دل کا سودائ

 

Image by pixabay

ازقلم سیدہ الماس فاطمہ

شہر  کراچی

علاقہ بفرزون    

 دل اس کا تیزی سے دھڑک رہا تھا وہ  تیز قدموں سے سے بھاگتا جا رہا تھا اتنے میں اس کی نظر  ایک لڑکی پر پڑی  جوبیٹھے ہوئے زارو قطار رو رہی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے جارہے تھے  اور خاموش  تھی وہ رکا اور قدموں کو آہستہ آہستہ بڑھانے لگا اور اس لڑکی کے پاس جا کر رکا     پھر اس سے مخاطب ہونے کے لیئے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہہ کر مخاطب کرے اس نے گھبراتے ہوئے لہجہ میں کہا سنو  کیا ہوا  لڑکی کیوں  رورہی ہو مجھے بتاؤ تم کون ہو  یہاں اکیلے کیا کرہی ہو وہ چونکی اور بھیگی نظروں سے اسے دیکھنے لگی بلکل خاموش تھی اور اس کی خاموشی اسے پریشان کرتی رہی پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئ اور لڑکھڑاتے پیروں سے چل دی اس کے قدم اٹھ نہیں پا رہے تھے وہ معذور تھی اور وہ ہکا بکا اسے دیکھتے جارہا تھا پھر وہ بھی چل پڑا اپنی منزل کی طرف اور راستے بھر سوچتا گیا پھر گھر پہنچ گیا اپنے کمرے میں  جا کر بے سود لیٹ کر پھر اس کےخیالوں میں گم ہو گیا اور سوچتا رہا  طرح طرح کے خیال دل میں آرہے تھےاور وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا  اور  پھرنہ جانے کب  آنکھ  لگ گئ اور وہ سو گیا صبح امی  کی آواز  نے کانوں میں رس گھول رہی تھی راحیل بیٹا ناشتہ کرنے آؤ  آنکھ کھلتے اپنی ماں کو دیکھ  رہا تھا سے  بچپن سے ہی ماں کا لاڈلہ تھا ناشتہ کے ٹیبل پر بیٹھا اداس  تھا ماں نے پوچھا کیا بات ہے بیٹا تم اداس ہو پریشان لگ رہےہوکیا بات ہے اس نے ناشتہ کرتے ہوئے دھیمے لہجےکہا کچھ نہیں بس ایسے ہی سوچ رہا تھا پھر وہ ماں سے اجازت لے کر نکل پڑا اس راستے ہی چل پڑا جہاں سے لوٹا تھا اور اس کی تلاش میں کہ شاید وہ لڑکی نظر آئے لیکن وہ نہیں آئ اور وہ بیٹھا رہا  شام ہو گئ پھر وہ اداس ہو کراس کو راستے میں بھی خیال تھا کہ وہ آج اپنے سارے دل کا                   حال بیان کر دے گا لیکن وہ نہیں ملی وہ سوچتا رہا کہ   اتنی دکھی ہے اس کے گھر کا پتہ مل جائے تو اس سے رشتہ بھیجوں ایک نظر میں اس سے محبت یو گئ وہ اپنے قدموں کو آہستہ آہستہ بڑھاتے جا رہا تھا گھر پہنچ کر معمول کے مطابق کمرے میں آکر سو گیا پھر خوابوں کی دنیا میں کھو گیا اور پھر صبح فون کی گھنٹی سے اٹھ  گیا جیسے ہی فون اٹهایا کوئ آواز نہیں پھر اس تشویش ہو رہی تھی کہ کون ہو سکتا ہے پھر وہ گھر سے چل پڑا اس لڑکی کی تلاش میں لیکن وہ تو نہیں آئ تھی راستے میں ایک ڈآئری ملی جس میں نام تھا سیما غزل اور پتہ اس نے ڈآئری کا ورق کھولنا شروع کیا پھر پڑھنے لگا اور اچانک سے خیال آیا گھر جا کر پڑھوں گھر پہنچا تو ڈآئری پڑھتے ہوئے فون نمبر پر نظر پڑی اس نے نمبر ڈائل کیا لیکن کوئ جواب موصول نہیں ہوا تو پھر پریشان ہوا اور سوچا اب کیا کرے اپنی امی کو سب کچھ بتایا اور اس ایڈریس پر اپنا رشتہ بھیجا امی گئ تو پتہ چلا کہ وہ لڑکی معذور ہونے کے ساتھ گونگی بھی تھی اس کے گھر والوں نے کہا ہم اس کا رشتہ دھوکے سے نہیں کر سکتے لڑکی پرائ ہوتی ہے دوسرے گھر والے اس کو طعنےدے کر مار نہ دے ہم اس کا رشتہ کسی اعتبار والے شخص سے کرنا چاہتے ہیں جو ہماری لڑکی کا ساتھ زندگی بھر نبھائے ہمسفر  سچا ہو  راحیل کی امی انکارسن کرگھر واپسی چل دی اور راحیل سے  سب بتا ڈالا اور وہ سن کر اس کو سکتا طاری ہو گیا  ہو آگے وہ کچھ کہہ نہ سکا  حسرت لیئے اپنے دل کو سمجھایا کہ اس لڑکی سے کیسے رابطہ کرے اور دل ہار گیا لیکن اس نے ہار نہ مانی اس رشتے کے لیئے ہاں کر دی اور زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا اس لڑکی کے گھر اپنی والدہ کو لے گیا رشتہ پکا کردیا اور دل کا سودائ جیت گی


آپ کی رائے

جدید تر اس سے پرانی