ازقلم سیدہ الماس فاطمہ
شہر
کراچی
علاقہ بفرزون
دل اس کا تیزی سے دھڑک رہا تھا وہ تیز قدموں سے سے بھاگتا جا رہا تھا اتنے میں اس
کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جوبیٹھے ہوئے زارو قطار رو رہی تھی اس کی
آنکھوں سے آنسو بہتے جارہے تھے اور
خاموش تھی وہ رکا اور قدموں کو آہستہ
آہستہ بڑھانے لگا اور اس لڑکی کے پاس جا کر رکا پھر اس سے مخاطب ہونے کے لیئے سمجھ نہیں
آرہا تھا کیا کہہ کر مخاطب کرے اس نے گھبراتے ہوئے لہجہ میں کہا سنو کیا ہوا
لڑکی کیوں رورہی ہو مجھے بتاؤ تم
کون ہو یہاں اکیلے کیا کرہی ہو وہ چونکی
اور بھیگی نظروں سے اسے دیکھنے لگی بلکل خاموش تھی اور اس کی خاموشی اسے پریشان
کرتی رہی پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئ اور لڑکھڑاتے پیروں سے چل دی اس کے قدم اٹھ نہیں پا
رہے تھے وہ معذور تھی اور وہ ہکا بکا اسے دیکھتے جارہا تھا پھر وہ بھی چل پڑا اپنی
منزل کی طرف اور راستے بھر سوچتا گیا پھر گھر پہنچ گیا اپنے کمرے میں جا کر بے سود لیٹ کر پھر اس کےخیالوں میں گم ہو
گیا اور سوچتا رہا طرح طرح کے خیال دل میں
آرہے تھےاور وہ سوچنے پر مجبور ہو گیا
اور پھرنہ جانے کب آنکھ
لگ گئ اور وہ سو گیا صبح امی کی
آواز نے کانوں میں رس گھول رہی تھی راحیل
بیٹا ناشتہ کرنے آؤ آنکھ کھلتے اپنی ماں
کو دیکھ رہا تھا سے بچپن سے ہی ماں کا لاڈلہ تھا ناشتہ کے ٹیبل پر
بیٹھا اداس تھا ماں نے پوچھا کیا بات ہے بیٹا
تم اداس ہو پریشان لگ رہےہوکیا بات ہے اس نے ناشتہ کرتے ہوئے دھیمے لہجےکہا کچھ نہیں
بس ایسے ہی سوچ رہا تھا پھر وہ ماں سے اجازت لے کر نکل پڑا اس راستے ہی چل پڑا
جہاں سے لوٹا تھا اور اس کی تلاش میں کہ شاید وہ لڑکی نظر آئے لیکن وہ نہیں آئ اور
وہ بیٹھا رہا شام ہو گئ پھر وہ اداس ہو
کراس کو راستے میں بھی خیال تھا کہ وہ آج اپنے سارے دل کا حال بیان کر دے گا لیکن وہ نہیں
ملی وہ سوچتا رہا کہ اتنی دکھی ہے اس کے
گھر کا پتہ مل جائے تو اس سے رشتہ بھیجوں ایک نظر میں اس سے محبت یو گئ وہ اپنے
قدموں کو آہستہ آہستہ بڑھاتے جا رہا تھا گھر پہنچ کر معمول کے مطابق کمرے میں آکر
سو گیا پھر خوابوں کی دنیا میں کھو گیا اور پھر صبح فون کی گھنٹی سے اٹھ گیا جیسے ہی فون اٹهایا کوئ آواز نہیں پھر اس
تشویش ہو رہی تھی کہ کون ہو سکتا ہے پھر وہ گھر سے چل پڑا اس لڑکی کی تلاش میں لیکن
وہ تو نہیں آئ تھی راستے میں ایک ڈآئری ملی جس میں نام تھا سیما غزل اور پتہ اس نے
ڈآئری کا ورق کھولنا شروع کیا پھر پڑھنے لگا اور اچانک سے خیال آیا گھر جا کر
پڑھوں گھر پہنچا تو ڈآئری پڑھتے ہوئے فون نمبر پر نظر پڑی اس نے نمبر ڈائل کیا لیکن
کوئ جواب موصول نہیں ہوا تو پھر پریشان ہوا اور سوچا اب کیا کرے اپنی امی کو سب
کچھ بتایا اور اس ایڈریس پر اپنا رشتہ بھیجا امی گئ تو پتہ چلا کہ وہ لڑکی معذور
ہونے کے ساتھ گونگی بھی تھی اس کے گھر والوں نے کہا ہم اس کا رشتہ دھوکے سے نہیں
کر سکتے لڑکی پرائ ہوتی ہے دوسرے گھر والے اس کو طعنےدے کر مار نہ دے ہم اس کا
رشتہ کسی اعتبار والے شخص سے کرنا چاہتے ہیں جو ہماری لڑکی کا ساتھ زندگی بھر
نبھائے ہمسفر سچا ہو راحیل کی امی انکارسن کرگھر واپسی چل دی اور
راحیل سے سب بتا ڈالا اور وہ سن کر اس کو
سکتا طاری ہو گیا ہو آگے وہ کچھ کہہ نہ
سکا حسرت لیئے اپنے دل کو سمجھایا کہ اس
لڑکی سے کیسے رابطہ کرے اور دل ہار گیا لیکن اس نے ہار نہ مانی اس رشتے کے لیئے
ہاں کر دی اور زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کیا اس لڑکی کے گھر اپنی والدہ کو لے
گیا رشتہ پکا کردیا اور دل کا سودائ جیت گی