Image by
pixabay
شہریار اعوان (محرم)،وزیرآباد
غموں کی مجھ سے پردہ داری نہ ہو سکی
میں اس قدر ٹوٹا کہ آہ و زاری نہ ہو سکی
میں اک رات جا کے اس سے رشتے توڑ آیا
پھر میری کبھی اس سے یاری نہ ہو سکی
سب موسموں میں وہ خوش باش رہا کرتی
اُس بلبل کو چمن سے بیزاری نہ ہو سکی
مجھے سُکھ کی خاطر کہیں دور جا نکلنا تھا
میں روانہ تو ہو گیا پر تیاری نہ ہو سکی
قتل کر دیا تھا میرے شعرِ درد کا کسی نے
پھر کبھی غزل لب پہ جاری نہ ہو سکی
میں جو اداسیوں کو وبالِ جان کہتا تھا
وہ ملِیں تو مجھے کوئی بیماری نہ ہو سکی
میں اُس کو اپنے دل کا حال سنانا چاہتا تھا
بات کی۔۔ اُس سے پر بات ساری نہ ہو سکی
ہمیشہ سے ہی شیر نے جان لی ہرن کی
ہرن کبھی شیر کی شکاری نہ ہو سکی
سبق سیکھ محرم داستانِ آب و نار سے
کہ پانی کو کبھی آگ پیاری نہ ہو سکی