانے کے لیے
کبھی بھی جھوٹ کا ساتھ نا دیں کبھی بھی پیٹھ پیچھے وار نا کریں کیونکہ یہ سب کچھ
واپس آپ تک تو آٸے گا۔گفتگو سے اچھے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں دل میں بغض اور
چہرے پر مسکراہٹ رکھ کر آپ خود کو گمراہ کرتے ہیں جبکہ دوسرا انسان آپ کی اصلیت سے
واقف ہوتا ہے رویے مار دیتے ہیں شاٸد آپ کو اس بات کا
اندازہ بھی نا ہو کیونکہ ہمیشہ بات اس کی ہوتی ہے جس میں کوٸی
بات ہوتی ہے اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ اس
فانِی زندگانی میں اللہ کو خوش کریں حقوق العباد کا خیال رکھیں دوسروں کی حق تلفی
سے بچیں اپنے دل صاف کریں سب کو یکساں اہمیت اور
عزت و احترام دیں تاکہ آپ سرخرو ہو سکیں آپ کو دلی اطمینان نصیب ہو ۔
نظم: میرا خواب
سویرا (خیشگی نوشہرہ
"میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ
خواب"
"بڑھا اور جس سے میرا اضطراب"
اندھیرا ہے چاروں طرف مرے آس پاس
میں سہمی ہوئی سی کھڑی تھی کہ اک آن میں
مرے سامنے اک کتاب آکے کھلی
کھلتے ہی اس کے مرے سامنے
میرا خوف اور بھی بڑھنے لگا
دیکھا میں نے اپنا نام اس پہ لکھا ہوا
وہ دھندلا سا تھا تیز روشن نہ تھا
حروف اس کے سارے چمکتے نہ تھے
نہ جانے یہ کیا تھا, میں کیوں تھی وہاں
اسی سوچ میں تھی کہ کہنے لگا
مجھ سے مڑ کر یہ کتاب
قریب آکے مجھ سے مخاطب ہوا
خبر ہے تجھے؟! کیوں یہ دھندلا گیا؟!
تیرے ان گناہوں سے دھندلا گیا یہ
الزام کی وجہ
نام : نوروالحیاسیالکوٹ
محبت کا خلاصہ نہ کہی کرنے بیٹھ جا نہ
کہی تمہیں بھی محبت نہ ہو جائے
کہی تم پر بھی یہ قیامت نہ ٹوٹ پڑے
کہی تم بھی خود سے لاتعلق نہ ہو جاو
کہی تم بھی سفاک نہ بن جاو
ارو آخر یہ ہو کہ محبت کرنے کا الزام تو لگا ہی چکے کہی محبت کروانے کا ہھی
الزام بھی ہم پہ ہی نہ لگا دو تم
اس لیے کہہ رہے ہے کہ محبت سے اور اس کے خلاصے سے زرا پرہیز کرے۔
جدید رشتے و تعلقات
عائشہ طور تاندلیانوالہ فیصل آباد
٫٫رشتے لفظ ہے چار الفاظ کا،، ۔۔۔لیکن اس میں دنیا بھر کی محبت اپنائیت
اور خلوص چھپا ہوا ہے ۔۔اگر رشتوں کو
محبت، قربانی اور خلوص کی دوڑ سے باندھ کر رکھا جاۓ تو
یہ کبھی نہیں بکھرتے ۔۔
بناوٹی رشتے تو صرف دکھانے کے لیے اور وقت گزاری کے لیے
ہوتے ہیں جو اندر سے کھوکھلے اور اوپر سے خوشامد سے بھرپور ہوتے ہیں ،،،،
کئی لوگ اپنے جان سے پیاروں کو فقط وقت گزاری کے لیے
استعمال کرتے اور پھر انھیں دنیا کی بے موج لہروں میں تن تنہا چھوڑ کر خود منظر سے
غائب ہو جاتے ۔۔۔
آج کے دور میں کئی لوگ ،،،،،جو بڑے عہدوں پر پہنچ چکے ،،،
زندگی اور چیزوں کو ایک ہی ترازو میں رکھ کر تولنا شروع کر دیا ہے ،،،،
اللہ عزوجل نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اسے عام
سمجھ کر اپنے مفاد اور خود غرضی کے لیے استعمال کرنا چھوڑ دیں ۔۔۔
ہماری زندگی میں کچھ سہانے لمحات ایسے بھی ہوتے ہیں جب کسی
اپنے کو ہماری ضرورت ہوتی ہے ۔۔۔اسے ہماری مدد درکار ہوتی ہے ۔۔۔لیکن ہم غرور تکبر
کے نشے میں دھت ہو کر خود کو اونچی پرواز میں محسوس کرتے ۔۔۔۔اور دوسروں کو خود سے
کمتر اور حقیر تصور کرتے ۔۔
اگر وقت کے ساتھ ، ساتھ ہم ترقی کر لیں یا کسی اونچے مقام
پر پہنچ جائیں تو باقی سب ہمیں نیچ محسوس ہوتے ۔۔۔
کیا کسی کی عزت محبت اس کے عہدے اور پیسے کے ساتھ وابستہ
ہوتی ؟
انسان اور اس کے آپ کے ساتھ جڑے تعلقات کچھ حیثیت نہیں
رکھتے ۔۔۔۔
یہی وہ لوگ ہوتے جن کی ہم زندگی میں قدر نہیں کرتے اور جیسے
ہی وہ دار فانی سے رخصت ہو جاتے ، ہم واویلا مچاتے ، دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے
، اور ان کے نام کی تختیاں ان کی قبر پر سجاتے تاکہ ان کی شناخت باقی رہے ۔۔۔۔
جن کی محبت ، خلوص کو ہم ساری عمر نہیں پہچانتے ۔۔۔مرنے کے
بعد ان کی یادوں کو سینوں سے لگا رہے ہوتے ہیں ۔۔۔
وہ جو عمر بھر ہماری
محبتوں کو ترستے رہے ہوتے انھیں موت کے بعد اپنے ہونے کا یقین دلا رہے ہوتے ۔۔
یہ سب صرف عام نوعیت کے تعلقات میں نہیں ہوتا ،، بلکے آجکل
کے جدید دور میں لوگ اپنے والدین ، بہن ، بھائیوں کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار
کرتے ،،لوگ خون کی بات کرتے خون تو گدھوں میں بھی ہوتا ہے ۔۔
لوگوں کی بند آنکھوں کے پیچھے ان کے چھپے خواب دیکھنے کی
کوشش کریں ۔۔۔
اپنوں پر اتنا اندھا دھند اعتبار مت کریں کہ جب وہ ٹوٹ جاۓ تو
آپ کی خواہشیں اور امیدیں ملیا میٹ ہو جائیں ۔۔۔
خوش رہیں خوشیاں بانٹیں ♥️
جب گلے کرتے ہو
سبیت طاہر
جب گلے کرتے ہو اچھے لگتے ہو۔
جب حق جتاتے ہو اپنے سے لگتے ہو۔
ناراض ہو کر جب بیٹھ جاتے ہو۔
انجانے سے ہمیں لگنے لگتے ہو۔
خاموش ہو کر جب صرف تکتے ہو۔
بہت پیارے ہمیں لگتے ہو۔
فیصلہ
عاصمہ عبد المجید (سلطان پورہ
میں کتنے دنوں سے تم کو تلاش کر رہا ہوں تم کہاں ہو اس کے
لہجے میں غصے کے ساتھ ساتھ پریشانی اور محبت بھی تھی "کہیں نہیں بس جاب اور
گھر کی مصروفیات ہیں اور کہاں ہونا ہے مجھے"
فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے انداز میں پریشانی اب بھی نمایاں
تھی اتفاق کی بات ہے جب تمہارا فون آیا تو فون کہیں اور تھا اورمیں کہیں خیر تو ہے
اتنی بے چینی سے مجھے کیوں یاد کیا جارہا ہے اس نے اپنے لہجے میں شوخی کو شامل کر
لیا
اچھا یہ بتاؤ فرائی ڈے کو کیا کررہے ہو-
وہی جو روز کرتا ہوں انداز میں لا پروائی تھی -
چھٹی کر سکتے ہو؟
چھٹی ی ی - - - اس نے ی کو لمبا کیا - آج پیر ہے جمعرات کو
ہی بتا سکتا ہوں ویسے مسئلہ کیا ہے -
کچھ نہیں- کچھ کھانے چلتے ہیں سمندر کنارے چلنے کا پلان تھا
میں جب بھی کہتا ہوں تم بہانہ کر دیتے ہو اس بار کوئی بہانہ نہیں چلے گا -
اوکے ڈن - - - آریان سے بات کر کے وہ اپنی ساری پریشانی
بھول جاتا تھا - آریان سے دوستی بہت پرانی نہیں تھی لیکن بہت گہری تھی اس میں زیادہ
تر ہاتھ آریان کا تھا اگر وہ کبھی آریان کی مدد کرتا تھا تو آریان بھی اس کی ہر پریشانی
میں ساتھ دیتا - آریان اپنے خاندان کی طرف سے آسودہ حال تھا اس کے دادا اور والد
سرکاری ملازم تھے - آریان دو بھائی اور ایک بہن تھی بہن شادی شدہ تھی بھائی بیرون
ملک میں اچھی نوکری کر رہا تھا آریان اپنی تعلیم مکمل کر کے ایک ملٹی نیشنل کمپنی
میں شوقیہ جاب کر رہا تھا - اس کے مقابلے میں دانیال ایک متوسط گھرانے سے تعلق
رکھتا تھا جہاں ہر خوشی کے ساتھ مسائل جڑے ہوتے ہیں -
دانیال تین بھائی تھے بڑا بھائی شادی کر کے کینیڈا میں ایسا
بسا کہ پلٹ کے خبر نہ لی -چھوٹا بھائی ابھی پڑھ رہاتھا- دانیال تعلیم مکمل کرنے کے
بعد گھر کے اخراجات اٹھانے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرتا تھا -
آریان سے اس کی دوستی آفس میں ہوئی - ایک دن آریان آفس کے
کسی مسئلے میں الجھا ہوا تھا جو کسی طور حل نہیں ہو رہا تھا - دانیال کسی کام سے
اس طرف آنکلا-
آپ کو کوئی پریشانی ہے آریان کے چہرے سے پریشانی اور کوفت
نمایاں ہو رہی تھی - ارے ہاں یہ فائل محفوظ کرنا چا رہا ہوں لیکن ہو نہیں رہی - اس
کے بعد فائل اپلوڈ بھی کرنی ہے
دکھائیے - شاید میں آپ کی کوئی مدد کر دوں - شیور! یہ کہہ
کر وہ کرسی سے آٹھ گیا دانیال نے تھوڑی دیر کمپیوٹر پر کچھ دیکھا اور بولا - آپ کا
مسئلہ حل ہو گیا واہ یار آپ نے تو کمال کر دیا - آج شام کی چائے میری طرف سے - ارے
اس کی کوئی ضرورت نہیں دانیال نے گریز سے کام لیا - مجھے کچھ نہیں سننا آپ آج شام
چاے میرے ساتھ پئیں گے
اوکے - - - یہ ان کی دوستی کا پہلا دن تھا وقت کے ساتھ ساتھ
ان کی دوستی گہری ہوتی جا رہی تھی دانیال کئی دفعہ آریان کے گھر جا چکا تھا - جبکہ
آریان کو اپنے گھر نہیں بلایا - شاید اس کے پیچھے اس کا کوئی کمپلیکس تھا یا کچھ
اور تم مجھے اپنے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں بتاؤ' ملواؤ اپنے ابو سے آریان اکثر اس سے صرار کرتا - ہاں ضرور
ملواؤ گا کسی دن-
لیکن وہ دن کبھی نہیں آسکا- تاہم اس نے گھر کے تمام حالات
آریان کو بتا دیے جس کی وجہ سے وہ دانیال کا اور بھی خیال رکھنے لگا - گھر دانیال
کے پیسوں سے چل رہا تھا - چھوٹا بھائی ابھی پڑھ رہا تھاوالد اب کام نہیں کر سکتے
تھے زندگی کی جدوجہد کرتے کرتے اور حالات سے لڑتے لڑتے دانیال کے والد کی صحت گرتی
جا رہی تھی دانیال کو اب ان کی بہت فکر رہنے لگی تھی وہ آفس سےگھر جلدی آنے کی
کوشش کرتا-تاکہ ان کا خیال رکھ سکے اس کے والد چاہتے تھے اب دانیال شادی کر لے وہ
اس بارے میں جب بھی دانیال سے بات کرتے وہ بات ٹال دیتا -
اس دن وہ دونوں کھانا کھانے کے لیے باہر آئے تھے باتوں
باتوں میں آریان نے دانیال سے پوچھا - یار تمہارے ابو نے اتنے امیر گھرانے کی لڑکی
سے شادی کیوں کی کیا پسند کی شادی ہوئی تھی؟
اصل میں میرے ابو سازش کا شکار ہو گئے تھے ابو میری امی کے
والد یعنی میرے نانا کے آفس میں کام کرتے تھے نانا نے ابو کی ایمانداری اور
خوبصورتی سے متاثر ہو کر دونوں کی شادی کروا دی امی کو بھی ابو پسند اگئے شروع
شروع میں تو جیسے تیسے دن گزرتے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جھگڑے طویل ہوتے گئے جو
علیحدگی کی صورت میں ہی ختم ہوئے بات کے اختتام پر دانیال دکھی سا ہو گیا آریان نے
ماحول کو نارمل کرنے کے لیے ہلکے سے انداز میں کہا تم کسی امیر زادی سے شادی نہ کر
لینا کافی دیر ہو گئی ہے اب گھر چلانا چاہیے
ایک دن وہ دونوں لنچ بریک میں ایک ساتھ بیٹھے تھے ارے تمہیں
نیوز ملی - آریان نے اچانک پوچھا -
کون سی نیوز دانیال گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے اس قدر ڈسڑب
تھا آفس کے کام اور گھر کے علاوہ کسی خبر نہیں ہوتی تھی - انٹر ڈیپارٹمنٹل ٹرانسفر
ہو رہے ہیں سی ای او بدل گئے ہے کمپنی کے -
اچھا کب -
حمزہ صاحب کو فارغ کر دیا گیا ہے ان کی جگہ کوئی نئی سی ای
او آئی ہے سنا ہے کافی سخت
مزاج لڑکی ہے ایک دو بندے کو نوکری سے نکال چکی ہے ڈرنے کی
ضرورت نہیں ہے - جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا دانیال نے کہا اس کے لہجے میں میم کے
لیے بےزاری تھی
آریان نےبات بدل دی عالیہ واپس پاکستان آگئ ہے عالیہ آریان
کی منگیتر تھی جو تعلیم مکمل کرنے کے لیے کچھ سالوں سے ملک سے باہر تھی- عالیہ کے
پاکستان واپس آتے ہی عالیہ اور آریان کی شادی تھی یہ تو اچھی خبر ہے دانیال بولا
اب تم جاب چھوڑ دو گے ہاں یہ تو پہلے سے طے تھا عالیہ کے پاکستان آتے ہی میں جاب
چھوڑ دوں گا وہ باتوں میں مصروف تھے رانیہ آفس میں بیٹھی دونوں کو بایتں کرتے دیکھ
رہی تھی اس نے بڑے بڑے خوبصورت نوجوان دیکھے تھے لیکن آریان کو دیکھتی رہ گئی اپنی
خوبصورتی سے لاپرواہی دانیال کے حسن میں اضافہ کرتی تھی رانیہ نےاپنے سیکریٹری سے
اس کے بارے میں مکمل لی اور اسے اپنے افس میں بلاوایا - دونوں آفس کا کام کرنے میں
مصروف تھے جب عمران صاحب نے آکر بتایا میم نے دانیال صاحب کو آفس میں آنے کو کہا
ہے آپ چاہیئے میں آتا ہوں دانیال نے کہا
میم کیا میں اندر آسکتا
ہوں
یس پلیز - بیٹھ جائے تھوڑا حیران ہو کر دانیال نے رانیہ کی
طرف دیکھا اور سوچ رہا تھا سننے میں تو آیا تھا کہ یہ بہت سخت مزاج لڑکی ہے بات
بہت نارمل انداز میں کررہی ہے مسٹر دانیال آپ سوچتے بہت ہے
جی - آپ نے بلاوایا کوئی کام تھا
نہیں مجھے آپ سے کچھ اور بات کرنی ہے
جی بتائیے -
آپ مجھےسے شادی کرے گے دانیال غصے سے اٹھا اور کچھ بولے بغیر
ہی واپس آنے لگا
روکیے - آپ میری بات کا جواب دیے بغیر نہیں جا سکتے-
کیوں کرنا چاہتی آپ مجھے سے شادی صرف اس لیے کہ میں خوبصورت
ہوں اور آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی ہے اور کیا جانتی ہے آپ میرے بارے میں کیا ہوں
کہاں سے ہوں-
مجھے باقی کچھ بھی جاننے میں دلچسپی نہیں ہے رانیہ نے جواب
دیا - آپ جیسی امیر زادیاں ایسے ہی کرتی ہے خوبصورت لڑکا دیکھا اور کہا کہ محبت ہو
گئی ہے اور پھر شادی کرلی - شادی کے کچھ دنوں بعد محبت ختم ہو جاتی ہے گھر گاڑی بینک
بیلنس یاد آنے لگتا ہے جب یہ سب نہیں ملتا تو علیحدگی اختیار کر لیتی ہیں - میں
اور آپ سے شادی کر وگا کبھی سوچیے گا بھی مت - وہ وہاں سے چلا گیا -رانیہ جس نے آج
تک جو چاہا پا لیا - اس انکار کو برداشت نہ کر سکی - اور غصے میں آفس سے نکل آئی -
گاڑی ڈرائیور کرتے ہوئے اس کا ذہن دانیال کی باتوں کی طرف تھا اس کا ایکسیڈنٹ ہو
گا جب ہوش آیا تو خود کو ہسپتال میں پایا - میں یہاں
جی بیٹا آپ کا ایکسیڈنٹ ہو گا تھا اب آپ بالکل ٹھیک ہے
ڈاکٹر اسے بتا رہا تھا
چا چا- - چا چا- بیٹا
وہ آپ کی میڈیسن لینے گئے ہیں آجاتے ہیں
چا چا آپ مجھے گھر
لے جائے پلیز وہ غلام چاچا کو دیکھتے ہی بولی -
لیکن آپ ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہے کہ گھر جا سکے - پلیز
چاچا ٹھیک ہے چلتے ہیں گھر
رانیہ کے والدین نے بڑوں کی مرضی کے بغیر ہی شادی کر لی-
گھر والوں نے ان کی شادی کو تسلیم نہ کیا اور گھر رہنے کی اجازت دی دونوں کسی اور
شہر میں رہنے لگے اور بزنس شروع کیا بزنس کچھ ہی عرصے میں لاکھوں کروڑوں تک پہنچا گیا ایک دن دونوں میاں کسی پارٹی میں گے
رانیہ ابھی چھوٹی تھی وہ گھر تھی پارٹی سے واپسی پر کار ایکسیڈنٹ میں دونوں کی موت
ہو گئی تب سےغلام چا چا نے رانیہ اور ان کے بزنس کو سنبھالا ہوا تھا رانیہ کی تعلیم
مکمل ہونے پر رانیہ نے بزنس سنبھل لیا-چاچا
اب گھر رہتے تھے -
دو دن دانیال آفس نہیں آیا تیسرے دن استعفیٰ دینے آیا تو
آفس میں رانیہ کے ایکسیڈنٹ کی باتیں ہورہی تھی استعفیٰ دےکر جب گھر آیا تو رانیہ
پہلے سے اس کے گھر میں تھی ابو کے ساتھ باتیں کر رہی تھی
اسلام وعلیکم! آپ یہاں آپ - - کی طبیعت کسی ہے - میں ٹھیک
ہوں میں آپ سے بات کرنے آئی ہوں
میرا جواب اب بھی وہی ہے میری اور آپ کی حیثیت میں بہت فرق
ہے آپ سمجھتی کیوں نہیں
دانیال آپ کو میرے امیر ہونے سے پرا بلم ہے اب میں امیر نہیں رہی میں نے
اپنی ساری دولت دارالامان میں دے دی ہے اب بھی مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا
وہ اپنی بات مکمل کر کے چلی گئی - صبح جب وہ بیدار ہوا تو رانیہ سے شادی کا فیصلہ
کر چکا تھا اس نےرانیہ کو یس کا میسج کر دیا-
"غلطیوں پر پچھتانا سیکھیں"
ازقلم فاطمہ کنیز( بہاولنگر
انسان برا نہیں ہوتا بلکہ وہ بہت سی بری عادتیں اپنا لیتا
ہے۔اور اسکی وہ بری عادتیں اسے اس کے مقام سے گرا دیتی ہیں۔
غلطی کرنا انسان کی فطرت میں ہے۔لیکن اس غلطی کو سدھارنا بھی
اس کے اختیار سے باہر نہیں ہے۔
غلطی کو سدھارنے کیلئے غلطی کو ماننا،اس پر شرمندہ ہونا لازم ہے،اگر آپ
اپنی غلطی کو مان ہی نہیں رہے ،اپنے آپ کو غلط سمجھ ہی نہیں رہے،آپ اپنے آپ کو یہ
کہہ رہے ہیں کہ میں جو کر رہا ہوں سہی ہے ،دوسروں کے سامنے تو دور کی بات آپ اپنے
سامنے ہی غلطی کا اطراف نہیں کررہے۔آپ جب اس غلطی کو بار بار دوہرائیں گے،اس پر
پچھتائیں گے نہیں،اپنے رب سے معافی طلب نہیں کریں گے تو یہ غلطی گناہ بن جائے گی
اور اگر۔ اب بھی آپ نہیں پچھتا رہے یعنی اپنے اس گناہ پر اڑ گئے ہیں تو جان لیں یہ
شیطان کی فطرت ہے۔اس نے معافی نہیں مانگی اور لعنت کا طوق اس کے گلے میں ڈال دیا گیا۔
دیکھیں!ہم انسان ہیں ہم پرفیکٹ نہیں ہیں۔ہم غلط ہو سکتے ہیں
اپنی انا کے خول سے باہر نکلیں۔غلطیوں پر پچھتانے اور معافی مانگنے کی عادت ہمیں
گناہوں سے دور رکھے گی۔
مخمور آنکھیں
حمیراعلیم
کوئٹہ
نہ کوئی الزام تم کو دونگا میں
نہ تم کو بدنام میں کرونگا
یقین مانو وہی کہونگا
تمہاری آنکھوں سے جو سنا ہے۔"
سید رجب شاہ نے چاندنی کی مخمور آنکھوں کو دیکھتے ہوئے
گنگنایا۔تو چاندنی شرما گئی۔
" ارے ہٹیے شاہ جی آپ بھی نا!"
" کیا میں بھی نا! سچ ہی تو کہہ
رہا ہوں ۔تمہاری آنکھیں قسم سے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں انکی تعریف کیلئے۔ایسے
لگتا ہے تم نے کئی پیگ پیئے ہوئے ہیں ۔یہ بڑی بڑی غزالی آنکھیں جن میں گلابی ڈورے
رتجگوں کی کہانیاں سناتے ہیں ۔کاش میں شاعر ہوتا تو پورا دیوان کہتا ان آنکھوں کی
شان میں ۔" رجب شاہ نے بہکتے ہوئے کہا۔
سید رجب شاہ علی پور کی مرکزی امام بارگاہ کے متولی تھے۔یہ امام
بارگاہ انکے جدامجد کے زمانے سے انکے خاندان کے زیرانتظام چلی آ رہی تھی۔ یہی وجہ
ہے کہ سارے شہر میں انکی عزت کی جاتی تھی۔رجب شاہ کی پہلی شادی ان کی پھوپھی زاد
سے کم عمری میں ہی اس وقت کر دی گئی تھی جب وہ اعلی تعلیم کیلئے لندن روانہ ہو رہے
تھے۔کیونکہ یہ سیدوں کی روایت تھی کہ پہلی بیوی خاندانی اور سادات ہی ہو گی۔سید
صاحب لندن سے پلٹے تو ایک ساوتھ افریقن کلاس فیلو سے بھی نکاح کر چکے تھے۔مگر وہ
پاکستان آنا نہیں چاہتی تھی لہذا اسے وہیں ایک گھر لیکر دے دیا اور خود واپس آ گئے
کہ سارے ٹھاٹ بھاٹ تو بارگاہ کے مرہون منت تھے۔اگر وہ اس کا انتظام و انصرام نہ
سنبھالتے تو کون پوچھتا انہیں ۔
لندن
میں رہتے ہوئے وہاں کے سارے مزے بھی لوٹے تھے شاہ جینے۔نائٹ کلبز، کسینو،
وائن بارز سب جگہ کی خوب زیارت کی تھی انہوں نے ۔کچھ خاندانی وجاہت و رعب بھی تھا
کہ لڑکیاں پروانہ وار ان کے اردگرد گھومتی تھیں کچھ لندن کےآزاد ماحول کا اثر تھا
کہ شاہ جی واپس آ کر لاہور میں رہائش پذیر ہوئے کہ مقصود ایک لیدر فیکٹری لگانا
تھا آخر کو ایم بی اے کی ڈگری کا بھی تو کوئی مصرف تھا نا۔
کاروبار
شروع کرتے ہی شاہ جی کو اپنے پرانے مشاغل کی یاد ستانے لگی چنانچہ ایک دن ڈرائیور
کو بلا کر حکم صادر کیا۔
" رفیق یار سنا ہے شاہی مسجد کے
عقب میں بڑا اچھا کھانا ملتا ہے۔ذرا چکھاو تو ہمیں بھی ان لذیذ ڈشز کا مزہ۔"
رفیق پرانا ملازم تھا اور اچھی طرح سمجھتا تھا کہ کھانے کا تو بہانہ ہے شاہ جی کا
اصل مقصد تو کچھ اور ہے۔لہذا جھٹ سے حسب منشاء جواب دیا۔
" ضرور سرکار جب آپ حکم کریں ۔"
" بس پھر آج شام ہی چلیں
گے۔" شاہ جی کا عندیہ پا کر رفیق نے تیاری پکڑی اور شام کو شاہ جی کو پہلے
سردار کی مچھلی اور گوالمنڈی سے دیسی گھی میں بنی چانپیں کھلائیں پھر اس وقت کی
مشہور نائیکہ راحیلہ بائی کے پاس لے گیا جس کی بیٹی چاندنی کے چرچے پورے شہر میں
پھیلے تھے۔چاندنی ویسے تو عام سی لڑکی تھی مگر اس کی آنکھیں قیامت خیز تھیں اور
آواز میں جادو تھا۔بس یہی دو چیزیں شاہ جی کو گھائل کر گئیں ۔شاہ جی نے راحیلہ بائی
سے منہ مانگی قیمت پہ چاندنی کو خرید کر اس سے نکاح کر لیا اور گلبرگ میں دو کنال
کی کوٹھی لیکر اس میں شفٹ کر دیا۔ساتھ اسلئے نہ رکھا کہ علی پورسے والد والدہ بیگم
اور دوسرے رشتےداروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔
راحیلہ بیگم
نے منہ مانگی قیمت پا کر چاندنی کو رخصت تو کر دیا مگر جانے سے پہلے سمجھا دیا
تھا۔
" دیکھ میری جان ! یہ جو چوہدری،
نواب ، سادات ہوتے ہیں نا سب ہمارے ہاں کے مستقل گاہک تو صدیوں سے ہیں کبھی کبھار
دورہ پڑتا ہے تو نکاح بھی کر لیتے ہیں مگر جب دل بھر جاتا ہے یا خاندانی بیگمات کو
پتہ چلتا ہے تو دباو میں آ کر چھوڑنے میں بھی دیر نہیں کرتے۔اسلئے اس سے پہکے کہ
تجھے واپس بھیجا جائےجتنا سمیٹ سکے سمیٹ لینا۔"
اور چاندنی نے یہ بات پلے باندھ لی۔شاہ جی کوٹھی تو پہلے ہی
اس کے نام کر چکے تھے اور اس کی ہر ایک چیز امپورٹڈ تھی۔لگی بندھی رقم جو ماہانہ
اس کے اکاونٹ میں ڈالی جاتی تھی اس کے علاوہ بھی وہ جو مانگتی جب مانگتی کبھی
انکار نہ سنا تھا۔اس نے خوب مال بٹورا۔
ایک دن شاہ جی کو فون کیا تو نہایت گھبرائی ہوئی بولی۔
" غضب ہو گیا شاہ جی! میں شاپنگ
کیلئے گئی تھی وہاں سے اماں کیطرف نکل گئی۔واپس آئی تو گھر خالم خالی پڑا
تھا۔ڈاکوؤں نے ایک تنکا تک نہیں چھوڑا ۔" شاہ جی کو دھچکا تو لگا کہ کروڑوں
کا سامنا لوٹا گیا تھا مگر چاندنی کی آنکھوں میں آنسو بھی برداشت نہ تھا۔اس لئے
فورا کہا۔
" روو مت میری جان۔تمہارے سر کا
صدقہ گیامیں تمہیں اس سے بہتر سامان لے دونگا۔" چاندنی خوش ہو گئی۔ کچھ عرصہ
گزرا تو شاہ جی پہلی بیگم کے ہاں بیٹا اور ساوتھ افریقن بیگم کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔شاہ
جی عقیقے کی تقریب میں شرکت کیلئے علی پور میں مقیم تھے۔کہ ایک بار پھر چاندنی نے
انہیں بری خبر سنائی
" ہائے ہائے شاہ جی! میں تو ایک
بار پھر لٹ گئی۔اس بار تو کمبختوں نے گارڈز کو باندھ کے ڈال دیامیرے سر پہ گن رکھی
اور میراسارا زیور اور پیسہ بھی لوٹ کر لے گئے۔" اس نے روتے ہوئے کہا تو شاہ
جی کوکچھ کھٹکا۔
مگر چاندنی کو تسلی دی۔
" لگتا ہے یہ کوئی خاص گروہ ہے یا
کوئی دشمن ورنہ ہم سے زیادہ اور اچھی کوٹھیاں ہیں گلبرگ میں وہاں تو کبھی چھ ماہ میں
دو بار ڈاک نہیں پڑا اور وہ بھی ایسے کہ سب کچھ ہی سمیٹ لیجائیں ۔" شاہ جی نے
اپنے مینیجر رحمت سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تو وہ بولا۔" چھوٹا منہ بڑی
بات شاہ جی۔اگر برا نہ منائیں تو ایک بات کہوں؟ "
" ہاں !ہاں !بولو کیا کہنا
چاہتے ہو۔" وہ شاہ جی کا خاص بندہ تھا اس لئے منہ چڑھا بھی تھا۔چنانچہ کبھی
کبھار شاہ جی اس کی بری بات بھی برداشت کر جاتے تھے۔" شاہ جی چاندنی بیگم جس
جگہ سے ہیں وہاں عورت میں وفا صرف پیسے سے ہوتی ہے مرد سے نہیں ۔مجھے لگتا ہے بیگم
صاحبہ نےخود یہ چوریاں کروائی ہیں ۔اگر آپ حکم دیں تو تفتیش کرواوں؟ " رحمت
نے اجازت چاہی۔
" ہممم کہہ تو تم ٹھیک ہی رہے
ہو۔شک تو مجھےبھی ہے۔ایسے کرو اچھو کو لاہور والی کوٹھی میں بھیج دو اور اسے سمجھا
دینا کہ بیگم صاحبہ پر نظر رکھنی ہے۔"
رحمت اچھو،
جو کہ شاہ جی کا خاندانی ملازم تھا ، کو لیکر چاندنی کے پاس پہنچا اور کہا۔
" بیگم صاحبہ! شاہ جی نےاپنے
گارڈکو بھیجا ہے یہ آپکی حفاظت کیلئے ہے۔انہیں آپکی بہت فکر رہتی ہے۔اس لئے آج سے یہ
چوبیس گھنٹے آپکے ساتھ ہی رہے گا۔رات کوسوئے گا بھی آپکے بیڈ روم کے باہر۔"
چاندنی بھی ایک کائیاں تھی سمجھ گئی کہ شاہ جی مشکوک ہو گئے
ہیں ۔اسی لئے کوئی بات نہ کی۔اب اچھو ہر جگہ سائے کیطرح اسکے ساتھ ہوتا تھا۔دو سال
تک تو مجبورا اسے آرام سکون سے گزارنے پڑے۔ایک دن وہ راحیلہ بیگم کیطرف گئی تو
بلبلا اٹھی۔
" اف اماں! کب ختم ہو گی یہ قید
۔قسم سے میں تو بیزار ہو گئی۔تم نے تو کہا تھا شاہ جی کا دل جلد ہی اچاٹ ہو جائے
گا۔مگر یہاں توشاہ جی اپنی پہلی بیگم سے زیادہ میرا خیال رکھتے ہیں ۔بس اب واپس نہیں
جاونگی میں ۔کہہ دیا ہے میں نے۔"
" اے بیٹا!پاگل ہوئی ہے کیا۔سونے
کے انڈے دینے والی مرغی بھی کوئی ذبح کرتا ہے۔مانا شاہ جی کے معاملے میں مجھ سے
اندازے کی غطی ہو گئی لیکن اگر وہ تجھے اپنے دل اور گھر کی رانی بنائے ہوئے ہیں تو
عیش کر۔لگی بندھی رقم کیساتھ ساتھ دنیا بھر کا آرام کہاں ملے گا تجھے۔یہاں رہ کر
تو نری خواری ہی ہے پھر ایک وقت تک ہمارا سکہ چلتا ہے۔جوانی ڈھلی نہیں آواز کانپی
نہیں کوئی نیا ہیرا چمکا نہیں کہ ہمارا دور ختم۔اسوقت توہر طوائف کا دل یہی چاہتا
ہے کہ کوئی ہو سر کا سائیں جو ہمیں بھی گھر بیٹھ کے کھلائے۔تو سمجھ تجھے اللہ نے
وہ سائیں دےدیا۔اب صبر شکر کر کے وہیں رہ۔" راحیلہ بائی نے اسے پیار سے اونچ
نیچ کا احساس دلایا۔
" پر اماں یہ دوپٹہ سر پہ
رکھنا۔پردے والی کار میں نکلنا۔یہ سب مجھ سے نہیں ہوتا۔" چاندنی کو حجاب اور
گھریلو ماحول کی عادت ہی کہاں تھی۔
بیٹی
ستارہ منیر
ہر بندھن ہر رسم ہر
ظلم ہر زنجیر میں بیٹی کو ہی کیوں باندھ دیا جاتا ہے۔اگر بیٹی یا لڑکی کوئی فیصلہ
لیتی ہے تو غلطی کہا جاتا ہے۔ نظروں سے گرایا جاتا ہے خاموش کہا جاتا ہے لڑکیوں کو
بولنے کی اجازت نہیں ہے یہ کہا جاتا ہے خاموش کروادیا جاتا ہے۔ہر اذیت بیٹی سہتی
ہے غلطی پر معاف بھی نہیں کیا جاتا۔جس طرح جیسے دھکا دےدیا جاتا ہے بیٹی خاموشی سے
سہ لیتی ہے جب شادی کردی جاتی ہے تو کہ دیا جاتا ہے اپنا گھر اپنا ہوتا ہے گھر بسا
لینا بیٹی خاموشی سے اس بات کا پالن کرتی ہے اور ہر دکھ برداشت کرکے گھر بسانے کی
کوشش کرتی ہے۔اگر اس کی خاموشی میں ہی اپنے بڑوں کے فیصلوں سے ہی گھر اجڑ جائیں۔
ہمت ختم ہو جائے آنسو آنکھ کے کونے میں دفن ہوجائیں ۔خواہشیں لبوں پر ہی دم توڑ
جائیں تو بات نصیب پر آجاتی ہے۔بیٹی کی قدر کریں کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہوجاتے تھے۔
فوری ردعمل باعث شرمندگی
لیلیٰ ارم میانوالی
ندا اور کرن دونوں بہنیں تھی ندا خاموش اور ٹہری ہوئی طبیعت کی تھی اور جب کہ کرن بہت باتونی اور جلد باز سی۔ ان کے گھر
میں ایک بلی آیا کرتی تھی ندا اس کو روز کچھ نا کچھ کھانے کو دے دیتی اس
طرح بلی روز آتی اور ندا سے مانوس ہوگئی۔
انہی دنوں گھر میں ایک مرغی کے انڈوں سے چوزے نکلے۔ بلیاں عام طور پر چوزے پکڑ کر
کھا جاتیں اس لئے انہیں بھگایا جاتا تھا۔
پر یہ بلی ایسا نہ کرتی یہ ان مرغیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ ایک دن ایسا ہوا کہ کرن نے چوزے گنے ان میں سے
ایک کم لگا، اس پر اس نے کہا ایک چوزہ بلی کھا گئ اور ندا کی بلی کو مار بھگایا
ندا کو اس کا بہت دکھ ہوا پر اسے بھی لگا کہ چھوٹےمرغی کے بچوں کوبچانے کیلئے اس کی
بہن نے ٹھیک کیا اگلے دن ندا نے خود جب مرغی کے چوزے گنے وہ پورے تھے۔ ندا نے جب یہ
بات اپنی بہن کرن کو بتائی وہ بہت پچھتائی
کہ اس نے جلدی میں بلی کو اتنا مارا اسے
اپنی اس حرکت پر بہت دکھ ہوا اور
شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس لئے کہتے ہیں فوراً ردعمل نہ دیا جائے اس سے آپ کو پچھتانا پڑ سکتا
ہے۔
چال
مہناز علی
اسسٹنٹ کمشنر
تم جو چال چلانے
اتنے ماہر بن چکے ہو یہ تم مجھ پر چال چلاتے چلاتے بنے ہو
تیری ہر چال تیری ہی اندر کی بے سکونی کو ظاہر کرتی ہے
تم نے مجھے ناکام کرنے کے لئے ہر ایک حد کراس کی پھر بھی
ناکام رہے یہ میری اندر کی پختگی اور
مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے
تجھے تڑپانے کے لئے میرا ہونا ہی کافی ہے
لوگوں کو تم فارغ لگتے ہو فارغ نہیں ہو تیرا ہر لمحہ مجھے
ناکام کرنے رسوا کرنے اور نیچے گرانے میں گزرتا ہے
تیرا ہر بار نیا چال تیرے پرانے چال کی ناکامی کو ظاہر کرتا
ہے
بد دعا لگی ہے تجھے کہ اللہ نے تجھے مجھ جیسے مضبوط انسان
کو ہرانے اور نیچا دکھانے کے لئے مختص کیا ہے اور تیری ہمیشہ کی ناکامی اللہ کی
پکڑ کو ظاہر کرتا ہے
پیٹھ پیچھے تیری ہر وار میرے سامنے کے مقابلے میں تیری
ناکامی کو ظاہر کرتا ہے
"بےحسّی"
ازقلم: عمارہ آرزو
ڈسکہ
بےحس ہونا بھی ایک نعمت ہے۔ایک دردمند دل رکھنا ایسا ہے،
اپنے جذبات دوسروں کے پیروں تلے رکھ دیں اور کہیں کہ لیں ہمارے احساسات کو بے دردی
سے روند ڈالیں۔ آپ چاہے دوسروں کیلئے جتنا بھی مخلص ہو جائیں، ان کی خواہشات کا
احترام کریں، ان کو اول درجہ پر رکھیں مگر بدلے میں آپ کو وہ مقام نہیں دیا جاتا
جس کے آپ حقدار ہوتے ہیں اور آپ کی مخلصی کو تار تار کر دیا جاتا ہے۔
میرا نظریہ ہے کہ دوسروں کیلئے بےحس ہونا بہت بہتر ہے بجائے
یہ کہ انسان خود کیلئے ایسا ہو۔ ایک پرواہ کرنے والا درد منددل رکھنا بھی انسان کو
خود اذیتی میں مبتلا کردیتا ہے۔ جہاں آپ دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں بیک وقت خود کیساتھ
ناانصافی کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دل کو مردہ، ویران اور اجاڑ قبرستان میں بدل
رہے ہوتے ہیں۔ آخرکار آپکی اپنی تمام خواہشات دم توڑ جاتی ہیں اور دوسروں کے
ہاتھوں آپکی کششِ قلبی کی خوب تذلیل ہوتی ہے۔ اگر آپ دوسروں کیلئے بےحس نہیں ہو
سکتے تو خدارا خود کیساتھ بھی یہ ظلم نہ کریں۔
بےحسی جیسی نعمت آپکو بعد میں آنے والی دردِکشت اور گریہ و
زاری سے محفوظ رکھتی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگ ایسے دیکھے ہیں جو
بجائے دوسروں کا سوچنے کے وہ خودکیلئے احساس مند ہوتے ہیں اور ایک اچھی، تکالیف سے
مبراء زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ میرا ماننا ہے، ہر انسان میں بےحسی کا عنصر زیادہ
نہ سہی مگر کم ضرور ہونا چاہیے تاکہ شکستہ حالی سے بچا جا سکے۔
"باپ اور بیٹی"افسانہ
مہرالنساء انور چندھڑ
مدہریا والا کالر
ضلع گوجرانوالہ
جنوری کی ایک سرد شام جب عمل کے بابا ہاتھوں میں سوٹ کیس لیے
گھر داخل ہو رہے تھے اس حال میں کہ وہ ماسٹری سے ریٹائرمنٹ حاصل کر چکے تھے ۔بابا
سردی کی وجہ سے ٹھر ٹھرا رہے تھے اور آتے ہی آگ کے پاس بیٹھ گئے۔بابا کی گھر میں
آمد ہوتے ہیں سب بچوں نے بابا کے اردگرد ہجوم بنا لیا اور سارے دن کے موضوع
پرگفتگو کرنے لگے ۔باتیں کرتے کرتے رات گہری ہوتی گئی بابا نے سب
کو شب بخیر کہا اور سب اپنے اپنے بستر پر
لیٹ گئے ۔رات آرام کرنے کے بعد بابا تہجد کے لئے اٹھے ۔تہجد ادا کرکے جب بابا بستر
پر واپس جانے لگے تو ان کے کانوں میں ایک
ننھی پری کے رونے کی آوازیں پڑیں۔ یہ 4 جنوری کی سحری کا وقت تھا جب اللہ تعالی نے
انہیں ایک ننھی پری سے نوازا ۔عمل کے بابا کی آنکھوں میں نمی ٹھہری ۔ہلکا سا مسکرا
ئے اور آسمان کی طرف دیکھا ہاتھ اوپر کرتے
ہوئے خدا تعالیٰ کی اس رحمت کا شکر ادا کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ آسمان پر صبح کی سرخی
پھیلنے لگی ۔ رات کا گھپ اندھیرا صبح کی
ٹھنڈی روشنی میں بدلنے لگا ۔خوش قسمتی کا یہ عالم کے بابا نے خود اس ننھی پری کے
کانوں میں آذان دی ۔عمل آہستہ آہستہ بڑی ہوتی گئی اور اس کے بابا اسے بڑا ہوتا دیکھ
کر بہت خوش ہوا کرتے تھے ۔اپنی اس خوشی کا اظہار کبھی ہلکی مسکراہٹ سے کرتے اور
کبھی آنکھوں میں آنسو لیے ۔ عمل اور اس کے
بابا کے درمیان محبت کا رشتہ گہرائی پکڑتا گیا ۔نہ بیٹی باپ کے بغیر رہ سکتی اور
نہ باپ بیٹی کے ۔بیٹی سارا دن اپنی شرارتیں بابا کو دکھاتی اور بابا اسے دیکھ دیکھ
کر خوش ہوتے رہتے ۔بابا کہیں چلے جاتے تو عمل بابا کی واپسی تک ان کی راہ تکتی ۔
عمل اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے بابا کا جی
بہلاتی رہتی اور بابا اس سے خوش ہوتے رہتے ۔دن بہت خوبصورت جا رہے تھے عمل کی اپنے
بابا سے بے پناہ محبت اس کی زندگی کو خوشگوار بناتی رہی ۔ عمل اب بڑی ہو گئی تھی ۔
اسے اپنی پڑھائی کے لئے گھر سے جانا پڑا ۔ عمل اپنے بابا کے کہنے پر چلی تو گی لیکن
وہاں دن رات اپنے بابا کی یاد میں روتی
رہتی ۔ادھر اپنی دعاؤں میں رخصت کرنے والے بابا
بھی عمل کے لیے بےچین رہتے ۔عمل دن
رات محنت کرتی تاکہ اپنی پڑھائی مکمل کرکے اپنے بابا کے پاس واپس چلی جائے۔ عمل جب چھٹیوں میں گھر آتی تو اپنے
بابا کے ساتھ کھیلتی ۔بے شک عمل بہت بڑی ہو چکی تھی لیکن اس کے بابا کے لیے وہی
ننھی بچی تھی جس سے وہ اپنی گود میں اٹھایا کرتے تھے ۔ عمل جب واپس چلی جاتی
تو وہاں سب سے اپنے بابا کی باتیں کرتی ۔ ایک دن عمل اپنی دوستوں کے ساتھ
پڑھائی کے لیے بیٹھی تھی ۔ عمل کا دل بہت
بے چین تھا ۔ دل میں طرح طرح کے خیال
اٹھ رہے تھے ۔ عمل نے اپنی دوستوں کو وہیں چھوڑا اور اپنے کمرے میں چلی گئی
۔ اپنے رب کے آگے گڑگڑا کر دعائیں کرنے لگی ۔
چونکہ عمل نے اس ہفتے ہر ایک سے گھر جانے کو کہا لیکن کسی نے بھی اپنی
مصروفیات کی وجہ سے اس کی بات پر توجہ نہ دی۔ دسمبر کی دوپہر عمل اپنے بابا کے خیالات میں مصروف بیٹھی تھی۔وہ بھی
انہی خیالوں میں گم تھی کےاچانک اس کے فون
کی گھنٹی بجی ۔عمل نے نہ چاہتے ہوئے فون اٹھایا اور اپنی پریشانی
کو چھپاتے ہوئے اپنے بھائی سے باتیں کرنے لگی ۔ عمل کے بھائی نے اسے بتایا کہ اس
کے بابا اب نہیں رہے ۔عمل کے ہاتھوں سے فون گرا اور عمل رونے لگی ۔ جیسے سکتے کی
حالت میں ہو ۔ اس کی دوستیں اس سے پوچھنے لگیں لیکن عمل اپنے ہوش گنوا بیٹھی تھی ۔
یہ اس کی زندگی کی اندھیری شام تھی اس کی زندگی میں روشنی کا دیا بجھ گیا تھا ۔
عمل اپنے بابا کی یاد میں تڑپ اٹھی ۔ عمل
دکھوں کی گہری گہرائی میں ڈوب گئی ۔ وہ بکھر کر
ریزہ ریزہ ہو گئی۔
اس کی زندگی کہ تمام اجالے
کالی اندھیری راتوں میں بدل گئے ۔لیکن پھر بھی اس نے اپنے بابا کے خوابوں کی
تکمیل کے لیے دن رات محنت کی ۔ اکثر دل ہی دل میں بابا سے باتیں کیا کرتی تھی ۔
اور اپنی زندگی میں آگے بڑھتی رہی ۔ ایک بیٹی جو اپنے بابا سے بے انتہا محبت کرتی
تھی ان کی جدائی کے بعد اپنے بابا کا عکس رو برو
رکھتے ہوئے ان سے ہم کلام ہوتی ۔
اللہ تعالی ہمیں بھی اپنے بڑوں کے نیک خوابوں کو پورا کرنے
کی توفیق عطا فرمائے( آمین)۔
”میری
روشنی میری ٹھنڈک میرے بابا
میری زندگی میرا
سکون میرے بابا
میری کامیابی کے ہر قدم کی سیڑھی میرے بابا
میرے دل کی ہر آرزو ہر تمنا میرے بابا "
ماں تو ماں ہوتی ہے
تحریر زنجبیل فاطمہ میانوالی
ماں نہ ہو تو انسان کی زندگی ایسے ہے جیسے پانی کے بغیر
مچھلی صباحت کی امی کو اس دنیا سے گیا ہوئے قریباً 20 سال ہوگے تھے اس نے اس عرصہ
میں یہ محسوس کیا کہ ماں کے بغیر دنیا آسان نہیں سب جو ماں کے ہوتے ہوئے اس کے
اپنے تھے اب ڈھونڈ نے سے بھی نہ ملتے تھے اس سے یاد آیا کہ کس طرح اس کی امی اس کے ناز نخرے اٹھاتی تھی
صباحت دس کی اب 20 سال کی خوبصورت نوجوان لڑکی کے روپ میں ڈھل چکی تھی اس عمر کی
لڑکیوں کے خواب ہوتے ہیں کہ وہ دولہنیں بنے مگر یہاں تو احساس کم تری محرومی نے ڈیرہ
جما رکھے تھے وہ اکثر ماں کو یاد کرتی رہتی تھی کسی کی ماں کو دیکھ لیتی تو اس کا
دل کرتا کاش اللہ پاک میری بھی امی ہوتیں میں ان کے ساتھ بہت ساری باتیں کرتی اور
میری امی بھی مجھ سے پیار کرتی میرے لئے گڈیا لے آتیں وہ سوچ سوچ کے روتی رہتی اس
کی زندگی سے گویا خوشیاں تو رحضت ہو چکی تھی ہر مدرڈز کو اس کی محرومی اور بڑھ جاتی
جب اخبارات و رسائل میں تحریریں پڑھتی سب اپنی ماؤں سے محبت کا اظہار کرتے اور وہ
پاگلوں کی طرح پڑھ پڑھ کے روتی کے والد صاحب نے دوسری شادی کرلی تھی جس کی وجہ سے
وہ صباحت کا خیال نہیں رکھ سکتے تھے انکو شگفتہ بیگم پہ شاید اندھا یقین تھا کہ وہ
صباحت کو ماں کی طرح ہی پیار دے گئی شروع شروع میں کے دنوں میں صباحت سے انہوں نے
بہت پیار کیا مگر پھر وہی سوتیلی ماؤں
والا رویہ شروع کردیا جب صباحت کے بھائی وقاص آئے تو رہی سہی محبت بھی ختم
ہو گئی صباحت سارا دن کام کرتی ایک لمحہ بھی آرام نہ کرسکتی تھی صباحت رفتہ رفتہ
ذہنی مریضہ بن گئی تب ان کے والد کو ڈاکٹرز نے کہا کہ آپکی بیٹی کسی پریشانی کا
شکار ہیں آپ انکا خیال رکھا کریں پلیز وقار صاحب نے توجہ دی سب کچھ دیکھا شگفتہ بیگم
کے رویہ پہ غور کیا جو انکے سامنے صباحت ہمدرد اور ان کے جانے کے بعد پکی دشمن ایک
دن اچانک وقار صاحب گھر آئے ابھی دروازے پر تھے کہ کانوں میں شگفتہ بیگم کے الفاظ
گونجے اے منحوس تو مر ہی کیوں نہیں جاتی زندگی عزاب کرکے رکھ دی ہے ہماری دل تو
کرتا تجھے زہر دے کے مار ہی دوں پر پھر خیال آتا کہ کام والی رکھنی پڑے گئی اسے پیسے
بھی دینے پڑے گے اور تو تو جوتے کھا کے بھی کام کردتیی ہے۔ وقار صاحب کو احساس
ندامت ہوا کہ وہ کیسے صباحت سے اتنے بے خبر رہے ان کے سامنے وہ آج سے دس سال پہلے
والی صباحت آئی جو بہت بہت زیادہ خوش ہمیشہ ہنستی رہتی ہر ایک کی فرماں بردار وقار
صاحب غصہ میں شگفتہ بیگم پر ہاتھ اٹھانے ہی لگے تھے کہ صباحت درمیان میں آگئ بابا
پلیز امی کو کچھ نہ کہیں، نہیں ہے یہ تمہاری ماں ،بابا ماں تو ماں ہوتی ہے سوتیلی
سگی نہیں امی جو کچھ بھی کہتی ہیں میرے فائدے کے لئے کہتی ہیں کیوں کے میری ماں تو
ہے نا شگفتہ کے دل میں جو نفرت تھی ایک ہی لمحہ میں دور ہوگئی بے احتیار اس نے
صباحت کو گلے سے لگا لیا
*چکن ٹماٹو پاستا بنانے کی ترکیب
ایمن زوالفقارسرگودھا
*
اجزاء
2-3 کھانے کے چمچ تیل
پیاز باریک کٹی ہوئی۔
3-4 لونگ لہسن کٹا ہوا۔
ابلے ہوئے ٹماٹر
چمچ ٹماٹر کا پیسٹ
¼ پیکٹ پینے پاستا ابلا ہوا
2 چکن بریسٹ جولین میں کاٹ لیں۔
½ کپ بٹن مشروم
اجمودا کا ¼ گچھا کٹا ہوا۔
2 چمچ ھٹی کریم
نمک حسب ذائقہ
1 عدد پسی ہوئی کالی مرچ
1 چمچ براؤن شوگر
کھانا پکانے کا طریقہ
1. ایک کڑاہی یا گہری پین میں درمیانی
آنچ پر تیل گرم کریں۔
2. کٹا ہوا لہسن اور پیاز شامل کریں۔
3. 2 منٹ تک یا نرم ہونے تک بھونیں۔
. اب چکن ڈالیں اور 5 منٹ تک پکائیں یا
جب تک چکن گلابی نہ ہو جائے۔
کٹے ہوئے اب ٹماٹر، ٹماٹر کا پیسٹ اور براؤن شوگر شامل کریں۔
اچھی طرح مکس کریں۔
اب اس میں نمک، کالی مرچ، کٹی ہوئی مشروم، ابلا ہوا پاستا
اور پارسلے شامل کریں۔
منٹ تک پکائیں پھر آنچ بند کر دیں۔
اب ھٹی کریم ڈالیں اور اچھی طرح ہلائیں۔
اسے سرونگ ڈش میں نکال لیں۔
مزیدار چکن ٹماٹو پاستا پیش کرنے کے لیے تیار ہے۔
لطف اٹھائیں!!
فرزانہ کوثر لاہور
آج کل سب لوگ تھک جاتے ہیں اس تھکن کو دور کرنے کے لے
تھوڑاگرم پانی لیں اور تھوڑا سا نمک اس میں ڈال اور دس منٹ تک اس پانی میں اپنے
پاؤں ڈالیں اس سے أپ کو آرام ملے گا۔
سردیوں میں اکثر جلد اور بال خراب ہو جاتے ہیں اس سے بچنے کے لے گرم پانی
کی جگہ ٹھنڈے پانی کا استعمال کریں آخر میں ٹھنڈے پانی کے استعمال سے ان مسئلوں سے
بچ سکتے ہیں۔